مشرق وسطیٰ کا خطہ اہمیت کے حوالے سے بہت منفرد ہے ۔ایک طرف جغرافیائی اہمیت تو دوسری طرف وسائل کا انبار۔تیل اور گیس کے ذخائر دعوت تسخیر دے رہے ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی حرص و ہوس سے پُر عالمی طاقتیں للچائی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کسی نے اس خطے کے حالات کو دگرگوں کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈاالا ہے۔ بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے باسی مسلمان ہیں۔ انہیں آپس میں دست و گریباں کر دیا گیا ۔مختلف طاقتیں لسانی ، عصبی ، مسلکی اور فروعی گروہوں میں بانٹ کر کٹ پتلیوں کی طرح نچاتے رہے ۔کسی نے تھپکی دی ، کسی نے اسلحہ دیا تو کسی نے پوری کی پوری عسکریت پسند تنظیم کی داغ بیل رکھ دی۔اب یہ پوداخون مسلم کی آبیاری سے تناور درخت بن چکا ہے۔ فصل کے کٹنے کا موسم آ چکا ہے۔ آخری معرکہ شروع ہو چکا ہے۔ دنیا نیو آڈر کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کا اثر پوری دنیا کے ممالک پر ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ مشرق ومغرب کے تمام ممالک اپنی اپنی بساط کے مطابق ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں جبکہ ہماری مثال اس شتر مرغ کی سی ہے جو ریت پر اپنا سر دے کر اس گمان میں رہتا ہے کہ سب اچھا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی تشویش ناک صورت حال کے حوالے سے چندتھیوریز کا جائزہ لیتے ہیں۔ ماضی قریب میں سعودی عرب کو اس خطے پر کنٹرول حاصل تھا۔ سرمایہ تھا، تیل کے ذخائر تھے، اسلامی ممالک پر برتری حاصل تھی، خارجہ پالیسی کی لچک دار نوعیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں سے اچھے روابط استوار تھے۔عرب لیگ ہو یا او آ ئی سی اسی کا سکہ چلتا تھا۔ دلچسپ پہلؤ یہ ہے کہ اس نے کما حقہ دوسرے ممالک پر براہ راست جارحیت سے گریز کیا جبکہ اپنے عزائم کوپراکسیز کے ذریعے عملی جامہ پہنانے میں اسے کمال حاصل تھا حتیٰ کہ اپنے سخت حریف ایران کے ساتھ بھی کھل کر ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہیں کی۔ مشرق وسطیٰ میں چھوٹے سے چھوٹے عوامل کیلئے بڑی بڑی طاقتوں تک کو اس کی آشیرباد کی ضرورت ہوتی تھی۔حالات میں یکسر تبدیلی اس وقت آئی جب شاہ فیصل دنیا سے رخصت ہو گئے ۔بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حاکم شاہ سلمان کے اندر اس کے جیسی متانت اور دور اندیشی چھو کر بھی نہیں گزری۔ اب یہاں سے سعودی عرب نے اپنی سنجیدہ روش کو ترک کر کے مشرق وسطیٰ کے نسبتاً پُر سکون حالات میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی جس کی زندہ مثال شام میں امریکہ کو حملہ پر اُکسانا اور عراق مخالف باغیوں کی کھل کر حمایت کرنا ہے۔ یہی وہ موڑ تھا کہ جب حالات سعودی عرب کے مکمل کنٹرول سے سرکتے ہوئے نظر آئے۔ شام میں حمایت یافتہ گروہوں کو اندرونی اور بیرونی طو ر پزیرائی نہ ملی ۔ داعش بھی عراق پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے علاوہ اخوان المسلمین کی مخالفت اسے ترکی اور دوسرے عرب ممالک کے نگاہ میں بے وقعت کرنے لگی۔ اس تمام صورت حال کا حاصل یہ نکلا کہ عالمی طاقتوں میں سعودی عرب کی فعالیت کم ہونے لگی اور گمان کیا جانے لگا کہ سعودی عرب بلاک کی عوامی مقبولیت بہت کم ہے ۔اسی کے پیش نظر امریکہ نے شام پر حملے سے گریز کیا تا کہ اسے شامی عوام کی مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔یہ وہ لمحہ تھا جب سعودی عرب تنہائی کا شکار ہوا جبکہ عین اسی وقت امریکہ اور ایران کے روابط میں بہتری آگئی اور ایران کے حالات دباؤ سے نکلتے ہوئے نظر آنے لگے۔ اب سعودی عرب کو اپنی طاقت اور بالا دستی کامظاہرہ کرنا تھا تاکہ عالمی طاقتوں کو بتا سکے کہ اب بھی مشرق وسطیٰ اس کے زیر نگین ہے ۔ پس اس نے یمن پر چڑھائی کر دی۔
دوسری طرف اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران بھی یہ خواہش اپنے دل میں ہمیشہ سے رکھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ پر اس کی حکمرانی ہو۔جب اور جہاں بھی موقع ملا اس نے ان طاقتوں کو پوری طرح راستہ مہیا کیا جن کے ہاتھ اس کے حریفوں کی طرف ہاتھ بڑھ رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ عرق اور افغانستان میں امریکی حملوں کا ایران نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہ کیا۔ اگر ایران یہاں چاہتا تو امریکہ کے لیئے سخت مزاحمت پیدا کر سکتا تھا۔ایران نے ہمیشہ اپنے ہم خیال گروہوں کی پشت پناہی کی ہے اور انہیں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔حزب اللہ ، حماس اور شام کے حکومت حامی گروہ اس کی واضع مثال ہیں۔بہت باریکی سے مطالعہ کیا جائے تو شام ، یمن ، بحرین ، عراق لبنان اور حتی کہ افغانستان میں ایران کھل کر اپنی پروکسیز کو ہوا دیتا رہا ہے۔ جو لو گ ایران کے موقف کی جذباتی حد تک تائید کرتے ہیں انکی دلیل بھی بڑی مضحکہ خیز ہے ۔ وہ شام میں حکومت مخالف گروہوں کو باغی اور دہشت گرد خیال کرتے ہیں اور اسے ریاست مخالف اشتعال کے جوڑتے ہیں جبکہ انکا یہی کلیہ یمن کے حوالے سے یکسر بدل جاتاہے۔ یمن میں سعودی حملوں کو بیرونی مداخلت اور جارحیت سمجھتے ہیں تو دوسری طرف ر وسی حملوں پر بھنگڑے ڈالتے نظرتے ہیں۔ سعودی عرب کے یمن پر حملوں سے ایران کی مشکلات میں ایک دم اضافہ ہوا۔ایک طرف وہ شام اور عراق میں پوری طرح پھسا ہوا ہے اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات مبہم ہیں۔ اب یہاں اس کا دیرینہ حلیف اس کی مدد کو آ پہنچا اور اس طرح روس نے مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن سنبھالی۔امریکہ اس وقت بظاہر حا لات اور واقعات سے لا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بھی دو وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایران سے اس کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور وہ سعودی عرب اور اس کے حامی گروہوں کی شدت پسندی کے مقابل میں دوسری قوتوں کی حمایت کر کے مشرق وسطیٰ میں ایک توازن کا خواہاں ہو۔اس دلیل کویہ بات سہارا دیتی ہے کہ روس نے مشرق وسطیٰ پر حملہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں امریکی حکام سے ملاقات کے بعد کیا ہے۔ روسی حکام کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسی موقع پر عالمی طاقتوں کو باور کرایا کہ مشرق وسطیٰ میں معتدل حالات پیدا کرنے کیلئے بشار الاسد اور ااس کے حامیوں کو داعش اور سعودی نواز عسکری گروہوں کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ور بنایا جائے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکہ روس سے اپنی دیرینہ دشمنوں کا خماز ہ بھگتنے کیلئے روس کو اس خطہ میں ٹریپ کرنا چاہتا ہے۔ یہ مفروضہ اس لیئے حقیقت کے قریب لگتا ہے کہ اگر روس اتنا ہی طاقت ور ہوتا کہ وہ دنیا کے حالات و واقعات پر اثر انداز ہونے کے قابل ہے تو وہ پہلے اپنے گردوپیش کی ٹوٹی ہوئی ریاستوں کو دوبارہ یکجا کرکے اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو بحال کرتا۔
ان حالات کے محرکات جو بھی ہو لیکن نتیجہ صرف ایک ہی نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ عالمی طاقتوں کی چپقلش، وسائل کی چھینا چھپٹی، فرقہ وریت کی بدبو دار صورت حال ہو یا صیہونی طاقتوں کی سازش، نقصان صرف مسلمان کا ہو رہا ہے۔ اسی کا گھر ٹوٹ رہا ہے،آبادیاں ویران ہورہی ہیں اور اپنے بچھڑ رہے ہیں۔ یہ خون مسلم ہی ہے جو اتنا بے قیمت اور سستا ہو چکاہے۔ ساحل سمندر پر ایلان جیسے طفلان کی لاشیں چلاچلا کر پکار رہی ہیں کہ محض اقتدار کے حریص حکمرانوں نے امت کو منقسم کر دیا ہے اور حرمت مسلم پامال ہو چکی ہے۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔