کالمز

لیٹس ویٹ اینڈسی

let’s wait and see”‘‘یہ جملہ یا فقرہ یا یوں کہیں ایک دھمکی تھی جو کہ داعش کے ایک کارکن نے دی تھی شاید جب اس نے یہ بات کی تھی یا بصیرت رکھنے والوں نے داعش جیسے خطرے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں شام کی صورت حال دنیا کو دو بلاکس میں بانٹ دے گی اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بنے گی شاید کسی کے ذہن میں بھی یہ بات نا ہوا کہ ایسا ہو جائے گا مگر پیرس میں حملوں کے بعد سے صور ت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے اور ہر عقل و شعور والا یہ دیکھ رہاہے کہ دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہونے جارہی ہے۔عالمی منظر نامی میں تبدیلی کا سبب بننے والی داعش آخر ایک دن میں تو نہیں آئی اس نے قوت ایک دن میں تو حاصل نہیں کی اس ساری صورتحال کودیکھ کر مجھے قابل اجمیری کا ایک شعر یا د آگیا جس میں قابل کہتا ہے ۔
وقت کرتا ہے پر ورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
انسانی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ داعش ہے کہا چیز ۔ داعش اصل میں ’’دولت الاسلامیہ فی عراق ولاشام‘‘ کا مخفف ہے داعش کی یہ ریاست یا مملک شام اور عراق کے درمیان واقع سرحدی علاقہ میں قائم ہے اس مملکت کا باقاعدہ اعلان ابو بکر البغدادی نے جون 2014 میں کیا تھا اور اس نے اعلان کیا تھا کہ آنے والے پانچ سالوں میں داعش پرتگال سے انڈیا تک کے علاقہ کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی ابو بکر البغدادی نے اپنے لئے خلیفہ ابراھیم کا لقب استعمال کیا خلیفہ بغدادی عراق کے شہر سمارا میں 1971 میں پیدا ہوا اور اس نے بغداد کی یونیورسٹی سے ایم۔ اے اسلامیات کیا پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اپنے علاقہ کی مسجد کا امام اور مبلغ بن گیا مختلف اندازوں کے مطابق داعش لقاعدہ سے زیادہ متشدد ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ طاقت ور بھی ہے اس کے پاس پچیس سے تیس ہزار تربیت یافتہ جنگجو ہیں جن میں سے دو سے تین ہزار کے قریب مختلف یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں ان کے پاس اسلحہ بھی ہے اور پیسہ بھی اور اپنے علاقہ میں لوگوں کو تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں اور مضبوطی سے نظام حکومت بھی چلایا جاتا ہے ان کے پاس پیسہ پیٹرول اور زرعی اجناس کی وجہ سے آتا ہے اور داعش کی آمدنی کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں بیان کی جاتی ہے آخر اتنی مضبوط پوزیشن داعش نے کیسے حاصل کر لیاور اس کو کس نے بنایا اور اس کے مقاصد کیا تھے اس کا جواب خود امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے ہارورڈ یو نیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ داعش کو ہم نے بیایا تھا یوں دیا ۔
’’ ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ علاقہ میں ترکی سمیت امریکہ کے اتحادی ممالک داعش کو داعش بنانے کے ذمہ دار ہیں۔
جو بائیڈن نے مزید کہا کہ ترکوں اور سعودیوں اور متحدہ عرب امارات والوں نے کروڑو ں ڈالر کی رقم اور بھاری مقداد میں ہتھیار شام میں
بشار الاسد کی حکومت کے مخالفین کو فراہم کئے انہوں نے مزید کہا بہت سارے اسلامی ممالک بھی شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے خواہش مند تھے اس لئے وہاں پر شیعہ سنی فسادات بر پا کئے گئے ۔
شام میں موجود حکومت مخالف باغیوں کی سر پرستی کرنے میں ان کی مالی اور اسلحہ کے ساتھ سپورٹ کرنے میں بعض اسلامی اور بعض غیر اسلامی ممالک پیش پیش تھے جس کی وجہ سے مال اور اسلحہ کی فراوانی تھی اور اسی اسلحہ اور مال کی فراوانی نے اور مختلف ممالک کی سرپرستی نے ان لوگوں کو عراق اور شام میں اس قدر مضبوط کر دیا کہ کہ وہ ایک منظم اور بڑے دہشت گرد، گروہ کی صورت اختیار کر گئے ہیں مگر اس کے باوجود بھی شام میں ان باغیوں کو کوئی کامیابی نا مل سکی جسکی وجہ سے انہوں نے اپنی کاروائیوں کو شام سے عراق کی طرف منتقل کر دیا ۔
عراق چونکہ ابھی جنگ کے بعد پوری طرح مستحکم نا ہوا تھااور نا ہی اس میں اس حکومت کا مضبوط کنٹرول قائم ہوا ہے اس لئے اس گروہ کو وہاں پر کامیابیاں ملیں اور اس گروہ میں صدام کی فوج کے سپاہی اور صدام کے نظریات کے حامی بھی آشامل ہوئے اور انہوں نے دہشت گردانہ کا روائیوں کا آغاز کر دیا اب اس ساری صورت حال میں داعش اپنی ان کاروائیوں کی وجہ سے بہت ہی زیادہ بدنام ہوئی جس کہ وجہ سے داعش کی سپورٹ کرنے والے ممالک کو اس صورت حال میں داعش کی سرپرستی سے ہاتھ پیچھے کرنا پڑا اور جیسے امریکہ نے روس کو گرانے کے لئے طالبان کا آغاز کیا اور جب طالبان نے روس کی حکومت گرا دی تو امریکہ نے اپنا ہاتھ ان پر سے کھیچ لیا مگر آج بھی ایشائی خطہ خصوصاً پاکستان اور افغانستان طالبان کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے دوچار ہے ایسے ہی امریکہ اور اس کے اتحادہ ممالک نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف داعش کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا مگر داعش کی مقبولیت اور قوت اور طاقت میں اضافہ ہوا اور ان کے پاس دولت اور اسحلہ کی فراوانی تھی اور ان کے نظریات سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا اور ان کے ساتھ پوری دنیا سے کیا یورپ کیا امریکہ کیا ایشا کیا آسٹریا تمام ممالک سے جہادی آشامل ہوئے اور یوں ان کے پاس ایک مسلح فوج تیار ہوگئی اور ا ن کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملی کے طالبان میں اختلافات کی وجہ سے بہت سارے طالبان داعش کے رکن بن گئے ۔
مگر اس بار امریکہ اور اس کے اتحادی شام کومیں حکومت گرانے میں کامیاب تو نا ہوئے مگر دنیا میں القاعدہ اور طالبان کے ساتھ ساتھ ایک اور دہشت گردی کی آگ کا ایک بڑا علاؤ جلا بیٹھے جس کی چنگاریاں اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں اسی آگ کی ایک جنگاری تھی جس نے پیرس میں لوگوں کی جان لی اور اسی آگ کی جنگاریاں دنیا میں کیا اسلامی کیا غیر اسلامی سبھی ممالک میں سلگ رہی ہیں اور موقعہ کی تلاش میں ہیں کہ کب موقعہ ملے اور وہ آگ پکڑیں پاکستان میں بھی اس کی جنگاریاں دبی پڑی ہیں اس کی واضع مثال جنوبی پنجاب کی ایک مسجد کا داعش سے منسلق ہونے کی وجہ سے سیل ہونا ہے ۔
اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردانہ پالیسیوں کی وجہ سے آج دنیا پھر طالبان اور القاعدہ سے بھی مضبوط تنظیم کے خطرات سے دو چار ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا بگل بجنے ہی والا ہے۔ جو کہ انسان اور انسانیت کے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ جب تک ممالک خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں اپنی ان دہشت گردانہ پالیسیوں سے باز نہیں آئیں گے ہر کچھ سال کے بعد ہم ایسے ہی کسی انسانیت کے دشمن کو خود کھڑا کرتے رہیں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button