کالمز

زلزلوں کی وجوہات اور اقسام

 تحریر: کریم اللہ

26اکتوبر2015کے دوپہر 2بجکر9منٹ اور چند سکنڈگزرا تھا کہ اچانک زلزلے کے زوردار جھٹکوں سے زمین ہل گئی ۔پاکستان کے شمالی علاقوں میں اکثر اوقات زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں جنمیں سے بعض کافی طاقتور ہوتے ہیں ہم نے آٹھ اکتوبر 2005ء کے تباہ کن زلزلے کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اورمحسوس کیاتھا، لیکن 26اکتوبر کے زلزلے کا کچھ اور ہی منظر تھامکانات کی دیوارین توکانپ ہی رہی تھی لیکن اس مرتبہ اونچے اونچے پہاڑوں کے ہلنے بلکہ جھومنے سے قیامت کا منظر دیکھائی دیا۔پاکستان کے شعبہ ارضیات کی رپورٹ کے مطابق اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 8.1جبکہ امریکن جیولوجیکل سروے نے شدت کا اندازہ 7.6لگایاہے۔اس زلزلے کی خاص بات یہ ہے کہ دس سال قبل اسی شدت کے زلزلے کے برعکس حالیہ زلزلے میں نقصانات کی نوعیت بہت کم رہی۔ا کتوبر 2005ء کے زلزلے میں 75ہزار افرادلقمہ اجل بن گئے تھے، جبکہ حالیہ زلزلے میں مرنے والوں کی تعدادصرف تین سے چارسو کے قریب ہے ۔

زلزلے کی وجوہات:

اب جبکہ 26اکتوبر کے زلزلے کو تقریباََ ایک ماہ کا عرصہ گزرچکاہے لیکن متاثرہ علاقوں کے عوام میں اب بھی یہ چہ میگوئیاں جاری ہے کہ زلزلے اور دوسرے قدرتی آفات ہماری گناہوں کا نتیجہ ہے جسکی وجہ سے قدرت اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرکے ہمیں ہوش میں لارہی ہے۔ اسی قسم کے مفروضات زمانہء قدیم سے رائج ہے۔ جب پرانے زمانے میں زلزلے آتے تھے تو اسے دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی سمجھ کر انہیں خوش کرنے کیلئے زندہ انسانوں کی بالی چڑھائے جاتے تھے۔ذہنی لحاظ سے پسماندہ سائنسی علوم سے بے بہرہ معاشروں میں یہی روایات آج بھی پورے آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ قدرتی آفات کو عذابِ خداوندی کے طورپر پیش کرنے کا سب سے بڑانقصان یہ ہوتاہے کہ معاشرے میں ان آفات کی سائنسی وجوہات سے آگاہی اور نقصانات کی تدارک کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے آئے روز کی موسمی تغیرات اور قدرتی آفات سے سینکڑوں جانین ضائع اور اربوں بلکہ کھربوں روپے کے نقصانات کا سامناکرناپڑرہاہے۔آج ہم زلزلے کی اقسام اور وجوہات کو سائنسی نقطہء نظر سے دیکھنے اور ان کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرئینگے سائنسدانوں کے مطابق زلزلے کی دواقسام ہوتی ہیں۔

۱:زیرِ زمین موجود لاوے کے باہر نکلنے سے آنے والازلزلہ:

ماہرینِ ارضیات کاکہنا ہے کہ زمین کے اندرونی حصے میں ابلتا ہوا ایک مائع پایا جاتا ہے جو کہ زیرِ زمین حرکت کرتی رہتی ہے۔ جس مقام پر زمین کی سطح کمزور ہووہاں انتہائی طاقت کے ساتھ زمین کو پھاڑ کر لاوا باہر نکلتاہے جسکی وجہ سے زلزلے آتے ہیں ان زلزلوں کی شدت کا انحصار لاوے کی مقدار اور طاقت پر ہوتاہے۔

2:پلیٹوں کی وجہ سے آنے والازلزلہ:

زلزلے کی ایک اور قسم جو ہمارے علاقوں میں اکثر وقوع پزیر ہوتی رہتی ہے ۔پلیٹوں کی وجہ سے رونماہوتی ہے ۔ماہرِ ارضیات سیددیدار علی شاہ اسکی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں’’زمین بنیادی طورپر سات بڑے پلیٹوں پر مشتمل ہے (پلیٹ زمین کا ایک ٹکڑا ہوتاہے )جو ایکدوسرے کے ساتھ انتہائی دباؤسے جڑے ہوئے ہیں،ان پلیٹوں کو ملانے والی لائین’’ فالٹ لائین‘‘ کہلاتی ہے، جونہی دونوں میں سے کوئی ایک پلیٹ پھسل جائے تو زلزلہ آتاہے ۔اس پھسلن کے بعد جمع شدہ قوت لہروں کی صورت میں حرکت کرتی ہیں ۔اس زلزلے کی شد ت کا انحصار دوپلیٹوں کے درمیان موجود دباؤپر ہوتا ہے ‘‘۔

ٓاکتوبر2005ء اور حالیہ زلزلوں میں فرق:

8اکتوبر 2005ء کو ریکٹر اسکیل پر 7.6شدت سے آنے والے زلزلے نے کشمیر ، ہزارہ ڈویژن اور اسلام آباد سمیت پورے ملک کو ہلاکررکھ دیاجس میں تقریباََ 75ہزار افرادلقمہ اجل بن گئے۔جبکہ 26اکتوبر 2015ء کو اسی شدت کے زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد صرف تین سے چار سو اور مکانات کی تباہی بھی ماضی سے کہیں کم رہی۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہرِ ارضیات سید دیدارعلی شاہ کا موقف ہے کہ’’زلزلے (پلیٹوں کے پھسلنے کی وجہ سے آنے والے ) تین قسم کے ہوتے ہیں۔انتہائی گہرائی پر آنے والا زلزلہ Deep Earthquake ، درمیانہ یا وسطی زلزلہIntermediate Earthquake، سطحی زلزلہ Shallow Earthquake

۱: Deep Earthquakeاس زلزلے کا منبع زیرِ زمین انتہائی گہرائی ہوتی ہے ماہرین کے مطابق 150کلومیٹر سے گہرائی پر آنے والا زلزلہ Deep Earthquakeکے زمرے میں آتا ہے ۔ اس قسم کے زلزلوں کی شدت زیادہ لیکن ان کی نقصانات کم ہوتی ہیں ۔حالیہ زلزلہ اس کیٹگیری میں شمارہوتی ہے۔ڈاکٹر مونالیزا قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ جغرافیہ کے سربراہ ہے اپنے تجزیے میں بتاتے ہیں’’ اکتوبر 2005ء میں آنے والا زلزلہ آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر رونما ہوا تھا ۔اور اس کا منبع زیرِ زمین صرف دس کلومیٹر گہرائی پر تھے جسکی وجہ سے اس زلزلے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے کو ملی اسکے برعکس حالیہ زلزلے کا منبع دوردراز افغانستان کے مشرقی صوبہ بدخشان میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں زیرِ زمین 196کلومیٹر گہرائی تھے جسکی وجہ سے دونوں کی شدت یکسان اور نقصانات میں نمایان فرق رہی ‘‘۔امریکن جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کامقام خیبرپختونخواہ کے انتہائی شمالی پہاڑی ضلع چترال سے صرف 67کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔

2:وسطی زلزلہ(Intermediate Earhtquake):

اس قسم کے زلزلوں کا منبع زمین کے درمیانی حصوں میں ہوتا ہے ۔انتہائی گہرائی پر آنے والے زلزلوں کے برعکس وسطی زلزلوں میں نقصانات زیادہ ہوتی ہے ۔

3:سطحی زلزلے (Shallow Earthquake):

اس کیٹگری کے زلزلے زمین کے اوپری حصے میں وقوع پزیر ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسمیں نقصانات بہت زیادہ ہوتی ہے جیسے کہ اکتوبر2005ء کازلزلہ‘‘۔

ڈاکٹر مونالیزااور سیددیدارعلی شاہ دونوں اکتوبر 2005ء اور حالیہ زلزلوں کی شدت میں یکسانیت اورتباہ کاریوں میں فرق کو اسی گہرائی اور سطحی تناظرکے مطابق دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر مونالیزامزید وضاحت کرتے ہیں’’زلزلے کے منبع سے طاقت کی لہرین نکل کر چاروں جانب روانہ ہوتی ہیں۔ اگر ان لہروں کے راستے میں کوئی رکاؤٹ آئے تو اس سے ٹکرا کر یہ لہرین واپس مڑتی ہے اور اگرمزاحمت نہ ہوتو لہروں کا سفر اپنی طاقت کے خاتمے تک حرکت جاری رکھتی ہے ‘‘۔سید دیدار علی شاہ ان لہروں کی خصوصیات کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں’’زلزلے کے اصل نقطے کے قریب ان لہروں کی لمبائی انتہائی کم ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے ان کی طاقت بہت زیادہ اور جونہی وہ حرکت کرتے ہوئے اپنے منبع سے دور ہٹتی ہے تو ان کی لمبائی بڑھ جاتی ہے جبکہ اسکی طاقت کمزورپڑتی ہے اوریوں زلزلے کے اصل مقام کے قریب زوردارجھٹکے اور دوردراز کے علاقوں میں ہلکے شدت کے زلزلے محسوس کئے جاتے ہیں‘‘۔

چترال خطرناک زون پر :

اونچے اونچے پہاڑوں میں ڈھکے ہوئے وادیء چترال کا شمار زلزلوں کے حوالے سے خطرناک خطوں میں ہوتا ہیں۔جیالوجسٹ سید دیدارعلی شاہ اسکی وضاحت کچھ اسطرح کرتے ہیں’’چترال دوبڑے پلیٹوں یعنی شمال میں واقع یوریشین پلیٹ اور جنوب کی جانب واقع انڈواسٹریلین پلیٹ کو ملانے والی فالٹ لائین پر واقع ہے اس لئے اس خطے پر کسی بھی وقت خطرناک زلزلہ آسکتاہے یہ فالٹ لائین دروش سے شروع ہوکر برنس ،ریشن سے ہوتے ہوئے شندور میں سے گزر کر گلگت بلتستان میں داخل ہوتی ہے‘‘۔

اختیاطی تدابیر :

اب جبکہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ چترال زلزلوں کے لحاظ سے رٹ زون پر واقع ہے لیکن حکومت اورغیر سرکاری تنظیموں نے عوام کی آگاہی اورقدرتی آفات کے موقعوں پر اختیاطی تدابیر اپنانے کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔علاقے میں غربت وافلاس ننگی ناچ ناچ رہی ہیں۔جسکی بنا پر عوام زلزلے سے محفوظ یعنی زلزلہ پروف عمارتین تعمیر کرنے سے قاصر ہے ۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ مستقبل کے کسی بھی ناگہانی آفت سے بچنے کے لئے موثر اقدامات کیجائے۔ عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے کے لئے خصوصیت سے 2005ء کے زلزلے کے بعد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن میں استعمال کئے جانے والی شلٹر کا استعمال ناگزیر ہے اگر عمارت سازی میں ان شلٹرز کا استعمال کیاجائے تو کم خرچے پر زلزلوں سے محفوظ عمارتین تیار ہوسکتی ہیں۔ جس کے لئے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کوعوام کی راہنمائی اور مالی مددکرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں بے انتہا تباہی سے بچاجاسکے۔

صاحبِ تحریر ایک فری لانس جرنلسٹ اور کالم نگار ہیں۔ پولیٹیکل سائنس میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، اور عصر حاضر کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی امور و مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطہ کرنے کے لئے ای میل: karimullahcl@gmail.com,

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button