کالمز

صوبیدار میجر فدا علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسبیح میں امام

ُ مُحرم میں سادگی کے نام پر’’یوم آزادی گلگت بلتستان ‘‘غُربت میں ہی گُزری۔اگر یوم یکجہتی کشمیر ہوتا تو پتہ نہیں اندرون و بیرون ملک سیمنارز،مشاعرے اور خاص کرتمام سکولوں،کالجوں کو تعطیل کر کے بچوں کے زریعئے آزادی کشمیر کے لئے جوشیلے نعرے وتقاریربائی آڈر کیا سرکاری طور پر نہیں ہوتے؟۔ ارے بابا سب کچھ ہوتا ہے۔
اخبار میں جس کسمپر سی کے ساتھ اور احتجاجی حالت میں صوبیدار میجرفداء علی اور میجرغلام مُرتضیٰ(ستارہ جرات)کے مزار پراُن کے خاندان وعزیز واقارب والے نوحہء کناں تھے۔ہاتھوں میں بینرز ،تصاویراوریکم نومبر۱۹۴۷ء آزادی کا وہ حلف نامہ لیکر کچھ اِس طرح نوحہء خوانی کر رہے تھے۔’’(۱)صد افسوس کہ ۶۸ برس گزرنے کے باوجود بھی اپنے گلگت بلتستان کے محُسنوں کو پہچان نہ سکے۔
(۲)قرآن پاک پر قسم لے کر آزادی گلگت بلتستان کے لئے آزادی کا پرچم بلند کر نے والا نڈرہیروصوبیدار میجرفداء علی کا مقبرہ واقع گریلت گنش ’’یکم نومبر‘‘ کے قومی دن کے موقع پر ویران وسنسان کیوں ہے؟۔(۳)قوم کو بتایا جائے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے سر کردہ ہیروز پاکستان کے اعلیٰ ترین اعزازات کے کیا مستحق نہیں ہیں؟۔
(۴)گلگت بلتستان کے تعلیمی نصاب میں تمام قومی ہیروز کے کارناموں کا تفصیلی ذکر کے حقدار کیا نہیں ہیں؟۔
(۵)اُن بانیوں کے نام پر گلگت بلتستان کے ہر ایک ضلعے میں سرکار کیڈٹ کالج بنا ے تو کیا اُس سے بھی مسئلہ کشمیر خراب ہونے کا خدشہ ہے؟۔‘‘
اھل خاندان کو شدید حیرانگی ہوئی ۔ کہ واقعی حکومت کی طرف سے کسی ذمہ دار فرد نے حاضری تک نہ دی۔کیا محسنوں کو بھول گئے؟صوبدار میجر فداء علی کی خدمات اور اُن کا مدبرانہ کردار کو یک سرحرفِ غلط کی طرح مٹایا گیا۔شاطر اور اِبن الوقت میجر براؤن کا نام آتے ہی اعزازات سے نوازنا ،اُن کی اہلیہ کو اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیناواقعی ا بھی تک ہم غلامی کے حصار سے باہر نہیں نکلے ہیں۔صوبیدار میجر فداء علی نے آخری ایام میں اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خط میں سر کار سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’۔۔۔۔۔۔اتنا وقت کے بعدحکومت نے میجر براؤن کواعزازات سے نوازا یعنی پچاس سال بعد اور وہ بھی بعد از مرگ اُن کو ہیرو بنانا اگر واقعی وہ ہیرو تھے تو اُس وقت کی حکومت نے براؤن کی زندگی میںیہ تمغات کیوں نہیں دیئے تھے؟۔انقلابی جے،سی اوز کی کسی میٹنگ میں براؤن کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔کیوں کہ وہ خود ایک قیدی تھا۔براؤن نہایت بزدل ہونے کی وجہ سے بہت ڈرتاتھا۔میجر ولیم براؤن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’’مَیں انقلابی میٹنگ میں شامل تھا یہ اُن کی پلاننگ تھی ‘‘۔ یہ بالکل سراسر غلط بیا ن ہے۔جِن صاحبان کے سکیم اور صلح مشورے سے مہاراجہ کشمیر کی کی حکومت کا خاتمہ یا تختہ اُلٹ دیا تھا وُہ حقدار تھے نہ کہ مکار براؤن۔افسوس ضعیف العمری کی وجہ سے ’’ہلال پاکستان کا میڈل بیگم براؤن‘‘کو دینے کے خلاف عدالت نہیں جا سکا‘‘۔
صوبیدار میجر فداء علی آزادی گلگت بلتستان کے وہ ہیرو ہیں جو تسبیح کے دانوں میں ’’اِمام کی مانند ‘‘ہیں ۔
۱۴۔اگست ۱۹۴۷ ء مسلمانان ہند کی آزادی کا دِن لیکن اُس دوران گلگت بلتستان میں محکوم ،مقہُوم اور مجبورمسلمان بستے تھے۔جو ڈوگرہ کی آہنی شکنجوں میں پھنسے ہوئے تھے۔کیوں کہ گلگت بلتستان ثقافتی طورپرمختلف الخیال ،منتشر ازھان اور ریاستوں کے فر ضی حصاروں میں جگڑئے ہوئے تھے۔ وہ اپنی آزادی کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔چہ جائیکہ گلگت بلتستان اور پھر پاکستان میں اَنضام کی کہاں؟۔لیکن ہر قوم میں خدا تعالیٰ ھدایت کے اسباب پیدا کر تا ہے۔اور گلگت بلتستان میں اُسوقت ہادی کا کام صوبیدار میجر فداء علی کے سپرد کیا۔اِس لئے (ایس ایم) فداء علی متزکرہ ازھان کے گروہوں کو یکجاء کرنے میں کامیاب ہوئے ۔اور ’’قسم ہال‘‘ میں تمام تر گلگت سکاؤٹس جمع کر کے قرآن پاک اُٹھاکرسب سے انقلاب کو کامیاب کرنے کا قسم دلوایا ۔اور یوں نہی انقلاب آج آیا ہے۔جو پاکستان کے مکمل جغرافیہ کی شکل میں اٹھائیس ہزار مربع میل کا یہ جہاں بھی شامل کر کے سامنے ہے۔
گلگت سکاوٹس کو متحد کرنے کا طریقہ کار کچھ یوں تھی۔ کہ( ایس ۔ایم ) فداء علی نے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے مِثل آتش نمرود میں کودنے کے لئے بلا خوف وخطر تیارہوئے۔پھر اپنے خداداد سلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے سب سے پہلے اپنے ساتھی کمانڈروں کو ایک ایک کرکے اعتماد میں لیا۔اور اکتوبر ۱۹۴۷ء کے آخری ہفتے میں اُس وقت کے ہیڈ کواٹرگلگت چھاؤنی کے اندر قسم ہال میں تمام سکاؤٹس کے نفریوں کو شام کے وقت جمع کیا۔اور آزادی کے مِشن کے سلسلے میں ایک پُر زور جوشیلا تقریر کیا۔اُس کا آخری حصہ کچھ یوں ہے۔
’’میرے غیور بھائیوں!میں چند ضروری باتیں جو ہمارے علاقے کی مستقبل کے متعلق ضروری بلکہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں بتانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔وہ یہ ہیں کہ (۱)کیا ہم مسلمان رہ کر خدا اور اُس کے رسول کی پیروی کرتے ہوئے عزت کی زندگی بسر کریں؟۔(۲)یا ہندؤں کی غلامی میں رہتے ہوئے ذلت کی زندگی گزاریں؟۔آج ہم تاریخ کے اہم موڈ پر کھڑے ہیں اور ہم نے آج ہی کے دِن یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم مسلمان رہ کر اپنی آئندہ آنی والی نسلوں کے لئے ایک ایسا قدم اُٹھا ئیں بلکہ پاکستان کے تمام بھائیوں کے ساتھ ملکر اِس نوزائیدہ مملکت کے استحکام کے لئے اپنی جانی ومالی قربانی سے دریخ نہیں کریں۔۔۔۔۔۔‘‘
صوبیدار میجر فداء علی کی تقریر کے خاص کر آخری الفاظ کو سُنے کے بعد گلگت اِسکاؤٹس کے جوانوں میں اِس قدر جذبہء ایمانی ،جوش وولولہ پیدا ہوا کہ جوانوں نے یک زباں ہوکر کہا کہ ’’ہم آزادی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور غلامی کی زندگی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ہم آپ کی حکم پر لبیک کھتے ھین اور مشن کو کامیاب بنانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں‘‘۔ بہ آواز بلندجوانوں نے کہا’’اگر ہم اِس مِشن سے پیچھے ہٹے تو ہم پر ہماری بیویاں طلاق‘‘ہوپھر کیا تھا آپ نے ڈرل نائیک شیراللہ بیگ کے بعدکے صوبیدار کے ہاتھ میں قُرآن پاک تھماکرحکم دیا کہ قسم ہال کے دروازے پر اِس مُقدس کتاب کو اُنچا کر دیں تاکہ سب جواں قسم کھاتے ہوئے اپنے اپنے بیرکوں میں چلے جائیں اور اگلی حکم کا منتظر ہو جائیں ۔ اِس طرح پُر جوش انداز میں سب نوجوانوں نے قُرآن پاک کو بوسہ دیتے ہوئے آزادی کے لئے جان، مَن ،تن قربان کرنے کے لئے قسم کھایا۔
(بحوالہ)حلف نامہ کاپی’’شمع آزادی کی پہلی کرن‘‘ میں بعد کے گروپ کیپٹن میر ذادہ شاہ خان(ستارہ جرات)فرماتے ہیں کہ’’یہ مشکل ترین کام فوجی عہدہ داروں کوایک اور مرکز پر متفق کرنا جن کے زیرکمان اپنے اپنے علاقے کی پلاٹونیں تھیں اور ایک دُوسرے سے بوجہ عدم اعتمادخائف تھے ۔بہر حال مختلف پلاٹونوں کے جوانوں میں اتفاق کرانے کے ساتھ ساتھ عہدہ داروں میں بھی بذریے حلف باہم اتفاق کرانے کا سہراصوبیداتر میجر فداء علی ہی کے سر ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ شمع آزادی کی کِرن تھی ۔ ورنہ آج گلگت بلتستان کا جغرافیہ کچھ اور ہی ہوسکتا تھا‘‘۔
موصوف سری نگر سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اُ س وقت کے اِسکاؤٹ میں چند لکھے پڑے والوں میں سے تھے۔تحریک آزادی کے سلسلے میں تیار کیا ہوا حلف نامہ آپ نے تیار کیا تھا۔فداء علی صاحب کا ہاتھ سے تحریر شدہ حلف نامہ آج بھی محفوظ ہے۔اور این۔ایل ۔آئی مارکیٹ گلگت کا یاد گار بھی گواہی دے رہا ہے۔آج بھی اِس سے جنگ آزادی کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ فداء علی بحیثیت صوبیدار میجر یکم جنوری ۱۹۶۲ء کو سبکدوش ہوئے۔ آپ واحد شخص ہیں۔جس نے صوبیدار میجر جیسے اہم عہدے پر پورا بارہ برس اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا۔آپ کمیشن آفیسر بنے والے تھے لیکن میجر غلام مرتضیٰ(ستارہ جرات) موصوف کے چچا ذاد بھائی ہونے کی وجہ سے اُس وقت کے ساتھی میر زادوں نے مخالفت کردی کہ ایک گھر سے دو بھائی کمیشن آفیسر بن گئے۔ تو ہم کہاں جاہیں گے؟۔ سبکدوشی کے بعد بھی ایک حساس ادارے کے ہیڈ آپ ڈپارمنٹ تھے۔ قصہُ مختصرکہ جنگ آزادی میں آپ کے بے شمار ناقابل فراموش تاریخی کردار ہیں۔
لیکن ناقابل فراموش کردار کو ہم فراموش کر چکے ہیں ۔ہم وفاق کے ساتھ الحاق کے نام پر اپنی تاریخی حیثیت کھو چکے ہیں۔ کسی غیر کو ہم سے کیا دلچسپی؟اُنہوں نے تو چین سے تجارت کرنا ہے ۔محسنوں نے آزادی لی۔تو یہ اُن کا دردسر تھا۔اِکنامک کوریڈور کی گرد وغُبارہمارے ہیروز کے قُبور پر نہیں بلکہ ہماری آنکھوں پرپڑ رہا ہے۔بے نظیر اور نواز شریف کے سحر سے کون ہے؟۔جو نکال کرمحسنوں کی آزادی اور مملکت خداداد پاکستان میں اِنظمام کی مٹھاس بتائے۔معاشرہ خود عقل اور آزادی سے بانجھ ہو چکا ہے۔تو کوئی دوسرا ہمیں کیا بتائے گا؟۔
یہ مشہور تھا کہ پاکستان آرمی اپنے محسنوں کو بھولتی نہیں تھی لیکن جمہوریت کے نام پر ہم نے غلامانہ زہنیت کے حامل لوگوں کا چُناؤ جاری رکھا۔ بس اپنے کئے کی ماتم میں دوسرا کیوں روئے۔
مل ومِلت کے بانیوں کی بے قدری ہائے ہائے ۔ اُن کے مرقد پے نہ جھنڈا نہ سلامی ہائے ہائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button