Uncategorized

چلاس کی ڈائری: کیسے ظالم حاکم اپنے شہر کے ہیں

تحریر:مجیب الرحمان

10296567_681066105294186_5577373311334493622_nسن کے خبریہ جسم میں بجلی دوڑ گئی
بسمہ باپ کے ہاتھوں پر دم توڑ گئی
کیسے ظالم حاکم اپنے شہر کے ہیں
صفدر جن کو شرم حیا تک چھوڑ گئی (صفدر ہمدانی)

کیوں نہ سر شرم سے جھکے، کیوں نہ ساری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو اور کیوں نہ انسانیت ترستی بلکتی رہے۔ گزشتہ دنوں اچانک نیوز چینلز پر ایک خبر نے ہر دل کو مغموم اور ہر آنکھ کو اشکبار کر دی۔ جب دس ماہ کی معصوم بسمہ حکمرانوں کے وی آئی پی پروٹوکول میں اپنے ابا جی کے ہاتھوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی اور بالآخر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ ڈاکٹرز کے مطابق اگر دس منٹ قبل بسمہ کو ہسپتال پہنچایا جاتا تو جان بچ سکتی تھی مگر افسوس شاید اپنی سیاست چمکانے کی ناکام کوشش کرنے والے حکمرانوں کوغریب سسکتے بلکتے ایڑھیاں رگڑتے انسان نظر کہاں آتے ہیں۔ یہی نہیں ایسے ہزاروں واقعات آئے روز کہیں نہ کہیں پیش ضرور آتے رہتے ہیں۔ کہیں ڈاکٹرز کی غفلت تو کہیں جعلی عاملوں کی کرامات کہیں حکومتی لاپرواہی تو کہیں کوئی مجبوری بہانہ بن جاتی ہے اور کئی دل مغموم اور فضا سوگوار ہو جاتی ہے۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے موت سے کسی کو انکار نہیں ہر ذی روح نے موت کا پیالہ ضرور چکھنا ہے۔سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہوا کہ ایک وزیر صاحب جنہوں نے اس موقع پر میڈیا کے سامنے بیان دیا کہ ہمیں بلاول عزیز ہے۔انکے اسی بیان نے کئی دلوں کو چیر کے رکھ دیا۔کئی ماؤں بہنوں بھائیوں کی آنکھیں نم دیدہ ہوئیں اور اپنی بے بسی اور ظالم حکمرانوں کے رویے پر آہ و زاری بھی یقیناً کی ہوگی۔

میں اس وزیر صاحب سے اتنی گزارش کرونگا کہ کیا وہ معصوم جس نے ابھی زندگی کی بہار ہی نہیں دیکھی تھی کسی کی بلاول نہیں تھی۔ اس کا کیا قصور تھا جو آپکے وی آئی پی پروٹوکول کی زد میں آکر سسکتی بلکتی دم توڑ گئیں۔اس کی ماں نے اس کے ساتھ کتنی سختی جھیلی ہوگی، کتنے خواب سجائے ہونگے، بچیاں تو اور بھی پیاری ہوتی ہیں،خدا کی رحمت ہوتی ہیں۔دس ماہ کی بچی کا مسکرانا اور کھلکھلانا مامتا کی محبت کو اور بھی
زیادہ جگا دیتی ہے۔ وزیر صاحب آپ نے ساری انسانیت کی تذلیل اور توہین کی ہے آپ اپنے رویے سے باز آجائیں اور بارگاہ خداوندی میں اپنے گناہوں کی معافی ضرور مانگیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ کسی انسان کا دل دکھانا بیت اللہ کو گرانے سے بھی بڑا گناہ ہے۔بلاول ہمیں بھی عزیز ہے ۔ہم بھی دعا گو ہیں اللہ انہیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔مگر اتنا پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر جس سے انسانیت کو تکلیف پہنچے ہر گز درست نہیں ہے۔

ایک باپ ہونے کے ناطے مجھے یہ معلوم ہے کہ جب بچہ بیمار ہوتا ہے تو اسکے والدین پر کیا بیت رہی ہوتی ہے۔کتنے صدقے کئے جاتے ہیں کتنے نوافل ادا کئے جاتے ہیں۔ساری ساری رات مائیں بیمار بچے کی تیمارداری میں جاگی رہتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہ جاتی ہیں۔

کئی ماؤں کو تو یہ دعا بھی مانگتے سنا ہے کہ اللہ پاک ہماری بھی عمر ہمارے بچے کو نصیب کرے۔مائیں جب بیمار بچے کو اسپتال بھیجتی ہیں توواپسی کے انتظار میں گھر کے دروازے پر ہی اپنے لخت جگر کی صحتیابی کی دعائیں مانگتی بے چینی سے کھڑی رہتی ہیں۔کہ انکے جگر گوشے کے علاج سے متعلق ڈاکٹر نے کیا کہا ہے۔
معصوم بسمہ کے والدین بھی اپنے لخت جگر کو لیکر علاج کے لئے اسپتال کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔مگر وی آئی پی پروٹوکول میں سیکیورٹی اہلکار انہیں آگے جانے نہیں دیتے ۔بیچارہ باپ اپنی معصوم بچی کو اپنی باہوں میں اٹھائے اسپتال پہنچنے کے سبھی راستوں میں دوڑتا پھرتا رہتا ہے۔نجانے کتنی منتیں سماجتیں کی ہونگی۔اس بیچارگی کے عالم میں معصوم بسمہ انکے باپ اور ماں پر کیا کچھ بیتا ہوگا یہ تو دلوں کے بھید جاننے والے مالک کو ہی بہتر پتا ہوگا۔

دس برس چھے ماہ اور چار دن تک تئیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والا بہادر حکمران نطام حکومت کے دور کا بانی جو جس راستے سے گزرتا ہے شیطان بھی اسی راستے پر نہیں جا سکتا ۔انکی بہادری اور دلیری پر اللہ کے رسول ﷺ اپنے اللہ سے دعاؤں میں مانگے وہ عمر ابن الخطاب زار و قطار رو رہے ہیں۔کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ نہر کی پل سے بھیڑ بکریوں کا ریوڑ گزر رہا تھا۔پل میں سوراخ تھا اسی سوراخ میں آکر ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔اسلئے رو رہا ہوں کہ کل اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ بتا تیری حکومت میں بکری کی ٹانگ ٹوٹی تو کیوں ٹوٹی ہے۔تو اس پل کی مرمت نہیں کرواسکتا تھا۔

ایسا حکمران جس کے پاؤں کی ٹھوکر سے زلزلے تھم جائیں،ایک رقعے سے دریائے نیل بہنے لگے۔جسے اللہ کے محبوبﷺ نے جنت کی بشارت دنیا میں ہی دے دی پھر بھی خوفزدہ ہیں کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہرے گا۔

ایک جانب عدل و انصاف کے پیکر بھی اتنے خوفزدہ ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔دوسری جانب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشیاں کرنے والے ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ انہوں نے بھی اپنی رعایا سے متعلق جواب دینا ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بسمہ کے والدین کو صبر نصیب فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو سادگی اور انکے دلوں میں انسانیت سے محبت کا جذبہ ڈال دے آمین!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button