صحتعوامی مسائل

صریر قلم ۔۔۔۔۔ علاج گاہ خود کسی مسیحا کا منتظر!

مجیب الرحمن
ضلع دیامر کو قدرت نے جہاں بے پناہ قدرتی ذخائر سے نوازا ہے وہاں پر منفرد محل وقوع بھی عطا فرمایا ہے۔دیامر کو گلگت بلتستان کا گیٹ وے کی حیثیت بھی حاصل ہے۔گلگت بلتستان کو ملک سے ملانے والے زمینی راستے بھی دیامر سے ہی گزر جاتے ہیں۔جس میں شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بابوسر جلکھڈ ناران شامل ہیں۔شاہراہ قراقرم پر روزانہ لاکھوں مسافر وں کا آنا جانا رہتا ہے۔جبکہ گرمیوں کے موسم میں شاہراہ بابوسر جلکھڈ پر بھی مسافروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بابوسر جلکھڈ کی بل کھاتی تنگ اور سلائیڈنگ سے متاثرہ سڑک پر آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ پیش ضرور آتا رہتا ہے۔ کوہستان سے تھلیچی تک جتنے بھی ٹریفک حادثات یا دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کے زخمیوں کی جان بچانے کے لئے فوری طور پر ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس کا رخ کر لیا جاتا ہے۔ملکی خوشحالی اور استحکام کا ضامن اہم میگا پراجیکٹ دیامر بھاشہ ڈیم کی سروے فزیبیلٹی رپورٹ سے لیکر واپڈا کالونی کی تعمیر،متاثرہ شاہراہ قراقرم کی ری الائمنٹ سے لیکر ماڈل ویلیجزتک سب پر کام تیز رفتاری سے جاری ہے۔اس دوران کوئی بھی حادثہ پیش آئے تو بھی ان زخمیوں کو بھی ڈی ایچ کیو ہسپتال کی جانب روانہ کیا جاتا ہے۔آپس میں قبائلی تصادم ہو یا سیلاب زلزلہ ہو یا دیگر آفات زخمیوں کو فوری طبی امداد بھی اسی ہسپتال میں ہی فراہم کی جاتی رہی ہے۔روزانہ کی بنیاد پر داریل تانگیر سے لیکر جگلوٹ گلگت اور کوہستان ہربن ،سازین،شتیال سمر نالے تک کے تمام مریض بھی ضلعے کے اکلوتے ہسپتال میں علاج معالجہ کروانے کی غرض سے آتے ہیں۔الغرض ڈی ایچ کیو ہسپتال ضلع دیامر کے لئے امید اور سہارے کی آخری کرن ہے۔ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس کو باقاعدہ طور پر مارچ2000میں اس وقت کے چیف ایگزیکٹیوچیف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں افتتاح کے بعد سے ہی فنکشنل کر دیا گیا۔اس وقت ہسپتال سو بستروں پر مشتمل تھا۔بعد ازاں ہسپتال کو اپ گریڈ کر دیا گیا ہے۔مگر تاحال دو سو بیڈڈ کے تعمیراتی کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکا ہے۔

2
ہسپتال کو قائم ہوئے آج تقریباً سولہ سال بیت چکے ہیں ہمیشہ متعلقہ حکام کی مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ابتدا میں تو سپیشلسٹ ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے بھوت بنگلہ بنا رہا۔آہستہ آہستہ عوام میں شعور بیدار ہوا اپنے حق اور سہولت کی خاطرصدائے احتجاج بلند کیا۔دھرنے دئے گئے جس کے بعد مجبوراً کچھ ڈاکٹرز قلیل عرصے کے لئے ڈیوٹی پر حاضر ہوئے ۔آج بھی درجنوں ایسے ڈاکٹرز ہیں جو تنخواہیں اور مراعات اسی ہسپتال کے نام پر لے رہے ہیں مگر ڈیوٹی اپنی من پسند سٹیشنوں میں ہی سر انجام دے رہے ہیں۔اس وقت بھی ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس اہم ضروری مسیحاؤں سے خالی ہے۔جن میں گائنی کالوجسٹ،چائلڈ سپیشلسٹ،سرجن،ڈینٹل سپیشلسٹ،ای این ٹی سپیشلسٹ،ہارٹ سپیشلسٹ ،سائیکاٹرسٹ اور دیگر سپیشلسٹ بالکل موجود ہی نہیں ہیں۔میڈیکل آفیسرز کی تعداد بھی کم ہے اور ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر کو بیک وقت دو ڈاکٹروں کی ڈیوٹی کرنا پڑ رہی ہے۔جس کی وجہ سے ڈاکٹرز خود ذہنی اذیت دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں
ڈاکٹرز کے علاوہ پیرامیڈیکل سٹاف نرسنگ سٹاف، لیبارٹری ٹیکنیشن ،ایکسرے ٹیکنیشن،فیمیل نرسز کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش آتا رہا ہے۔ڈیوٹی سر انجام دینے والے ڈاکٹرز سے لیکر نرسنگ تک سبھی سہولیات کی عدم موجودگی کا رونا روتے نظر آرہے ہیں۔ہسپتال کالونی میں بجلی لوڈشیڈنگ پینے کے صاف پانی کی کمی سمیت دیگر مسائل بھی درپیش ہیں۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال میں کچھ عرصہ قبل ہسپتال کے ایم ایس کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں سے بلڈ بینک کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔جس سے مریض مستفید ہو رہے ہیں۔ہسپتال میں سب سے بڑا مسئلہ بجلی لوڈشیڈنگ اور انتہائی کم وولٹیج کا ہے۔ہسپتال میں موجود ڈیزل جنریٹر بھی ناکارہ اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔کم وولٹیج کے باعث کروڑوں کی مشینری مکمل طور پر جل چکی ہے۔ایمرجنسی کیسز میں ایکسرے اور ٹیسٹ محض کم وولٹیج کے باعث نہیں ہو پارہے ہیں۔جس کی وجہ سے سیریس مریض کو گلگت یا ایبٹ آباد ریفر کیا جا رہا ہے۔کئی مریض ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ہسپتال کی عمارت پر بیرونی اطراف سے نظر دوڑائی جائے تو عالیشان اور دلکش لگتی ہے۔مگر جونہی ہسپتال کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے ہی صحت مند انسان بھی بیمار ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔ہسپتال میں کئی سالوں سے وائٹ واش نہیں کی جا سکی ہے جس کی وجہ سے تمام دیواریں اور چھتیں کالی ہو چکی ہیں۔دروازے کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔واش رومز کی حالت بھی قابل رحم ہے۔چونکہ صفائی کا معیارکو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وائٹ واش نہ ہونے کے سبب صفائی بھی نظر نہیں آ پا رہی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتی عدم توجہی اور لاپرواہی کے سبب دو سو بیڈڈ ہسپتال اب صرف پچاس بیڈڈ بن چکا ہے۔چونکہ سو بیڈڈ ہسپتال کے پچاس بیڈ والے حصے میں فیمیل اور چائلڈ ونگ قائم کیا گیا ہے۔جبکہ چائیلڈ ونگ اور فیمیل ونگ کی بلڈنگ تعمیر کی منتظر ہے۔اس کے ساتھ ہی سو بیڈڈ ہسپتال کی عمارت پر بھی کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔کام شروع کیوں نہیں کیا جا سکا کون ذمہ دار ہے اس کا علم متعلقہ حکام یا پھر سیاسی منتخب قیادت کو ہی ہے۔جس پر وہ آنکھیں بند کئے سب اچھا ہے کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔

3
ہسپتال میں ایمرجنسی کیسز کی کثرت کے پیش نظر سابقہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ جو آج کل غذر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ہسپتال کے اندر موجود یوٹیلیٹی میڈیکل سٹور کو دوسری جگہ منتقل کر کے اس جگہے پر casuality deptt قائم کرنے کے منصوبے پر کام شروع کروایا تھا۔جس میں بیک وقت حادثات کی صورت میں سینکڑوں زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد ملنا تھی۔مگر فنڈز کی قلت آڑے آگئی اور محکمہ پی ڈبلیو ڈی نے اس اہم منصوبے پر کام بند کروایا۔جو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی بند ہے۔کسی بھی منتخب قیادت وزراء مشیران کو اپنی علاج گاہ بہتر بنانے اور اس ،میں سہولیات کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے دو سو بیڈڈ ہسپتال کے لئے ہسپتال انتظامیہ نے کئی سال قبل پی سی ون بنا کر بھیجا ہوا ہے۔مگر صد افسوس ابھی تک پی سی فور میں ان آسامیوں کو شامل بھی نہیں کیا جا سکا ہے۔
دیامر بھاشہ ڈیم کی تعمیر کی مد میں واپدا کے ساتھ معاہدے میں یہ بات بھی طے ہے کہ واپڈا ہسپتال کو اپ گریڈ کرے گا ۔سہولیات اور فنڈز کی فراہمی کی ساری ذمہ داری واپڈا ہی کی ہوگی۔مگر آج تک واپڈا نے نہ ہی ہسپتال میں کوئی سہولیات فراہم کی نہ ہی کوئی ڈاکٹر تعینات کروایا۔مریض رل رہے ہیں۔کہیں ایمرجنسی میں ڈاکٹر نہیں ہے تو کہیں دو نہیں کہیں بجلی وولٹیج آڑے آ رہی ہے تو کہیں کوئی ضروری مشین ناکارہ ہوچکی ہے۔کہیں ویکسین نایاب ہے تو کہیں ٹیسٹ میٹیریل ختم تو کہیں کوئی اور بہانہ ،عوام معمولی بیماری کے علاج کے لئے بھی صبح سے شام تک دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔
عرصہ دراز سے حکومتی عدم توجہی کی بھینٹ چڑھے اس اہم فلاحی ادارے میں علاج کی غرض سے آئے ہوئے مریض اور انکے لواحقین در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود مایوس ناکام لوٹنے پر مجبور ہیں۔مائیں بہنیں اپنے خفیہ مسائل کو لیکر ایک مرد ڈاکٹر کے سامنے مجبوراً بیان کررہی ہیں۔بعض خواتین شرم سے اپنے امراض بیان نہیں کر پارہی ہیں۔اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
معصوم بچے، مائیں،بوڑھے جوان بے بس لاچار مریض سہولیات کا رونا روتے ہوئے در در بھٹک رہے ہیں کہ کس کے در پر جا کر آہ و زاری کریں کس سے شکوہ شکایت کریں اور کس کو اپنا دکھڑا بیان کریں۔ہے کوئی ان کی فریاد سننے والا؟؟؟؟؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button