کالمز

جہد مُسلسل ……. میرا تعلیمی سفر

ڈاکٹر محمد زمان داریلی 

 میرے والدین دونوں ان پڑھ تھے، کیونکہ ان کی بچپن میں داریل میں کوئی سکول تھا ہی نہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنے دل میں علم کا شوق رکھتے ھوئے بھی اس تعلیمی خواہش کو پائہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے تھے ۔۔اس وقت شاہراہ قراقرم نہیں بنی تھی۔ وہ دور جا کے بھی نہیں پڑھ سکتے تھے کیونکہ میرے دادا کی وفات میرے والد کے بچپن میں ہوئیتھی۔ بقول میرے والد ان کو اپنے والد کی شکل وصورت بھی یاد نہیں۔ دادا کے فوت ھونے کے بعد میری دادی کو اپنے بچوں کو لے کر اپنے میکے یعنی کہ بھائیوں کی چھتری تلے پناہ لینا پڑی۔ میکے والوں نے پرورش کا حق ادا کر دیا میری دادی نے باپ بن کر اپنے بچوں کی پرورش کی میرے والد کے تین بھائیاور تھے۔ ایک چھوٹا دو بڑے۔ بہین کوئینہیں تھی۔ ہمیں پھو پھی کی اور والد کو بہن کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہی لیکن یہ اللہّٰ کی مرضی جسے چاھئے بیٹے دے جسے چاھئے بیٹیاں اور بعض کو بے اولاد۔

اس وقت مال مویشی کھیتی باڑی لوگوں کا ذرئعہ معاش ھوا کرتا تھا . ہمارے مال مویشی بھی کھنبری میں موجود تھے۔

جب گلگت میں دادی جوار خا تون کی حکومت تھی تو گلگت شہر کی دو مشہور نہریں آجینی دالجہ اور کھرینی دالجہ، یہ نہریں سونی یب بھی کہلاتی ہیں، کو دادی جوار خاتون نے داریل کے لوگوں کی مدد سے کھدوائی تھی، جس کے بدلے انعام کی صورت میں منیکال اور گیال والوں نے اپنی بندوقوں کی نالیوں میں سونا بھر کے لایا تھا، اور باقی دو گاوُں پھوگچ جو راقم کا آبائ گاوں ھےاور سمیگال والوں نے سونے کے بدلے کھنبری کی اراضی دینے کی اپیل کی جسے دادی جواری نے پھوگچ اور سمیگال والوں کو کھنبری دے دیا جس کی وجہ سے اب کھنبری میں دو گاوُں گیال اور منیکال دونوں کا کوئیحصہ اور حقوق ملکیت نہیں۔ داریل والوں کو آبپاشی کا نہری نظام کے بانی کہا جائے تو غلط نہیں ھوگا……..

کھنبری مال مویشی پالنے والوں کی جنت ہے۔ جنگلات پورے گلگت بلتستان میں کھنبری میں سب سے ذیادہ ہیں ….کھنری رقبہ کے لحاض سے خاصا بڑا علاقہ ھے جس کا رقبہ داریل تانگیر دونوں سے ذیادہ ھے باقی علاقوں کے نسبت کھنبری کے جنگلات غیر قانونی کٹائی سے بچے ہوے ہیں۔ جنگل کو بچانے کا سارا کریڈیٹ مقامی لوگوں کو جاتا ھے جنھوں نے کمیٹیاں بنا کر جنگل کی حفاظت پر مامور کی ہیں۔ غیر قانونی کٹائی کرنے والوں کو یہ کمیٹی سخت جرمانے اور سزائیں دیتی ھیں یہ کمیٹیاں فیصلے کرنے می آذاد اور خود مختار ھوتیں ھیں . گاوُں والوں پر ذاتی جلانے اور مکان بنانے پر کوئیپابندی نہیں لیکن تجارتی غرض سے ایک انچ بیچنے کی اجازت نہیں .۔ اگر یہ جنگلات بھی سرکار کے پاس ھوتے تو آج یہ جنگلات کب کے ختم ھو چکے ھوتے . ایک چیز کی سخت کمی ھے۔ درخت اگانے کی طرف نہ عوام کی توجہ ھے اور نا محکمہ جنگلات کی۔

کھنبری اپنی خوبصورتی میں بے مثال ھے داریل تانگیر اور کھنبری کو بذریعہ سڑک ملایاجائے تو ڈسٹرکٹ غذر تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ ھے کیونکہ یہ علاقے غذر کے مختلف مقامات پھنڈر شندورو سے نزدیک تر ہیں۔یہ سڑکیں دفاعی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کے حامل ثابت ھوسکتے ھیں۔

ہاں تو بات کا بتنگڑ بن گیا۔ میرے والدین میری پیدائش کے بعد داریل سے کھنبری شفٹ ھو گئے میرے والدین کو بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق تھا ان کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں دستک دے رھے ہیں کہتے تھے کہ محنت سے پڑھو پیسوں سے مجبور ھوگئے تو لوگوں کی مزدوری کرینگے لیکن آپ کو پڑھنا پڑے گا، اور واقعی انہوں نے ایسا کیا بھی۔ ایک بار جب میں اور میرا ایک بھائیکراچی جا رھے تھے تو میری والدہ نے اپنا ایک گلے کا ہار اس وقت چاندی کا بنا ھوا تھا بیچ کر ہمارے اخراجات کا بندوبست کیا تھا(ماں تجھے سلام)۔ میرے والد مال مویشی کی دیکھ بال کرتے تھے بچپن میں مجھے بھی کئ بار خاص کر گرمیوں میں سنت انبیاء (بکریاں )چَرا نے کا شرف حاصل رہا۔ جنگل سے لکڑیاں لانا گھاس کاٹنا ہل چلانا زمینداری کا ہر کام کرنے کا موقہ ملا ھے اور اب بھی ضرورت کے موقع پر یہ زمہ داری نبھانے کی خوب زصلاحیت رکھتا ھوں۔

ساتھ ساتھ میرے والد نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد سودا سلف کی دوکان بھی کھولی تھی۔ اس دوکان کا سامان گدھوں کی پیٹھ پر لاد کر 16 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے سیر گاوُں تک لانا ایک جان لیوا کام تھا۔ دوکان کا سامان سوات اور پنڈی سے لایا جاتا تھا خریدوفرخت ذیادہ تر ادھار ھوتی تھی سردیوں میں لوگ سامان لیتے تھے اور گرمیوں میں مال مویشی بیچ کررقم ادا کرتے تھے مجھے بھی کئ بار دوکاندار ی کی نشست پر بیٹھنے کا اور سواتی جلیبی اور مٹھائی پر ہاتھ صاف کرنے کا بھر پور موقع ملتا تھا۔ سردیوں میں یہ دوکان چلتی تھی گرمیوں میں دکان کو تالے لگتے تھے کیونکہ ہمیں مال مویشی کے ساتھ اوپر پہاڑوں پر جانا ھوتا تھا اس مقام کو لوکل زبان میں نِیریل (گرمائ مقام)کہتے تھے۔ موسم کے حساب سے مال مویشی کے ساتھ اس مقام پر منتقل ھونا اب بھی جاری ہے۔ صبح سویرے اٹھنا، بکریوں کا دودھ دھونا،  اور پھر بعض اوقات چرواھے کے کسی کام پر جانے کی صورت میں خود بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک جانا کافی مشکل کام ہوتا تھا۔

بعض اوقات بیماری کا بہانہ بناتا تھا تاکہ اس مشکل سے کچھ افاقہ ملے لیکن والدین کو میری خود ساختہ بیماری پر پریشانی ھوتی تھی۔ ایک دفعہ میری بیماری کے بہانے بڑھنے لگے تو والدین نے نبض دیکھ کر مریض کی بیماری کی تشخیص کرنے والے طبیب کو لایا۔ اس وقت کے طبیب مریض کو بہت ساری جڑی بوٹیاں ملا کر ایک مشروب بناتے تھے اور ذیادہ تر مریضوں کی بیماریوں کو ڈاکٹر(طبیب) قبض کے خانے میں شمار کرتاتھا۔ مشروب پینے کے بعد مریض کو اسہال شروع ھوتے تھے۔ بعض اوقات دوا ذیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے مریض کو جان سے ہاتھ دھونا پڑ تا تھا۔ مرنے والے کو کھنبری سے دفنانے کے لیے داریل بذریعہ دیسی بیل کی کھال سے بنی کشتی جسے مقامی زبان میں جالو کہا جاتا تھا لایاجاتا تھا۔ کھنبری سے لائی جانے والی لاش کو جمعے کے دن کے انتظار میں رکھا جاتا تھا۔ جمعے کو لاش دفنایاجاتا تھا۔ اس وقت کا عقیدہ یہ تھا کہ جمعُہ مردے کو قیامت تک حساب کتاب ھونے سے بچاتا ھے۔ (جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button