کالمز

کرپشن، احتساب اورہماری قومی اخلاقیات

شاہد حسین ساحل
کرپشن بظاہر ایک عام اور سادہ سا لفظ ہے مگر یہ اپنے اندر بدی کی ایک دنیا سمیٹا ہوا ہے جس کو سمجھنا کسی زمانے میں ضرور مشکل ہوتا تھا مگر آج کے اس ترقی یافتہ اور میڈیا کے دور میں ہر خاص و عام اس کی حقیقت سے آگاہ ہیں۔میرٹ کی خلاف ورزی، اقربا پروری ، شخصیت پرستی ، مذہبی بے راہ راوی، دہشتگردی، رشوت ستانی ، قانون کی خلاف ورزی اور ایسے دیگر عوامل جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو اور کسی کے اوپر ظلم ہوتا ہو وہ کرپشن کی قسمیں ہیں جس کی وجہ سے معاشرے عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار ہوت اہے جبکہ کرپشن کی وجہ سے حقدار اپنے حق سے عزت دار اپنی عزت سے ، بیوی اپنے شوہر سے ، بچے اپنے باپ سے اور ماں باپ اپنے اولاد سے محروم ہوتے ہیں۔کرپشن کے منفی اثرات کو سمجھنے کے لئے انسان کے ضمیر کا زندہ ہونا انسان کے ایمان کا تازہ ہونا اور انسان کو انسانیت سے محبت ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے جبکہ جس کا ضمیر اپنے اصلی حالت کو کھو دیں جس کا ایمان زباں کی حد تک ہو اور جس کو انسانیت کے رشتے کا احساس تک نہ ہو وہ اس لفظ کی حقیقتیں و نقصانات کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ
زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ الا اللہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
کرپشن پانچ حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اس نے ساری دنیا اور اس میں بسنے والے اربوں انسانوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اور اسی کرپشن نے نہ صرف ہمارے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ معاشرے کے بنیادوں کو کھوکھلا کر کے چھوڑ دیا ہے جس کے بدولت آج ہمارے معاشرے کا یہ عالم ہے کہ امید اور یقین کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ، نا امیدی اور بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ مریض کو دوائی ، عوام کو کھانے پینے کا سامان ایک نمبر ملنے کا یقین نہیں، ٹیسٹ دینے والے کو نوکری اور محنت اور لگن سے پڑھ کر اچھے نمبر حاصل کرنے والے کو اعلیٰ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنے کا یقین نہیں ، بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بے یقینی اور ناامیدی کی انتہا یہ ہے کہ گھر بیٹھا باہر جائے تو ماں کو بیٹے کا سلامت گھر آن کا یقین نہیں ہوتا۔ ایسے پر آشوب اور کرپٹ ترین دور میں جب بھی میرٹ کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی باتیں سنتا ہوں تو مذاق سا محسوس ہوتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یا جو لوگ ہمارے معاشرے میں آج سیاہ و سفید کے مالک ہیں کیا وہ قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالا دستی کو حقیقی معنوں میں بحال کر سکتے ہیں تو میرا جواب نفی میں آتا ہے کیونکہ چور خود کسی چور کا محاسبہ نہیں کر سکتا۔ تاریخ اسلام کا ایک واقعہ حضرت علیؓ کے دور خلافت کا ہے ایک عورت کو عدالت میں پیش کیا گیا اس پر الزام تھا یہ زنا کے جرم میں ملوث ہے جب جرم ثابت ہوا تو عدالت نے فیصلہ سنا یا کہ اسے رجم کیا جائے، رجم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ زمین میں ایک کھڈا کھود کر مجرم کے جسم کا آدھا حصہ زمین میں دفن کر دیا جاتا اور چاروں طرف سے لوگ پتھر مار مار کر اس کا کام تمام کر دیتے تھے، عدالتی حکم کے بعد جب انتظامات مکمل کر کے سنگ باری کا وقت آیا تو حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ اس پر وہ شخص سنگ باری کرے جس نے خود یہ گناہ نہ کیا ہو یہ سننا تھا کہ سب نے اپنے اپنے دامنوں سے پتھر چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئیاور صرف تین حضرات ہی رہ گئے جنہوں نے اس کیس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔اس واقعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو خود کرپشن کرتاہو وہ نہ صرفکسی کرپشن کرنے والے کا احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتا بلکہ حقیقی معنوں میں اس کا احتساب بھی نہیں کر سکتاکیونکہ اگر حقیقی معنوں میں قانون کی حکمرانی، میرٹ کی بالا دستی اور احتساب کا عمل جاری رہا تو سب اس کشتی کے سواری نکلے باقی آپ کی اپنی سوچ ہے۔ کرپشن نے بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک اپنے پنجے گاڑھ دئے ہیں جس کی وجہ سے ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اس مرض کا شکار ہے، ابتدا ہی سے اقرباء پروری ، رشوت ستانی اور سفارشی کلچر ہمارے معاشرے میں حاوی رہا ہے اور حکمران طبقہ بڑے فخر سے اس کلچر کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔تعلیم یافتہ غریب اور سیاسی اثر و رسوخ نہ رکھنے والے بے چارے اور بے بس افراداس کلچر کا شکار ہو رہے ہیں۔ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص اقربا پروری رشوت ستانی اور سفارشی حمام میں اترتا ہو اس اس گندے نظام کو دیدہ دلیری سے فروغ دے رہا ہو اور جہاں قانون و میرٹ کا تصور لوگوں کے دلوں سے ختم ہو رہا ہو جہاں غریب اور سیاسی سر پرستی نہ رکھنے والوں کے لئے سرکاری ملازمت شجر ممنوع بنایا گیا ہو ، جہاں سرکاری ادارے اور املاک کو سیاستدان اور با اثر افراد اپنی جاگیر سمجھتے ہوں ، جہاں میرٹ اور قانون کو عملی جامہ پہنانے کے وقت سارے اصول و قواعد کو پاؤں تلے روند کر محض اقربا پروری اور جیالا نوازی کا علم تھام لیتے ہوں اور جہاں عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ان کے حقوق کا پاسبان ہونے کا ببانگ دہل جھوٹے دعوے اور اعلانا ت کئے جاتے ہوں تو ایسے معاشرے میں قانون کی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور احتساب کو شفاف عمل کی باتیں مذاق نہیں تو اور کیا ہیں کیونکہ جس معاشرے میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں قانون کی خلاف ورزی میرٹ کی پامالی اقربا پروری اور رشوت ستانی کا کلچر اپنے عروج پر ہے اور یہاں با اثر افراد تقرریوں اور تبادلوں کو سیاسی طور پر کر رہے ہیں اور یہاں غریب بے سہاراتعلیم یافتہ افراد کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیںیہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے امید و یقین ختم جبکہ سکون غارت ہو چکا ہے اور جس انداز سے قانون کی خلاف ورزی اور میرٹ کی پامالی ہو رہی ہواقربا پروری، رشوت ستانی سفارش اور جیالا نوازی ہو رہی ہو اس کا انجام کیا ہوگا آپ خود فیصلہ کر لیں جب اقربا پروری، سفارش ، جیالا نوازی اور رشوت ستانی کے ذریعے افراد اداروں میں آئینگے تو یقیناادارے تباہی کی طرف ہی جائینگے۔قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالادستی کیلئے ہر خاص و عام کو اپنا احتساب کرنا ہوگا تب جا کر قانون و میرٹ نام کی کوئی شے نظر آئے گی بصورت دیگر ہمارے موجودہ معاشرے میں کسی با اثرشخص کااحتساب کرنا ایسا ہی ہے جیسے بے سر و سامانی کی حالت میں شیر پکڑنے کی کوشش کی جائے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں کوئی صحافی یا کالم نگا نہیں ہوں آپ سوچتے ہونگے جب آپ کچھ نہیں تو پھر لکھنے کی کیاضرورت تھی تو میں اپنے معزز قارئین و عرض کروں کہ گزشتہ دنوں ہمارے مقامی اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ ہمارے ایک سابقہ وزیر کے کرپشن کے خلاف ایک قومی ادارہ حرکت میں آیا ہے جس کے بدولت وزیر موصوف روپوش ہو چکے ہیں اس خبر کا منظر عام پر آنا ایسا تھا کہ ایسا لگا جیسے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آگرا ہواس خبر کے منظر پر آنے کے بعد جو منظر اور ماحول دیکھنے کو ملا وہ انتہائی فکر انگیزاور پریشان کر دینے والا تھا۔حالات اور واقعات نے مجبور کر دیا کہ اپنے ٹوٹے پھوٹے جذبات اور خیالات کو زیر قلم لاؤں۔ خبر ایک وزیر اور قومی ادارے کے درمیان تھی جبکہ ایسی خبریں ہمارے معاشرے میں روز سننے کو ملتی ہیں مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سارے لوگ اور پارٹیاں میدان میں آگئی جبکہ اس پکڑو نہ پکڑو کے رسہ کشی میں صحافی برادری بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور صحافت بھی ایمان اور بے ایمان کے چکر میں پھنس کر رہ گئی یہ سب دیکھنے کے بعد محسوس ہواکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں پر نہ حق کی صحیح سمجھ یے اور نہ سچ کی جہاں پر قابلیت اور بے ایمانی میں کوئی فرق نہیں ار جہاں بے حیائی کو خوبصورتی سمجھا جاتا ہو جبکہ جھوٹ بولنا ہنر سمجھا جاتا ہو ، کرپشن میں ملوث وزیر صاحب کے خلاف کاروائی کی خبر میڈیا کی زینت بنی تو ہر ایک نے اپنے کپڑے اتار کر اس حمام میں داخل ہوا اور ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے نہانا شروع کیا۔ ایک صاحب کو پڑھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے وزیر صاحب نے ۶۵ کی جنگ میں کار ہائے نمایاں انجام دیا ہو اور یہ نشان حیدر کے مستحق ہیں اور اسے نشان حیدر سے نوازا جائے ، مجھے ذاتی طور پر وزیر صاحب سے کوئی اختلاف نہیں ہے بحیثیت انسان مجھے اس کی ذات سے محبت اور ہمدردی ہے کیونکہ بزرگوں کو کہنا ہے کہ نفرت گناہ سے کرو گنہگار سے نہیں۔جبکہ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں گناہ سے محبت اور گنہگار سے نفرت کیا جاتا ہے ۔ ہمارے معاشرے اور اس سار ے منظر نامے کو بغور دیکھنے کے بعد مجھے اپنے استاد محترم کے وہ اشعار جو وہ سکول کے زمانے میں ہمیں سنایا کرتے تھے یاد آ رہے ہیں، استاد محترم کا کہنا تھا کہ محنتی کو کمین کہتے ہیں ، بے ایمان کو ذہین کہتے ہیں اس زمانے کے نا سمجھ انسان بے حیاء کو حسین کہتے ہیں ۔ اگر آج ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو یہی کچھ ہو رہا ہے یہ خواہش ہر با ضمیر با ایمان انسانیت سے محبت کرنے والا ہر شخص کی ہے کہ معاشرے میں تبدیلی آئے اور انصاف ، عدل اور رواداری پر مشتمل ایک انسانی معاشرہ تشکیل پائے مگر اس کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں کسی نے کیا خوب کہا تھا شہادت کی تمنا سب رکھتے ہیں مگر مرنے کے لئے کوئی تیار نہیں، مومن ہونے کی خواہش سب رکھتے ہیں مگر عبادت کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں امیر ہونے کی آرزو سب رکھتے ہیں مگر محنت کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ یہ میری دلی خواہش ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہو، میرٹ کی بالا دستی ہو اور انسانیت سے محبت کے جذبت عام ہوں مگر معاشرے میں جس طرف بھی نظر جاتی ہے مایوسی اور نا امیدی کے بادل چھائے نظر آتے ہیں یہاں تک میرے ساتھ آنے کے بعد آپ بھی سوچتے ہوں گے ہم کس طرف جا رہے ہیں جہاں پر ہر شے کے دو معیار ہیں قانون امیر اور غریب کے لئے الگ الگ ہے انصاف طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ، تعلیم میڈیکل اور دیگر ضروریات زندگی بے اثر اور با اثر کے لئے الگ الگ اور جہاں کرپشن کرنے والے کو اپنا ہیرو اور سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے اپنا بھائی، بات یہا ں پر ختم نہیں ہوتا مسجدوں ، امام بارگاہوں، پارکوں ، بازاروں اور دوسری جگہوں پر بم دھماکوں کے ذریعے بے گناہ افراد شہید کرنے والے دہشتگرداگر ملکی سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے تو اسے شہید کہنے سے شرم محسوس نہ ہوتی ہے اور جہاں پرنہ ادارے آزاد ہوں اور نہ ہی ادارے کے سربراہان، سیاستدان تقرریوں اور تبادلوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوں وہاں قانون کی ھکمرانی اور میرٹ کی بالا دستی و احتساب کا عمل وہ بھی شفاف انداز میں دیوانوں کے خواب کے مترادف ہے مگر پھر بھی نا امید نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اچھے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیشہ اچھے وقت کی امید رکھو۔ یہاں تک ساتھ چلنے کے بعد آپ کے ذہن میں اس سوال کا آنا ایک فطری عمل ہے کیا ہمارا معاشرہ اس قدر تباہ ہو چکا ہے کہ اب اس کی درستگی ممکن نہیں، نہیں ایسا ہر گز نہیں کیونکہ نا امیدی کفر ہے اب بھی ہماری بقاء مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں اس کے لئے ہم سب کو سب سے پہلے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا کیونکہ ہماری تباہی و بربادی کی اصل وجہ یہ رہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو چھوڑ کے باقی سب کو ٹھیک کرنے میں مصروف ہو چکے ہیں جبکہ بحیثیت قوم ہم اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ کسی کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے یہ نہیں دیکھتے کہ تین انگلیاں ہماری طرف اشارہ کر رہی ہیں اور چلا کر کہہ رہی ہیں کہ پہلے اپنے گریبان میں دیکھو، ہمارا بحیثیت قوم یہ المیہ رہا ہے کہ ہم خود کو ٹھیک کرنے کی فکر کرنے کے بجائے دوسروں کو ٹھیک کرنے کے فکر میں ہوتے ہیں۔کسی کا کیا خوب کہنا ہے خود بدلتے نہیں قانون بدل دیتے ہیں اگر آج ہم نے اپنی روش نہیں بدلی تو تباہی و بربادی ہماری مقدر ہے ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ اور روشن بنانے کے لئے اپنے آج کو بدلنا ہوگاہمیں رنگ نسل پارٹیوں اور مصلحتوں و مجبوریوں کے چنگل سے باہر نکلنا ہوگا اور ہمیں اپنے اندر یہ جرات پیدا کرنا ہوگا کہ ملکی، مذہبی علاقائی ، پارٹی پرستی اور شخصیات پرستی کی بنیاد پر کسی نہ کسی کرپٹ اور نا اہل شخص کی حمایت نہیں کرنا ہوگی بلکہ کسی اہل و ایماندار اور دیانتدار شخص کی مخالفت کے بجائے اس کی مکمل اخلاقی و اجتماعی مدد کرنی چاہئے تب جا کر ہمارا معاشرہ ایک اسلامی و انسانی معاشرہ بن سکتا ہے بصورت دیگر فیصلہ آپ خود کریں۔
نوٹ: زندگی میں پہلی دفعہ قلم اٹھایا ہے غلطی کی بہت گنجائش ہے پڑھنے والے محترم قارئین سے گزارش ہے درگزر کرنے کے ساتھ ساتھ رہنمائی فرمائیں گے۔ رابطہ نمبر0344883788
اس خواہش اور دعا کے ساتھ آپ کی اجازت چاہوں گا،
خدا کرے کہ مرے ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا ہم سب کو فکر و عمل کرنے کی طاقت عطا کرے۔ (آمین)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button