کالمز

گلگت بلتستان میں ۔۔۔۔نوروز

تحریر : سید قمر عباس حسینی

نوروز ایک ایسا ثقافتی تہوار ہے جو اپنے ساتھ علم دوستی،مساوات اور بھائی چارگی کی روایات لے کرطلوع ہوتا ہے ۔معروف دانشور ، ریاضی دان اور منجم ابو ریحان البیرونی  کے نزدیک نوروز  خلقت کی پیدائش کا جشن ہے اور ایسا دن ہے جو لوگوں  کو ا س بات پر تیار کرتاہے کہ اپنی پرانی چیزوں کو  نئی  چیزوں میں تبدیل کرکے خود کو آراستہ اور اپنی روح کو تازگی عطاکرے ۔یہ دن نئے سال کی تحویل اور بہار کے معتدل لمحات کے ساتھ شروع ہوتاہے ۔

یہاں  ہم اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ عید نوروز کی ابتدا  طلوع اسلام سے بہت پہلے  538 برس قبل مسیح  کورش اور ہیخامنشی بادشاہ کے دور حکومت میں ہوئی۔ انھوں نے باقاعدہ  طورپر اس کو قومی جشن قراردیا اوراس دن  وہ فوجیوں کی ترقی، پبلک مقامات، ذاتی گھروں کی پاک  سازی  اورمجرمین کو معاف کرنے کے سلسلے میں پروگرام اور تقریبات کا اہتمام  کرتے تھے ۔ اسلام  تمام اقوام عالم کے لیے  ہے جو انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے ۔ اسلام نے علاقائی ثقافتوں کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور اسلامی حکمرانوں نے  کسی بھی مفتوح  قوم کی مثبت باتوں کو ختم نہیں کیا ۔ عید نوروز کے بھی بہت سے پہلو مثبت ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات  کے  مطابق ہیں مثلا صلہ رحمی، دوسروں کو تحفے دینا، گھر کو صاف ستھرا کرنا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ وہ امور ہیں جو مثبت اور اسلام میں قابل تحسین ہیں۔ان مثبت امور  کے علاوہ  اسلامی تاریخ میں تقویم کے اعتبار سے نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا،درختوں پر شگوفے پھوٹے،حضرت نوح کی کشتی کوہ جودی پر اتری اور طوفان نوح ختم ہوا، اسی دن زمین نے پھل ، سبزیاں اگانا شروع کیں- اسی دن حضرت آدم نے الله کی عبادت شروع کی ۔نبی آخرالزمان پر نزول وحی کا آغاز ہوا،حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا اور مقام غدیر خم پر ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کا اعلان ہوا ۔

5-اسی دن کشتی نوح کوہ جودی پے آکے ٹھہری- 6-اسی دن حضرت حزقیل پیغمبر نے کچھ ہڈیاں دیکھیں تو اللہ سے سوال کیا کہ یہ ہڈیاں کیسے زندہ ہوں گی تو الله نے حکم دیا کہ ان پے پانی چھِڑکو- تو وہ ہڈیاں بحکم خدا زندہ ہو گیں – 7-اسی دن جناب امیر (ع) نے رسول خدا صلی الله علیہ والہ وسلم کے کندھوں پے بیٹھ کر خانہ کعبہ کے ٣٦٠ بتوں کو پاش پاش کیا- 8- – 9-اسی دن حضرت جبریل پہلی وحی لاے اور نبؤت کا آغاز ہوا- 10-اسی دن نمرود نے حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا اور بحکم خدا آگ گلزار بنی- 11-اسی دن حضرت ابراہیم نے نمرود کے بت توڑے – 12-اسی دن ہواؤں نے پھول کھلانا شروع کیے- 13-اسی دن جناب امیر (ع) نے خلافت سنبھالی – جناب امیر نے جنگ نہروان اسی دن جیتی اور خارجیوں کو شکست دی – 14-اسی دن امام زمانہ علیہ السلام دیوار کعبہ کے پاس ظہور فرمائیں گے اور اسی دن آئمہ طاہرین رجعت فرمائیں گے_

 

نوروز کے  دن  کو شمسی سال کے آغاز کے ساتھ موسم بہار کی آمد  اور عید طبیعت بھی  سمجھا جاتا ہے ۔ طبیعت میں آنے والی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے تو بہار انسان کے مزاج میں خوشی کی کیفیت لاتی ہے ،ہر شے تروتازہ اور ہری بھری ہوجاتی ہے۔یوں انسانی فطرت میں خوشی کی لہر کا اظہار ” نوروز” ہے  ۔  ایرانی قوم  عید نوروز کو سال کے سب سے بڑے قومی تہوار کے طور پر مناتی ہے ۔ نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے گھروں کی صفائی شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کو "”خانہ تکونی "” کا نام دیا جاتا ہے ۔ وہ سال کے آغاز پر اپنے گھروں میں دسترخوان بچھاتے ہیں جن پر سات مختلف اور مخصوص اشیاء رکھی جاتی ہیں جن کا نام جروف تہجی کے مطابق "س ” سے شروع ہوتا ہے ۔ اس رسم کو "ھفت سین ” کا نام دیا جاتا ہے ۔ان اشیاء کو  زندگی میں سچ، انصاف، مثبت سوچ، اچھے عمل، خوش قسمتی، خوشحالی، سخاوت اور بقاء کی علامت سمجھی جاتی ہے۔نوروز کا جشن  دنیا کے بارہ ملکوں میں منایا جاتا ہے جن میں ایران، آذربائیجان، قزاقستان، قرقیزستان، تاجیکستان، ترکمنستان، ازبکستان، ترکی، عراق، افغانستان، ہندوستان اور پاکستان شامل ہیں حتیٰ کہ چار ہزار سال گزرنے کے بعد اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 2010 میں نوروز کے دن کی باقاعدہ طور پر تو ثیق کی ۔ہر سال یہ دن دُنیا کے مختلف ممالک میں تین سو ملین (300 m) لوگ مناتے ہیں ۔یوں  یہ جشن اب ملکی سرحدوں اور مذہبی تقسیمات کی حدوں کو عبور کرچکا ہے اور معاشروں کو ایک دوسرے سے متحد کر کے دنیا میں انسانی اقدار کی ترویج میں مدد کررہا ہے۔

گلگت بلتستان میں اسلام ایرانی مبلغین کی توسط سے پھیلا اور ان مبلغین کی آمد سے ایران کے تہذیب و تمدن  نے ان علاقوں میں گہرا اثر چھوڑا ان آثار میں سے ایک عید نوروز ہے  ۔ جشن نوروز کو گلگت بلتستان کی تاریخ ، ثقافت اور تہذیب میں اہم مقام حاصل ہے ۔ یہاں نوروز کو فطرت کی تجدید کا دن تصور کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں کے  لوگ نوروز کے دن اور تحویل سال کے لمحے کو خیر وبرکت اور بہتر سال کی دعا کے ساتھ  ثقافتی اور مذہبی عقیدت واحترام سے مناتے ہیں۔نوروز  اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر سوچنے اور آنے والے سال کے لیے  غور وفکر کرنے کا ایک سنہری موقع ہے ۔یہ تبدیلی،تحول و تغیر اور دگرگونی کی علامت ہے۔ اس دن ہمیں محرومین اور محتاجوں کی غربت بھری زندگی نہیں بھولنی چاہیے ۔اس دن کو احسن الحال میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button