کالمز

جدید طرز کی نظامی غلامی

اے ایم خان چرون، چترال

پاکستان میں برطانوی سامراجی نظام جونہی ختم ہوئی تو آزادی کے بعد غریب طبقے میں یہ اُمید پید ا ہوگئی تھی کہ وہ اب آزادی حاصل کر سکتا ہے، لیکن وہ سامراجی نظام کے باقیات پر ایک دوسرا نظام بنی گئی جو یہ امتیازی ، اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے سے قاصر رہی، جو اب ایک دوسری شکل میں جاری و ساری ہے۔ اِسلامی جمہوریہ پاکستان اب تک پرانے اور جدید طرز غلامی کے نظام سے مزدور طبقے کو آزاد کرنے سے عدم دلچسپی کا شکار نظر آرہاہے،کیونکہ ملک میں غلامی ایک غیرقانونی عمل قرار دی گئی ہے، اور بونڈڈ لیبر ایکٹ بھی نافذ العمل ہوگئی ہے لیکن وہ آٹھارہ سال بھی قابل عمل نہیں ہوا ہے تو اِ سکا کیا مطب ہوسکتا ہے؟

تاریخ میں ہزاروں مثال موجود ہیں کہ کہاں سے غلامی شروع ہوجاتی ہے ،اور غلامی ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ مذہب اِسلام میں غلامی کو ایک غیر اِسلامی عمل قرار دی گئی اور اِسے اِنسان کی شخصیت کے برعکس قرار دی گئی۔ موجودہ دور میں دیکھا جائے تو غلامی کا عکس مغرب اور مشرق میں مختلف شکل میں موجو د ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں قانون اور سسٹم موجود ہے کہ جدید طرز غلامی کے خلاف بات بھی کی جاسکتی ہے اور اِسے ختم بھی، لیکن مشرق میں غلامی ایک نئی شکل اختیار کرچُکی ہے، اور خصوصاً پرائیوٹ اکانمی(Private Economy) نے غلامی کو مضبوط کرنے کے مزید ذرائع پیدا کر دی۔ ترقی پذیر ممالک میں جونہی پرائیوٹ معاشی نظام کو نافذ کی گئی ،تو پیداوار کے ذرائع اُن لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو کسی نہ کسی طرح اِسی سیکٹر میں پہلے سے موجود تھا، اور عام آدمی پھر وہی نظام کی پکڑ میں آگئی۔ اب کارپوریٹ سیکٹر کے پاس معاشی طاقت اور فیصلہ کرنے کا جواز بھی پیدا ہوگیا۔

ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ کالونیل طاقتین اپنی حکومت ، معاشی طاقت ، اور اِنسانی وسائل کو مضبوط کرنے کیلئے مقامی وسائل اور لوگوں کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنا شروع کردی، جس سے غلاموں کی تجارت بھی شروع ہوگئی، جس کی مثال افریقہ اور ایشیاء کے ممالک سے حاصل کیاجاتا ہے۔ اور بعض ایسے قوانین بھی سامنے آگئے جس کے مطابق مقامی لوگوں کا ’’غیرملکی‘‘ ہونا بھی پڑا جوکہ خصوصاً ہندوستاں میں برطانوی سامراجی حکومت کے دوران موجود رہی۔

گلوبل سلیوری انڈکس (Global Slavery Index) کے مطابق دُنیا کے 58فیصدآبادی جو غلامی کی حالت میں ہے ،وہ اِسلامی جمہوریہ پاکستان، چین، انڈیا، بنگلہ دیش اور اُزبکستان میں رہ رہے ہیں۔ جس میں 2.1ملین لوگ صرف پاکستاں میں مختلف قسم کے غلامی کی صورت میں رہ کر کام کر رہاہے۔ پاکستان میں ذرعی غلام ، صنعتی غلام، گھریلو غلامی اور اب جدید کارپوریٹ غلامی کی ایک نئی شکل نمودار ہوئی ہے جوکہ زیادہ خطرناک اِسی لئے کیونکہ اِس کی بندش باہر نظر نہیں آجاتی۔ باہر سے جو لوگ اُس کی طرف دیکھتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ اُس سیکٹر میں کام کرلین ، اورجب کوئی اندر داخل ہوتا ہے تب اُسے اِحساس ہوتا ہے کہ یہ دلکش اور خوبصورت منظر اندر کتنا کھوکھلا ہے۔

پاکستان میں مزارع ، Bonded labour جو کہ کھیتون، صنعتوں اور گھریلو غلامی میں کئی سالوں سے مالک کے قرض میں ڈوب کر نسل در نسل کام کررہے ہیں، جوکہ قانون بننے کے کئی سال بعد بھی اُسی حالت سے گزر رہا ہے۔ اب ایک غریب ، ان پڑھ اور دیہاتی مزدور سے کیا گلہ کیونکہ اُسے اپنے حقوق کا ہی پتہ نہیں،انٹرنیشنل لیبر ارگنائزیشن کے کنونشن 29 اور 105 میں مزدور کی استحصال کی بات ہوتی ہے جس کے مطابق خصوصاً ایک تعلیم یافتہ مزدور طبقہ اپنے حق کی بات نہیں کرتا کہ اُس کی کیا عجیب استحصال ہوتی ہے؟

دور جدید میں ماہرین کا ایک طبقہ قدیم زمانے سے چلے آنیوالے غلامی کے نظام اور اُس کی روایتی تعریف پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ اب ’’غلامی کا نظام ‘‘یا ’’نظامی غلامی‘‘

(structural slavery) جوکہ ملک میں غیررسمی معاشی سیکٹر ، اور پرائیوٹ سیکٹر میں یہ مظہر زیادہ ہوتا جارہاہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اِنسانی وسائل کی کمی نہیں اورمعاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ پرائیوٹ سیکٹر میں مختلیف تنظیموں کے ساتھ کام کررہا ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر قومی اور بین الاقوامی قانونی لوازمات کاغذی ضروریات کی حد تک تیار رکھتا ہے، لیکن حقیقت اِس کے برعکس ہوتا ہے ۔ یہ ادارے مزدور سے زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں، لیکن کم سے کم اجرت ۔ یہ پرائیوٹ سیکٹر اِدارے بین الاقوامی معیار کے کام توقع مزدور سے کرتے ہیں اور مقامی مارکیٹ کے مطابق اجرت اُسے دیتے ہیں۔

اب معاشرے میں غیر رسمی معاشی نظام جس میں پرائیوٹ سیکٹر ایک ایسا استحصالی نظام مرتب کی ہے جس میں کوئی ایک بار چلا جاتا ہے وہ اِس جال میں پھس جاتا ہے نکل نہیں سکتا، اور دِن رات اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کس طرح اِس معیا ر میں پورا اُ تر جاؤں کہ میرے کام پر میر ی حوصلہ افزائی ہو اور کچھ اُجرت زیادہ ہو، لیکں اُس نظام کا ’’سٹرکچر‘‘ ایسا ہی بنا ہوتاہے جس میں کوئی ٹارگٹ حاصل کر ہی نہیں کر سکتا، جس کا اِحساس اِسے بہت بعد میں ہوتا ہے ؟

اب وقت آگیا ہے کہ کم ازکم پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والے تعلیم یافتہ طبقہ کو structrual slavery یعنی جدید طرز غلامی کو ختم کرنے کیلئے آواز اُٹھانا چاہیے۔

جدید طرز کے اِس نظام میں تنزل کا ذمہ دار نظام ہے، اِس نظام میں کوئی انتظام نہیں ہوتا ،منتظم کوئی اور ہوتا ہے اور انتظام کوئی اور چلاتا ہے، فیصلہ کوئی اور کرتا ہے کام کوئی اور، کام کوئی اور کرتا ہے فائدہ کوئی اور۔پرفارمنس کسی اور کا ہوتا ہے کریڈٹ کسی اور کا۔ یعنی یہ نظام جس کی ڈوری دور کسی ایک کے ہاتھ میں ہوتی ہے جونہی وہ کھینچی جاتی ہے تو سار ے کارندے حرکت میں آتے ہیں، اور ’’ہان‘‘ پر تکیہ کرتے ہوئے سارا نزلہ اُس غریب مزدور پر اُتر تا ہے۔ ایک طرف کام کا بوجھ، پیسے کی قلت، کام کا دباؤ تو دوسری طرف ’’ڈو مور‘‘ کا نظامی غلامی نے مزدور کا لب اور کمر ایک ساتھ توڑ دی ہے ۔ یہ صورت رہی تو چند سال بعد یہ محنت کش طبقہlumpenproletariate ہوکر رہ جائے گی!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button