گلگت بلتستان

شگر، معروف سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد

سکردو(نامہ نگار)تنظیم نوجوانانِ عمل کے زیر اہتمام الشہباز ویمن آرگنائزیشن شگر اور سابق صدرسماجی تنظیم ثواب گلزار کے تعاون سے اہالیان گلگت بلتستان کی جانب سے عبدالستار ایدھی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تعزیتی ریفرنس ڈسٹرکٹ کونسل ہال سکردو میں منعقد ہوا۔بلتستان کے سماجی، سیاسی اور مذہبی شخصیات نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ معروف شاعراحسان دانش نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔سینئر وزیر حاجی محمد اکبر تابان صاحب نے عبدالستار ایدھی کواس طرح خراج عقیدت پیش کیا کہ وہ بحیثیت مہمان خصوصی اپنے مخصوص نشست کو عبدالستار ایدھی کو ڈیڈیکیٹ کرتے ہوئے خود عام شرکاء کے ساتھ نیچے نشستوں پہ بیٹھ گئے اور یہ روایت قائم کی کہ اس طرح کے اجلاسوں میں ہر کوئی برابر ہے اور ہر کوئی ایک خاص جذبہ لے کر آتے ہیں اُن جذبات کا کسی کا کسی پر کوئی فوقیت نہیں۔

تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سینئر وزیر حاجی محمد اکبر تابان نے کہا کہ ایدھی جیسی شخصیت پر بولنے کے لیے ہمیں کئی سال درکار ہیں کیونکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ احسانات کی ایک الگ الگ داستان ہے۔ اُن کی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔اکیڈیمیز بننے کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک کے چند آیات کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہوں نے عبدالستار ایدھی کو اولیاء کے صف میں شامل کیا۔ایسا ولی جو جانوروں کی خدمت کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا۔ ایدھی تو جنت میں آرام فرما رہا ہوگا اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اہم ایدھی صاحب کے مشن کو آگے بڑھائے۔معروف سکالر شیخ محمد علی توحیدی نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معاشرے کے مردہ ہجوم نے ایک زندہ انسان کو دفن کیا۔ ایدھی صاحب کی خدمات بیان کیا کرنے پاکستان کے کونے کونے میں اُس کی خدمات کے نعرے لگ رہے ہیں۔ہم علماء لوگ شرمندہ ہیں کہ ہم نے آج تک وہ کام نہیں کیے جو ایدھی صاحب چاہتے تھے۔جبکہ ہم نے اُلٹا بلکہ کچھ مولویوں نے اُس کے خلاف مہم چلائے کہ ایدھی حرام زادوں کی پرورش کرتا ہے چندہ دینا حرام ہے۔ ایدھی صاحب کی سماجی خدمات کا دنیا معترف ہے۔ ایدھی نے اسلام اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ ڈاکٹر محمد شریف استوری نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایدھی پاکستان کے سماجی کارکنوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ ان کی سادگی ہی عالم اسلام کے لیے اور انسانیت کے لیے عمل نمونہ ہے۔ میں ایدھی سے کئی بار بالمشافہ ملا ہوں وہ عملی اور پختہ عزم کا انسان کامل تھا۔ جس کی دین ہی خدمت کرنا تھا اسی عبادت کی وجہ سے وہ مخلوق خدا کے ہردلعزیز شخصیت تھے۔ ممبر اسمبلی شیرین اختر نے کہا ہم ایدھی مرحوم کو خراج عقیدت اس طرح پیش کریں کہ اُس کے عظیم مشن کو آگے بڑھائیں۔ سماجی خدمات کے اُن کے عملی نمونوں سے ہم امتحان لیتے ہوئے معاشرے میں کئی ایدھی پیدا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے ماؤں کو چاہیے کہ وہ ایدھی اور بلقیس ایدھی کی زندگی کے پہلوؤں کا مطالعہ کریں اور ان کی خدمات سے اپنے بچوں کو آگاہ کریں۔ تاکہ بچے مستقبل میں بڑے ہوکر ان کے سماجی خدمات کے روش کو اپنائے۔ اگر پاکستان کی خواتین خواہش کریں کہ اُن کے بچے ایدھی کی طرح بنے تو یقیناًپاکستان کا مستقبل شاندار ہوگا۔ پروفیسر حشمت علی کمال الہامی نے عبدالستار ایدھی کو سماجی خدمت کا پیغمبرِ عصر کا خطاب دیا۔ وہ اگرچہ پیغمبر نہیں تھا لیکن اُس کی خدمات کے ہر پہلو میں پیغمبرانہ روش تھا سادگی دیکھیں۔ شرافت، عزم و حوصلہ، صبر اور وفا ہر ہر حوالے سے پاکستان میں ایدھی کا ثانی کوئی نہیں۔ حشمت صاحب نے کئی شعراء کے منظوم خراج عقیدت کو ایدھی سے منسوب کیا گیا۔ سماجی کارکن عبداللہ کریم نے کہا کہ ایدھی صاحب جب بلتستان آئے تو اُنہوں نے یہاں کی پسماندگی اور غربت کا مشاہدہ کیا اور کہا کہ بلتستان جنت نظیر علاقہ ہے۔ اگر حکومت توجہ دیں تو یہاں کے قدرتی وسائل کو بہتر استعمال کے لیے اور غربت کے خاتمہ کے لیے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ یہاں کے عوام بہت شریف ہے اس علاقے میں زیادہ سماجی خدمات کی ضرورت ہے۔ DIGریٹائرڈ سید احمد شاہ نے کہا کہ ایدھی صاحب کی انسانی اور سماجی خدمات کو نہ ہم گن سکتے ہیں اور نہ ہی ہم اس مختصر وقت میں کما حقہ اُس کو خراج عقیدت پیش کرسکتے ہیں۔ ہمیں اُس کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے پرخلوص کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علی شیر بلتستانی صاحب اور تنظیم نوجوانان جو سماجی کام کررہے ہیں یہ ایدھی کے لیے عملی خراج عقیدت ہے۔ محقق اور ادیب محمد حسن حسرت نے کہا خراج عقیدت تو پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لوگ پیش کررہے ہیں۔ علی شیر بلتستانی صاحب اور تنظیم نوجوانانِ عمل نے گلگت بلتستان کے عوام کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اس عظیم الشان تعزیتی جلسہ کا انعقاد کر کے گلگت بلتستان کے عوام کے ایدھی سے محبت اور عقیدت کے رشتے کا پرخلوص مظاہرہ کیا ہے۔ وہ مرد باکمال تھے وہ محسن قوم تھے وہ انسانی اور سماجی خدمت کا رول ماڈل تھے۔ ہم میں سے کون ہونگے جو ایدھی صاحب کو صرف زبانی خراج عقیدت و خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے عظیم مشن کو اپنے اپنے محلوں اور علاقوں میں عملی طور پر آگے بڑھائیں۔ جلسہ کے منتظم تنظیم نوجوانانِ عمل (رجسٹرڈ) راولپنڈی کے مرکزی جنرل سیکرٹری علی شیر بلتستانی نے کہا کہ مجھ سے بیشتر محققین، سکالرز،سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے ایدھی صاحب کے حوالے سے کافی تفصیل سے کہا۔ قرآن پاک کے ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ایدھی صاحب کو اتحاد و اتفاق اور امن و آشتی کا عملی مسلمان قرار دیا اور خدمات کا خدمتِ انسانیت کا عملی نمونہ قرار دیا۔ ایدھی صاحب اگرچہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے وہ عام فٹ پاتھ پر بیٹھ کر پاکستانی عوام سے چندہ لے کر اتنے بڑے کام کیے جو حکمراں نہیں کر پائے۔ یہ اُس کا عزم اور حوصلہ تھا ۔ہمیں چاہیے کہ ایدھی صاحب کونمونہ عمل بناتے ہوئے ایدھی صاحب کے مشن کو آگے بڑھائے۔ تنظیم نوجوانانِ عمل نے وسائل نہ ہونے کے باوجود انسانیت کی خدمت کے لیے پچھلے تیس سالوں سے کمر بستہ ہے۔ہمارا مشن ہے کہ ہم مسجد و امام بارگاہوں کو خدمت مرکز بنایا جائے۔ اتحاد و اتفاق کے لیے یہی درس کافی ہے کہ جس مسجد سے کفر کے فتوے لگتے تھے آج خدمت مرکز بننے کی وجہ سے اُسی مسجد سے نہ صرف ہمارے میڈیکل کیمپ کے اعلانات ہوتے ہیں بلکہ باقاعدگی سے ہمیں چندہ بھی دیتے ہیں۔اسی طرح ہر مسجد اور امام بارگاہ خدمت مرکز بن جائے تو پاکستان سے تفرقہ اور شدت پسندی کا خاتمہ ہو اور ہر مسجد اور ہر امام بارگاہ سے عبدالستار ایدھی کا مشن چلے جو یقیناًہمارے پیغمبر اکرم ؐ کا مشن تھا جو مسجد نبوی سے شروع ہوا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button