کالمز

یارب، مرے وطن کا خصوصی خیال ہو۔۔۔۔۔

تحریر: ایمان شاہ

کبھی کبھی آپ کو اس نیکی کا اجر ملتا ہے، جو آپ نے کی ہی نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اور کبھی کبھی آپ کو ایسے جرم کی سزاء ملتی ہے، ایسے گناہ پر معذرت کرنی پڑتی ہے جو آپ سے سرزد ہی نہیں ہوئی ہے۔۔۔۔۔ جیسے۔۔۔۔۔۔ مورخہ13اگست کے کالم میں پروف ریڈنگ اور کمپوزنگ کی غلطیوں سے کالم خاصا بے بط ہوگیا۔۔۔۔

میں نے لکھا تھا کہ ’’کوئی دکھائے تو سہی ایسے حکمران جو فرات کے کنارے ایک کتے کی بھوک پر بھی خود کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے لرزہ براندام رہتے ہوں۔۔۔۔ پروفنگ اور کمپوزنگ کی غلطی سے لرزہ پر الزام لکھا گیا ہے۔۔ جس پر معذرت۔

اب اصل موضوع پر بات کرتے ہیں،تاریخ دردناک اور طویل ہے، آپ بھی جانتے ہیں، میں نے بھی پڑھی ہے لیکن اس کا یہ باب ابھی تک نہ کسی نے لکھا، نہ کسی نے سوچا کہ14اگست1947ء کو ملنے والی آزادی اب تک ادھوری کیوں ہے۔۔۔

’’انگریز اقلیت‘‘ کے جانے کے بعد جس ’’مقامی اقلیت‘‘ (جاگیردار، وڑیرے اور سرمایہ دار)کوانگریز کا وہ نسخہ ، وہ فارمولا، وہ نظام مل گیا جس کے ذریعے انگریز اقلیت نے ہندوستان کی اکثریت کو غلام بنایا اور حکومت کی انگریز کے اسی فارمولے پر آج بھی عمل ہورہا ہے، قائد اعظم نے آزادی کی جنگ لڑی اور جنگ جیتنے اور آزادی حاصل کرنے کے چند عرصے بعد خالق حقیقی سے جاملے، ان کی ناگہانی موت کے بعد اس اقلیت نے جو جاگیرداروں، زمینداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل تھا نے پاکستان کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا کہ آج تک ہم حقیقی آزادی کے ثمرات سے کوسوں دور ہیں۔

اصلی قائد (قائد اعظم) نے نہ جاگیریں بنائیں، نہ صنعتیں لگائیں، نہ سرمایہ لوٹا بلکہ جوکچھ ان کا اپنا تھا وہ بھی ہمیں منتقل کرگئے، لیکن اصلی قائد کے بعد قائد عوام، قائد جمہوریت، شہید جمہوریت، قائد تحریک اور قائد انقلاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان بے قاعدہ قائدین کی کھیپ نے باقاعدہ طور پر قائد کے لفظ کو ہی رگید کر رکھ دیا اور اس لفظ کا اتنا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے ’’اصل قائد‘‘ کا لفظ بھی بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔

انگریز ایک معمولی اور حقیری اقلیت تھے، اپنی چالاکیوں کے ذریعے ایک بہت بڑی اکثریت جو ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی پر حکومت کرنے کیلئے ایسے قوانین، ضابطے، اصول، آداب، ادارے اور قواعد مرتب کئے جن کے ذریعے وہ اقلیت ہونے کے باؤجود ایک بہت بڑی اکثریت کو نتھ ڈال سکتے تھے۔

انگریز اقلیت نے ان قواعد و ضوابط، اصول اور آداب پر عملدرآمد کیلئے ایک ’’مقامی مراعات یافتہ‘‘ اقلیت بھی تخلیق کی، ان کی تربیت اور سرپرستی کی، انہیں خطابات ا ور جاگیریں عطاء کرکے اپنے مفادات کیلئےWATCH DOGS میں تبدیل کردیا اور یوں چند ہزار لوگ چند قوانین کے ذریعے بے شمار لوگوں کی گردنوں میں مضبوطی سے جم گئے بلکہ ’’آکٹوپس‘‘ کی طرح چمٹ گئے۔

آزادی کا اصل مقصد، مطلب غلامی کے تمام ضابطوں، اصولوں اور ان کے نمائندوں اور نشانوں کو تبدیل کردینا تھا۔۔۔۔۔ پوری قوم جانتی ہے کہ ایوب خان کے دور میں22خاندان اس ملک پر حکومت کرتے تھے، آج ان کی تعداد بڑھ کر سینکڑوں تک جاپہنچی ہے۔۔۔۔۔

قائداعظم اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال شاعر مشرق نے تو ایک اسلامی فلاحی مملکت کا خواب دیکھا تھا،14اگست1947ء کو اس کی تعبیر بھی مل گئی، قائد اعظم قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی بیمار پڑ گئے،قائداعظم غالباً جاتے جاتے یہ وارننگ بھی دے گئے تھے کہ’’میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے بھی ہیں۔‘‘

قائد اعظم کو اپنی زندگی میں ہی ان کھوٹے سکوں کی بھنک پڑ گئی تھی، زندگی نے انہیں اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ ان کھوٹے سکوں کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کریں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کھوٹے سکوں نے ہر وہ ’’حقیقت‘ یا’’علامت‘‘ جو اقلیت کو اکثریت پر حاوی رکھ سکتی تھی۔۔۔۔۔ کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم بھی بنایا۔

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘ اس ذرخیر مٹی کو سیم زدہ کرنے والی اقلیت آج بھی اس ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے کیلئے اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لارہی ہے، ان کھوٹے سکوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا، ملک معاشی عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔۔۔۔۔

’’انگریز اقلیت‘‘ کے جانے کے بعد جس ’’مقامی اقلیت‘‘ کے ہاتھ انگریز کا وہ نسخہ ، وہ فارمولا، وہ نظام ہتھے چڑھ گیا اس نے اس نظام کو جوں کا توں برقرار رکھا اور یوں قائد اعظم کے کھوٹوں سکوں سے لے کر آج تک۔۔۔۔ انہی کھوٹے سکوں کے وارثوں نے اصل آزادی۔۔۔۔۔ یعنی آزادی کی روح کو ہائی جیک کیا ہوا ہے اور ہم میرٹ کی پامالی، بیروزگاری، مہنگائی، کرپشن، بدانتظامی، بیڈ گورننس، جہالت، اندھیروں اور دیگر مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اس اغواء کا تاوان ادا کررہے ہیں۔

انگریز نے تو برصغیر پاک و ہند کو نوچنا تھا،انہوں نے اپنی تجوریاں ہمارے وسائل نوچ نوچ کر بھرنا ہی تھا، ہمیں انگریز اور تاج برطانیہ سے کوئی گلہ نہیں، وہ تو قابض تھے، وہ حاکم اور ہم غلام، لیکن آج جس مقامی اقلیت اس ملک کے وسائل نوچ ، نوچ کر فارن اکاؤنٹس اور سوئس بینک کے پیٹ بھررہی ہے اسے آپ کیا کہیں گے؟؟؟

آج 14اگست ہے۔۔۔۔۔ ’’یوم آزادی پاکستان ‘‘کی خوشیاں ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی منائی جارہی ہیں۔۔۔۔ اس سال بھی گلگت بلتستان کے بچے، بوڑھے اور جوان جشن آزادی پاکستان کے موقع پر پرجوش اور پرعزم ہیں۔

گلگت بلتستان کے عوام نے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے مملکت خداداد پاکستان کیلئے اپنی بساط کے مطابق قربانیاں دی ہیں، 72ہزار مربع کلو میٹرپر محیط اس خطے کو اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کو شکست فاش دے کر اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا، چند بٹھکے ہوئے لوگ جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے بعض اوقات گلگت بلتستان کے عوام کو گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے ریاست پاکستان کیخلاف بڑکانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس علاقے کے غیور عوام کی واضح اکثریت اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کے ساتھ ہے اور یوم آزادی پاکستان کے موقع پر گلگت بلتستان کے لوگوں کا جوش و خروش اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ تمام تر مسائل اور مشکلات کے باوجود گلگت بلتستان کا بچہ بچہ دفاع وطن کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عہد پر قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کو ہر قسم کے کھوٹے سکوں سے نجات دلائے۔۔۔ آمین۔

موقع کی مناسبت سے جمشید خان دکھی کے دعائیہ اشعار کے ساتھ اجازت۔

بلبل کبھی چمن میں نہ غم سے نڈھال ہو

یارب، مرے وطن کا خصوصی خیال ہو

ایسی ہوائے امن ومحبت چلے یہاں

جس کی کہیں مثال نہ ہو بے مثال ہو

ایسی دلیر ہومری افواج جن سے جنگ

نیٹو کے بس میں اور نہ ’’را‘‘ کی مجال ہو

دل میں بسا ہو عشق رسالت مآب کا

ہر سو ضور پاکؐ کا حسن و جمال ہو

نفرت مرے چمن کے نہ آئے کبھی قریب

میرے خدا! یہ سال محبت کا سال ہو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button