کالمز

ذاکر محمد زخمی میرے روزنامچے کے اوراق سے ( پہلی قسط)

تحریر: شمس الحق قمرؔ بونی

یہ غالباً ۱۹۶۸ ؁ ء کی بات ہے کہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ صاحب انٹر میڈیٹ کالج بونی میں ہمیں اُردو پڑھانے آئے ۔ فیضی صاحب سخنور، سخن ساز اور سخن شناس آدمی ہیں ۔ کمرہ جماعت میں اُردو شاعری پڑھاتے ہوئے حوالہ جاتی اشعار کی بھر مار کرتے تھے ۔میں نے بہت سارے اساتذہ سے فیض حاصل کی مگر فیضیؔ کی تدریس کا ہلکا پھلکا انداز ، کمرہ جماعت کے لئے تیاری ، زبان کی میٹھاس ، الفاظ کی نوک پلک کی شان و شوکت اور کسی شعر کی تشریح کرتے ہوئے اُس کی جڑوں کو ہمارے اذہان میں مظبوطی سے پیوست کرنے کے لئے حوالے کے طور پختہ خیالوں پر مبنی اشعار کی بوچھاڑ میں آپ کا موازنہ کسی اور ادیب سے کرنا آپ کی شان کی توہیں ہے ۔ مجھے درست طور پر یاد نہیں کہ کمرہ جماعت میں کس طالب علم نے غالب کو چھیڑا ؂ ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالب ؔ کا انداز بیاں اورگویا فیضی صاحب کو جھنجھوڑا گیا ۔ شعر کے ہر ہر لفظ پر روشنی ڈالی ۔ منفرد انداز بیان اور خیال کی بلندی پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کھوار کا ایک شعر سنایا وہ شعر کچھ یوں تھا

؂ مو لو بلاور شیشہ وا تو بلاور غیچھین جو شیشہ ایتو دیتی کھور بوئے روشتی تہ غیچھا ن

کمرہ جماعت واہ واہ ! اور سبحان اللہ جیسے آفرین و تحسین کے کلمات سے جھوم اُٹھا ۔ فیضیؔ صاحب نے اس شعر کے خالق کا نام ذاکر محمد زخمیؔ بتایا اور شاعر کی بلند خیالی اور اُن کے مذکورہ شعر کے فنی پہلوں پر سیر حاصل بحث بھی فرمائی ۔ اُس دن سے ذاکر محمد زخمیؔ سے ملاقات کی ایک آرزو دل کی فضأ میں منڈلانے لگی ۔ ہم مزید دو سالوں تک اس قلق، اضطراب اور بے قراری میں رہے کہ ذاکر زخمی ؔ آخر کس خط، کس نمط اور کس قماش کے آدمی ہوں گے کہ جس نے اتنی پہلو دار اور عریاں خیال کو الفاظ کے مخملیں پوشاک سے مزئین کیا ہے ۔ ہم شاید قسمت کے دھنی تھے کہ ذاکر محمد زخمی سن ۸۰ کے اواخر میں بہ سلسلہ ملازمت ہمارے گاؤں بونی ہی تشریف لائے ۔ ہم نے دیکھا کہ زاکر محمد زخمی دلفریب خدو خال کے مالک ہیں دوستوں سے بہت جلد بے تکلف نہیں ہوتے بلکہ دوستوں کی خوب جانچ پڑتال کرتے ہیں اور پھر جاکے غیر ضروری تکلفات کے حصار کو منہدم کرتے ہیں ۔ یار دوست لوگ جب ملنے جلنے میں بخالت ، کنجوسی یا کوتاہی برتنے کے مرتکب ہوتے ہیں تو آن جناب موٹی موٹی ادبی جملے کس کر اپنے دلی کی بھڑاس نکال لتے ہیں ۔ آپ کی زبان پر کسی کے لئے شکایت الفاظ کبھی نہیں آتے ۔ غم روز گار کے ساتھ غم جاناں میں سرکھپاتے ہیں۔ آپ کی شاعری کے حوالے سے بہت سوں نے گفتگو کی ہے اور لکھا ہے۔ میں بھی بولنے کی اور لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ سر دست میں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ جاکر زخمیؔ سے پوچھ لوں کہ بتا تیرا بچپن کیسے گزارا ، تعلیم کیسے حاصل کی ، دوست احباب کون تھے اور ملازمت کیسے ملی ؟۔ یوں میں ایک دن در معقولات میں مخل ہوا ۔ آپ جناب کسی کام میں مصروف تھے ۔ آپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اپنی مصروفیات کو دوستوں پر کبھی بھی ترجیح نہیں دیتے بلکہ ہر وقت اور ہر معاملے میں دوستوں کو سبقت ملتی ہے ۔ میں آپ کے ذاتی کمرے میں داخل ہوا جو کہ طرح طرح کی کتابوں کی آماج گاہ تھا ۔ آس پاس کچھ کتابیں تھیں جو کہ کھلی تھیں غالباً کوئی خاص معلومات کے حصول کے سلسلے میں ان کتابوں کو کھول کے رکھا گیا تھا ۔ میں نے مناسب یہ جانا کہ آپ جناب کا وقت ضائع کئے بغیر مقصد کی بات کروں اور چلتا بنوں ۔ یں میں نے اپنی ڈائری میں ذاکر زخمی ؔ کے نام کچھ اوراق زیب قرطاس کرنے کی کوشش کی جو کہ قسط وار قارئیں کی نذر کر رہا ہوں ۔

۱۵ فروری ۱۹۶۳ ء کو تور کہو کے ایک بالائی گاؤں اُجنو میں دوست محمد کے یہاں پیدا ہونے والا ننھا مہمان ایک ہفتے بعد زاکر محمد بنا ۔ پانچویں جماعت تک اُجنو کے پرائمری سکول سے تعلیم حاصل کی ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اور شخصیت سازی میں جن اسا تذہ کا کلیدی کردار رہا اُن میں مصطفی کمال ( مرحوم ) اور جناب رحمت علی صاحب قابل ذکر ہیں۔ ابتدائی سکول کا ناک نقشہ یہ تھا کہ وہ سکول جہاں سے ذاکر زخمی ؔ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی عمارت سے عاری تھا ۔ ذاکر اور اُن کے دوسرے نو نہال ہم جماعتوں کی ڈسک اور کرسیاں اُن کے اپنے ہاتھوں سے بطور خاص جمع کردہ پتھر تھے جن کے اوپر وہ بیٹھتے اور پڑھتے ۔ بعد میں چند ایک کمرے اسی جگہ پر بنائے گئے ۔ مڈل جماعتوں کے لئے شاگرام آنا پڑا یہاں والد صاحب کی بہن کا گھر تھا ۔ میٹرک تک تعلیم ہائی سکول شا گرام سے حاصل کی جو کہ سن ۱۹۷۹ کی بات ہے ۔ شاگرام میں ہائی سکول تو تھا لیکن میٹرک کے امتحان کی کوئی سہولت موجود نہ تھی ۔ میٹرک کے امتحان کے لئے زخمیؔ کو بونی کا قصد کرنا پڑا ۔ بونی راغو ڈوک میں صلاح الدین کے یہاں ذاکر زخمی ؔ کی رشتہ داری تھی،میٹرک کے امتحان ختم ہونے تک راغو ڈوک میں رہائش پذیر رہے ۔ میٹرک کے بعد ڈگری کالج چترال میں داخلہ لیا اور یہاں سے انٹر میڈیت کا امتحان پاس کیا ۔ زخمی ؔ کے اندر زندگی کی شروعات سے ہی ایک شاعر پنپ رہا تھا ۔ شاگرام میں طالب علمی کے زمانے میں ادب دوست احباب کے ہالے میں پرورش پائی ۔ دوستوں کے ساتھ مل کر الفاظ کی قافیہ بندی کرنا آپ کے بچپن کا مشغلہ تھا ۔ کسی بھی کاغذ کا کوئی تحریری ٹکڑا چلتے چلتے مل جاتا تو اُسے پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ الفاظ کی خراش تراش کا اُسی وقت سے دلدادہ تھے ۔ موسیقیت جہاں بھی نظر آتی تو ذاکر زخمی اُس طرف لپکتے اور موسیقی کے مختلف باریکیوں پر گہرا غور کرتے ۔ ذاکر جیسے متلاشی ذہنکے لئے اگر آج کا دور میسر آجاتا تو شاید یہ آدمی جدید دور کے سائنسی ادب کے صف اول کا بادشاہ ہوتا ۔ ذاکر کی زندگی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف میں سیکھنے کی کمال صلا حیتیں موجود تھیں ۔ جب ڈگری کالج چترال میں پڑھ رہے تھے تو اضافی وقت ملنے پر مختلف فنون کی طرف توجہ دیتے رہے۔ جن میں فن موسیقی ، ستار نوازی اور شاعری قابل ذکر ہیں ۔ اُس زمانے میں کمپوٹر کا دور تک بھی کوئی نام و نشان نہیں تھا البتہ ٹائپ راٹنگ سیکھنا اُس زمانے کا سب سے بڑا علمی فن تھا ۔ صاحب موصوف نے یہ کام بھی احسن طریقے سیکھا۔ ایک دن کسی کام سے ٹیلی گراف آفس گئے ۔ آپ کے ہاتھ میں آپ کا اپنا ٹائپ کردہ کوئی کاغذ تھا ۔ اتفاق سے اُس آفس میں ایک ٹا ئپسٹ کی ضرورت تھی جو کہ چترال میں اُس وقت ناپید تھا ۔ آفس میں موجود ملازم نے موقعے کو غنیمت پاکر دریافت کیا’’ کیا یہ کاغذ آپ نے خود ٹائپ کیا ہے ؟‘‘ زخمی نے اثبات میں جواب دیا تو آفس میں موجود کارندے نے یکدم سے پی ۔ ٹی ۔ سی۔ ایل کے اپنے اعلی ٰ آفیسر کو اطلاع دی کہ چترال میں ایک ٹائپسٹ ملا ہے۔ اعلی حکام نے بیٹھے بیٹھائے ذاکر زخمیؔ کو ملازمت کی پیش کش کی ۔ کچھ عرصہ بعد ایک ادارتی امتحان پاس کرکے صاحب موصوف ٹیلی فون کے محکمے میں منتقل ہوئے ۔ ’’ ہ ؂ ژان کھدانی دیکو ٹیلی فون مہ خوشو ‘‘ شاعری کا باقاعدہ آغاز ڈگری کالج چترال سے کیا۔ سن ۱۹۸۵ ذاکر زخمی ؔ کی شاعری کے طلوع کا سن ہے ۔ چترال کے بڑے بڑے مشاعروں میں جانے لگے اور پزیرائی ملتی رہی ۔ تورکہو سے تعلق رکھنے والا نور حبیب چترال میں مقیم ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے کھر سے تور کہو کے سینکڑوں طلبا نے تعلیم حاصل کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر متمول تو نہیں البتہ ایک اعلیٰ درجے کے علم دوست ضرور ہیں ۔ ذاکر زخمی ؔ اسی گھر میں رہنے لگے، نور حبیت موصوف کا چچا لگتا ہے ۔ اگرچہ نور حبیب صاحب خود تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکنآپ کے گھر میں اعلی ٰتعلیمی موحول تھا ۔ اس علمی گھرانے میں ذاکر زخمی کے علاوہ چترال کے مشہور شاعر ، ادیب، کالم نگار اور ماہر تعلیم جناب جاوید حیات بھی رہتے تھے ۔ ذاکر زخمی ؔ کے مطابق جاید حیات جیسے سخن پرور انسان کی رفاقت کی وجہ سے زخمی کو ؔ اپنے خیالات کو بہتر سانچے میں ڈھالنے کا موقعہ ملتا رہا ۔ سچ ہے کہ صحبت ہی ہے جو لوگوں کی اخلاق و کردار سازی میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ ذاکر جہاں بھی گئے انہیں با وقار اور با کمال لوگوں کی رفاقت شامل حال رہی ۔۔۔۔ ( جاری )

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button