کالمز

شیر کی کھال 

 خبرآئی ہے کہ شیر کی کھال سے چپل بنانے والے پشاوری موچی کی شامت آگئی محکمہ جنگلی حیات والے بیدار ہو گئے انہوں نے شیر کی کھال کا مقدمہ بنا یا موچی کو پکڑ ا پھر جرمانہ لیکر چھوڑ دیا یہ واقعہ اگر وی وی آئی پی واقعہ نہ ہو تا تو اس کی خبر نہ بنتی مگر یہ وی وی آئی پی واقعہ تھا اس لئے خبر بن گئی اور اخبارات میں آگئی پشاور کے موچی نے خوشامد کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا انہوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لئے مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نشان شیر کی کھال سے چپل تیار کیا اور وزیراعظم کو تحفہ دیا پھر اُس نے مزید شہرت کے لالچ میں بھارتی فلمی اداکار شا رخ خان کے لئے ہرن کی کھال سے چپل بنا کر پشاور میں اُن کے عزیزوں کے ذریعے شاہ رخ خان کو تحفہ دینے کی کوشش کی خدشہ یہ پیدا ہوا کہ اب موصوف مزید جنگلی جانوروں کی کھال اتار نیگے چپل بنائینگے اور اہم شخصیات کو پیش کرنیگے مثلا لومڑی کی کھال سے چپل بنا کر الطاف حسین کو پیش کرنیگے بھیڑ یا کی کھال سے چپل بنا کر امریکی صدر باراک اوبامہ کو پیش کرنیگے برفانی چیتے کی کھال کے چپل روسی صدر پیوٹن کو تحفہ دینگے ریچھ کی کھال کے چپل افغان صدر اشرف غنی کے لئے اور خرگوش کی کھال کے چپل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لئے رکھینگے اس طرح خیبر پختونخوا میں جنگلی حیات کا صفایا ہوجائیگا محکمہ جنگلی حیات نے بروقت قدم اُٹھا یا اور موچی کو دھر لیا یہاں ایک جملہ معتر ضہ آتا ہے محکمے کے حکام نے پولیس میں مقدمہ درج نہیں کیا عدالت میں مقدمہ دائر نہیں کیا باہر ہی باہر موچی کو جرمانہ کرکے معاملہ ختم کیا ایسا کیوں ہوا ، یہ 20 سال پہلے کی بات ہے ڈاکٹر ممتاز ملک چیف کنز رویٹر تھے انہوں نے دیکھا کہ وائلڈ لائف کے مقدمات جب تھانوں اور عدالتوں میں جاتے ہیں تو 20 سال یا 25 سال تک مقدمہ چلتا ہے 25 سال بعد ملزم باعزت بری ہو جاتاہے بند وق ، دوربین اور شکار کا سامان اس کو واپس مل جاتا ہے محکمے کی بد نامی ہوتی ہے پو چر ز (Pouchers) کو حوصلہ مل جاتاہے اس لئے محکمہ وائلڈ لائف کے قانون میں ترمیم کر کے جرمانہ اور سزا کا اختیار ڈویژنل فارسٹ افیسر کو دید یا گیا اس طرح 20 یا 25 سال کی مقدمہ بازی سے نجات مل گئی شر مندگی سے نجات مل گئی ملزم کو پکڑا ثبوت سامنے رکھے اور اختیار دیدیا کہ جیل جاؤ گے یا جر مانہ ادا کرو گے ملزم نے جرمانہ ادا کر دیا اور آئیند ہ کے لئے توبہ کیا معاملہ ختم ہو گیا مقدمہ بازی اور شرمندگی سے جان چھوٹی پشاور کا موچی اس قانون کے تحت جرمانہ ہوا خو شا مد کی لت اور شہرت کی خواہش سب کو ہوتی ہے مجھے پشاور کے موچی کی فکری اور تخلیقی صلاحیت پر شک ہوتا ہے اُس نے شیر کی کھال کا غلط استعمال کیا شیر مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان ہے یاد ش بخیر فرزند راؤ لپنڈی شیخ رشید احمد جب مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا کرتے تھے اپنی انتخامی مہم میں زندہ شیر کو پنجر ے کے ساتھ ٹرک پر سوار کر کے جلسہ گاہ لاتے تھے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھر اتے تھے موصوف اب شیر کی کھال کے پیچھے پڑ گئے ہیں اس لئے شیر کی کھال سے چپل بناکر شیخ رشید کو پیش کرنا چاہیے تھا تاکہ و ہ اسے پاؤ ں کے نیچے روند تے اور کہتے کہ میں نے شیر کی کھال کو اپنی جوتیوں پر رکھا ہوا ہے میاں محمد نواز شریف کے لئے شیر کی کھال کے چپل موزوں نہیں ہیں اگر شیر کی کھال کی قراقلی بنتی تو پشاور کے تاجر یہ قراقلی این اے ون سے منتخب ہونے والے سابق ایم این اے عمران خان کو پیش کرتے کہ لو بھئی ہم نے شیرکوڈھیر کر دیا اس کی کھال اتاری اور قراقلی بنا کر تیرے سر پر رکھا مگر مسئلہ یہ ہے کہ شیر کی کھال سے قراقلی نہیں بنتی اور عمران خان این اے ون سے پشاور کے ایم این اے بھی نہیں رہے اس خبر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں ہرن کی کھال کا بھی ذکر آیا ہے اور شاہ رُخ خان کا نام بھی آیا ہے ہرن کی آنکھیں چشم غزال اردو اور فارسی ادب میں شہرت رکھتی ہیں اور آنکھوں کو فلمی دینا سے ایک گونہ نسبت بھی ہے ہرن کی کھال سے بنی ہوئی جوتیاں شاہ رخ خان پر خوب سجتی ہیں یہاں پشاور کے موچی نے کمال کر دیا ابھی انہوں نے مزید کمالات دکھا نے تھے ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ وزیراعلیٰ پر ویز خٹک کے لئے کس جانور کی کھال تلاش کر وں؟ کہ محکمہ جنگلی حیات نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا بڑا ظلم ہوا دو کھرب پتی تاجروں کے درمیاں سخاوت کا مقا بلہ ہونا تھا ہم دیکھتے کہ میاں محمد نواز شریف نے موچی کو جتنا انعام دیا ہے ہمارے وزیراعلیٰ اس سے 10 گنا بڑ ھا کر انعامات کی بارش کرتے یا 20 گنا بڑ ھا دیتے یا 100 گنا بڑ ھا دیتے ؟

سنا تھا غالب کے اڑنیگے پر زے

دیکھنے ہم بھی گئے پہ تما شا نہ ہوا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button