کالمز

ایسا کیوں ہے

 تحریر : دردانہ شیر

گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے عوام اپنی شرافت مہمان نوازی اور امن پسندی کی وجہ سے پورے گلگت بلتستان میں ایک مقام رکھتے ہیں لیکن ان کی شرافت سے بعض سرکاری ادارے ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں شرافت کرنے والوں کو بزدل سمجھا جانے لگا ہوحالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے معرکہ کارگل ہویا 1965اور1971کی پاک بھارت جنگیں یہاں کے سپوتوں نے بہادری کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان رقم کی ہے بات شرافت کی جائے توبعض دفعہ کچھ حکومتی ادارے یہاں کے عوام کو بلاوجہ تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جس کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے اس حوالے سے قارائین کرام کے سامنے ان داستانوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں آخر اس علاقے کے سادہ لوح عوام کی شرافت کا اس قدر امتحان کیوں لیا جارہا ہے اگر یہ امتحان ختم نہیں ہوا تو ایک دن ان کی شرافت شرارت میں میں بدل جائیگی کسی وقت حکومت کی طرف سے تمام اسلحہ جمع کرنے کے احکامات ملے تواس میں بھی سب سے پہلے پہل غذر سے شروعات کیاگیااور علاقے کے بعض سفید پوش جو کہ اندرون خانہ وقت کے حاکموں کو خوش کرنے کے لیے گاؤں گاؤں جا کر یہ تلقین کرتے رہے کہ فوری طور پر گھر میں موجود 12بور،30بور،ٹوپی دار جوبھی اسلحہ ہے جمع کرادو اگر ایسا نہیں کروگے تو دس سال جیل کی چکی پستے رہوگے لوگوں نے ٹوپی دار جو آج کل کھلونے کے طور پر رکھا جاتا ہے بھی حکومت کے حوالے کردیا بجلی کے میٹر تبدیل کرنے ہوں تو شرافت میں مثال قائم رکھنے والے عوام غذر سے میٹر وں کی تبدیلی کا آغاز کیا جاتا ہے حالانکہ صارف نے کئی سال قبل محکمہ برقیات سے این او سی لیکر بجلی کا کنکشن حاصل کیا ہے ان کو بھی یہ کہا جاتاہے کہ پرانے میٹر پھینک دو نئے میٹر حاصل کرو اس مہم کا آغاز بھی سب سے پہلے غذر سے ہی کیا گیااب ان بے لگام افیسروں سے کون پوچھے کہ اس پرانے میٹر میں کیا قصور ہے کیا یہ بجلی کے بل کے پیسے کم لاتا ہے یا نئے میٹر بنانے والی کمپنی آپ کو حصہ دیتی ہے اگر کمیشن کا چکر ہے تو اس کے لئے ٹھیکدار صابان ہیں ناں ۔بنکوں قرضوں کی ریکوری کی بات ہوتو بنک کے بڑے بھی اپنی توپوں کا رخ اس پسماندہ علاقے کی طرف موڈ دیتے ہیں دوسری طرف ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کارپوریشن (نیٹکو ) ہے غذر کے عوام نے ہروقت اس ادارے کے ساتھ تعاون کیا اور اب بھی کر رہے ہیں اچھی اور معیاری بسوں کو تو نیٹکونے راولپنڈی سے کراچی تک سروس پر لگادیا ہے اور پنڈی سے گلگت بلتستان خصوصا ضلع غذر کے لئے جو بسیں دی گئی ہیں ان کی حالت بھی قابل رحم ہے نئی بسوں کے حوالے سے جب حکام سے بات کی جاتی ہے تو سوائے یقین دہانیوں کے علاوہ بات اگے نہیں بڑھتی جبکہ گلگت سے چترال چلنے والی بسوں کو اگر دنیا کا عجوبہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا یہ ٹرک نما بسیں جو کہ کسی وقت افغان مہاجرین کو گندم سپلائی کیا کرتی تھی جب افغانی اپنے ملک چلے گیے تو کوئٹہ پڑے یہ ٹرک نیٹکو کے ہاتھ لگ گئے جن پر کئی سال تک نیٹکونے اسلام آباد سے گلگت بلتستان کے لئے گندم سپلائی کرتے رہے جب ان کی معیاد مدت پوری ہوئی اور پاکستان میں اس کے پرزے بھی ملنا بند ہوگئے اور بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہے تو ٹرک کے اوپر چھت ڈال کر نیٹکوvipبس سروس کا نام دیا گیا ان ٹرکوں کو بسوں کی شکل دیکران کو غذر اور چترال عوام پر مسلط کردیاگیا اس کے باوجود بھی غذر اور چترال کے عوام ان ٹرک نما بسوں سفر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے صرف اور صرف اس لئے کہ یہاں کے عوام نیٹکو کے ادارے کے ساتھ تعاون کر رہے اگر دیکھا جائے تو گلگت کے بعد شاید غذر دوسرا ڈسٹرکٹ ہے جہاں پر نیٹکو کو منافع مل رہا ہے مگر غذر کے سادہ لوح عوام نے اف تک نہیں کی اور اسکے بعد ہائی روف نام کی گاڑیوں کی ازمائش بھی غذر سے کی گئی جس میں 14 افراد کو بیٹھنے کی گنجائش تھی نیٹکو نے عوام غذر کا ادارے کے ساتھ تعاون کا یہ صلہ دیا کہ 14سیٹوں والی ہائی روف پر 18سیٹیں لگا دی گئی اور چار سال تک لوگوں نے پھر بھی اف تک نہیں کی اب شاید یہ سروس بند کر دی گئی ہے چونکہ اس سال اس سال اس وی ائی پی ہائی روف پر سفر کرنے کا راقم کااچھا خاصا تجربہ ہوا ہے غذر پریس کلب کے دوستوں نے اسلام آباد مطالعاتی دورے کا پروگرام بنایا تو مہربان افسروں نے ہمیں بھی ایک وی ائی پی ہائی روف دی جس پر ہمارا سفر گلگت تک کیسے گزارہ اس کی داستان کا احوال ہمارے ساتھیوں کو پتہ ہے گلگت پہنچ گئے تو بارش شروع ہوئی ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی کے دروزوں کے شیشے بند کردو بتانے لگا ایک ہفتے سے خراب ہیں مین سکرین کا وائپر چلانے کا کہا گیا تو بتا یا یہ بھی کام نہیں کر رہا اورشدید بارش میں ڈرائیور وائپر نہ چلنے کی وجہ سے اپنے دروازے کے باہر سر نکال کر گاڑی چلانے لگا تو جوٹیال کے قریب جاکر ہم نے اس وی ائی پی ہائی روف سے اتار جانا ہی مناسب جانا ااور ساتھ اس مہربان آفسر کا بھی شکریہ ادا کیاجس نے ہمارے اسلام؂ آباد سفر کے لئے اتنی خاص گاڑی کا بندوبست کیا تھااب اتے ہیں ائے کے ار ایس پی طرف جس نے اب تک غذر میں تعمیر وترقی کے نام پر کروڑوں روپے مختلف ڈونر ایجنسوں سے بٹورلئے ہیں مگر ان کی کارکردگی دیکھا جائے تو سوائے افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کروڑں روپے واٹر چینلزکی تعمیر پر لگایا گیا ہے اور کوئی ایک بھی پراجیکٹ ایسا نہیں جوکہ کامیاب ہوگیا ہو اے کے ار ایس پی نے گاؤں داس جپوکہ کو سیراب کرنے کے لیے جو مشین لگائی ہے اس کو دینا کا نواں عجوبہ کہا جاسکتا ہے جب سے یہ مشین نصب کی گئی ہے تب سے گاؤں والوں کو ایک قطرہ تک پانی میسر نہیں آیا اب اے کے ار ایس پی کے حکام کی نظریں ایفاد پراجیکٹ پر لگی ہوئی ہے جہاں پر یہ بلند بانگ دعوے کرکے کروڑوں روپے تو بٹور لینگے مگر کارکردگی پہلے سے بھی بدتر ہوگئی قارئین کرام ایسے کئی محکمے ہیں جن کی کارکر دگی کا ذکر پھر کبھی ۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button