کالمز

وادی یاسین (ساتویں قسط)

تحریر: جاوید احمد ساجد
(گزشتہ سے پیوست)

یوفت گاری یا رجاکی:

عوامی کام کو یوفت گاری یا پہلے زمانے میں راجاکی کہا جاتاتھا جب عوام ملکر کوئی کام کر تے ہیں تو یہیوفت گاری کہلاتاہے مثلاً سالانہ بھل صفائی یعنی نہروں کو صاف کر کے اس میں پانی کھو لنا اسی طرح کوئی اپنی مدد آپ کے تحت کوئی عوامی فلا ح بہبود کا کوئی کام کر نا وغیرہ تو ایسے کاموں میں اگر کوئی آدمی نہ آ ئے تو اس کو جرمانہ کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی آدمی عوام کے ساتھ گستاخی کا مر تکز ہو تو اس شخص کو بھاری جر مانہ کیا جاتاہے بعض دفعہ اس شخص کا بیل بطور جرمانہ ذبح کر کے گوشت عوام میں تقسیم کیا جاتاہے اور اگر بیل میسر نہ ہو تو کوئی بڑا درخت کاٹ کر جرمانہ کی صورت میں وصول کیا جاتاتھا۔مگر آج کل ایسا اتفاق کم ہی ہو تاہے چونکہ آج کل جب سے تھانے وغیرہ شروع ہو گئے ہیں تو بعض اوقات جس کو جرامانہ کیا جاتا ہے تو تو وہ تھانے کی مدد سے فوجداری کیس بناتاہے اس لئے پہلے کی طرح یہ کام نہیں ہو تا بلکہ بہت احتیاط سے کام لیا جاتاہے۔

قومیں:

یاسین میں مختلف قومیں آ باد ہیں جیساکہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہاں قومیت باب دادے کے نام سے موسوم کیا جاتاہےمثلاً محمد بیگ دادا کا نام اور قوم محمد بیگے ، بے گل دادے کا نام اور قوم بے گلے اسی طرح خو شوخت دادے کا نام اور قومیت خو ش وختے اور غلبہ شیر دادا قو میت غلبہ شیرے ، زوندرو سے زوندرے ، شَمن سے شَمُنے اور شریف سے شریفے وغیرہ۔

حلقہ سلطان آباد میں بسنے والے قومیں:

خشو قتے جو کہ حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، محمد بیگے، جو کہ چترال سے آئے ہو ے قوم ہیں، شمونے، غلغوے، نونو کوچ، بیگلے،فوکنے، سید ذاد، شریفے، دشمنے، قرغزے، بروشے جوکہ خوشوقتے کی ایک شاخ ہے،حرایو، ( زوندرے) یہ بھی چترال نسل ہیں ،ولیئے۔ خلیفہ تنگ چونا کوچ جو کہ بیگلے کی شاخ ہے،سرالے جو کہ پھنڈر سے آ ئے ہیں ،کھیلوچو، جوکہ دیا مر سے آئے ہیں،ہوکیئے، پٹھان (الغانی) جو کہ صوبہ سرحد سے آئے ہیں بونو کے، اور شکر بیگے بھی بیگل نسل ہیں

تھوئی میں بسنے والی قومیں:

خوشو قتے، بیگلے، شکربیگے، آتمیں ، مورکلے، چوناکوچ، نونے، صوبہ کوچ، نوچے، یہ سارے بیگل نسل ہیں ، معشوقے، یا غزنے، خیبرے،ختو تے، بر گہے، ماشے، بسپائے، (بسپائے کے داد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شخص گھو ڑے سے تیز دوڑسکتا تھا) قرغزے،داشمنے،فتے، بونوکے، اور نونوکوچ، رشید بیگے، کلے

سنٹر یاسین سے تعلق رکھنے والی قومیں:

 فوکنے، ہرایو(زوندرے)،مو سونگے، بوجائے، مٹوٹنگ،رُستمے، دشمنے، خوشوقتے، ولیئے، بیگلے، گوجر، کھلوچو، پٹھان (الغانی)، مَسَنے، خلاویں، ملتشے، باپے،حکیمے،بیگے اور اشی کھنے

سلگان میں بسنے والی قومیں:

ٹھلے، قرابیگے،لگاشرے،خوشوقتے،شکرتے،متیلے، قلد ینگے، ھلبی تنگے،غلبہ شیرے،بلیسے ،شکربیگے ، بیگلے ، قشقونے،بردوقے،خلیفہ تنگ)برگہے) شمونے،سیدذادہ، گوہی چو،گوجر، نصیرے،تاجی تنگ،قمبرے،بدالے،وزیرے، دشمنے، بولوقے ، کناوے اور ترکی۔ممو شینگے، ممونے، ذرگرے، مشوقے،

خوراک:

یسن (یاسین) کے لوگ اچھے اچھے خوراک کیلئے بھی مشہور ہیں اور زیادہ تر غذا ئیں دیسی گھی کی بنی ہو تی تھیں ان میں سے چند ایک مشہور کھانے مندر جہ ذیل ہیں ۔

(۱) خستہ مو: یہ عام طور پر پورے شمالی علاقہ جا ت میں مشہور ہیں لیکن یاسین میں خستہ مو گندم کی اس خمیری روٹی کو کہا جاتاہے جو توے پر پکا کر دیسی گھی میں بگو کر کھائے جاتے ہیں لیکن آ ج کے ایک ڈاکٹر سے یہ بات کیا جائے تو وہ بے چارہ شاید بھاگ جائے۔

(۲) چھمو ریکی: یہ گندم یا مکئی کی روٹی یا برٹ کو باریک ٹکڑے کر کے پھر دیسی گھی میں بگو کرتیار کیا جاتا ہے ۔

(۳) غُلمندی: دودھ میں تھوڑا آٹا ڈالکر جس کو خنجو کہتے ہیں گاڑہ کر کے گندم کی پتلی روٹی( بپا) کوبگو کر اس کے اوپر دیسی گھی پگلا کر ڈلتے ہیں اور اس طرح کئی تہیں لگا کر کھانے کیلئے پیش کیا جاتاہے ۔

(۴) امیش تو نو : پنیر کے اوپر دیسی گھی پگھلا کر ڈالا جاتا ہے اور گندم کی پتلی پتیری روٹی پر ڈلا جاتا ہیے اور کھانے میں بڑا مزیدار ہو تا ہے

(۵) مکوک پقومو: مکوک پاقومو سے پہلے مکوک آٹے کے بارے میں کچھ سنئے کہ گندم کے دانے پہلے صاف کر کے تین چار دن تک پانی میں بھگو یا جا تاہے اور روزانہ کچھ پانی اسکے اوپر چھڑکا یا بھی جاتاہے اس طرح گندم کے دانے جڑیں نکالتی ہیں اور جب یہ جڑیں کافی بڑی ہو جاتی ہیں تو پھر ایک دو دن مزید پانی چھڑ کائے بغیر رکھا جا تا ہے پھر دھوپ میں خوب سکھاتے ہیں اور جب خوب سو کھتا ہے تو چکی میں پیستے ہیں پھر اس آٹے سے تھو ڑا سا مقدار گندم کے تازہ آٹے میں ملایا جاتا ہے چونکہ یہ آٹا میٹھا ہو تا ہے اس لئے اس آٹے کو ملا کر جو بھی طعام پکایا جا ئے تو میٹھا ہو تا ہے اس لئے یہ مکو ک کی روٹی جب پک کر تیا ر ہو جاتاہے تو میٹھا ہو تا ہیے جیسا کہ چینی ڈلا گیا ہو پھر اس کو دیسی گھی میں بھگو کر کھانے کا واہ واہ کیا ہی مزہ ہے۔

(۶)مکو تی : یہ بھی مکوک کے آٹے کو گندم کے آٹے میں ملا کر تیار کیا جاتاہے لیکن اس کی تین قسمیں ہیں (ا) تر غٹ مکوتی (ب) ڈنگ مکوتی ( پ) تر بٹ (ج) چی مکی مکوتی

(ا) تر غٹ مکوتی : یہ سیدھا سادہ طریقہ سے پانی میں گند م کا آٹا اور مکوک کا آٹا ملا کر بنایا جاتاہے کسی بڑے دیگ یا چیدن میں پانی ڈال کر اس میں گندم کا آٹا اور مناسب مقدار میں مکوک کا آٹا ملاکر اس کو ہلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ یہ پک کر جب تیا ر ہو جا تا ہے تو حلوہ کی طرح شکل اختیار کر تاہے اور اس میں خوبانی کا تیل ، بادام کا تیل یا دیسی گھی یا دودھ ڈالکر کھایا جاتاہے۔ اور بعض دفعہ ایسے بھی کھایا جاتا ہے اور دو موقوں پر بڑے دھوم دھام سے بنایا جاتا ہے ایک سال غریک کے مو قع پر اور دوسرا گندم کی کاشت کے مو قع پر اس کے علاوہ جب دل چاہے بناکر کھایا جاتاہے۔

(ب) تربٹ : یہ عام طور پر سردیوں کی موسم میں بنایا جاتاہے۔ چونکہ یہ چربی میں پکایا جاتاہے لیکن بنا نے کا طریقہ تھوڑہ سامختلف ہے۔ پہلے چر بی کو خوب پگھلایا جاتا ہے اور اس میں گوند ھا ہو ا آٹا ڈال کر حلوہ کی طرح پکایا جاتاہے اور اسکو ایک خاص خوانچہ سے پکنے تک ہلایا جاتا ہے تاکہ یہ دیگ یا چیدن کے نچلے تہہ میں لگ کر جل نہ جائے اور یہ بھی جب پک کر تیار ہو تاہے تو حلوہ کی طرح ہی ہو تاہے۔ یہ اکثر نسالو کے مواقوں پر بنا یا جاتاہے۔

(پ)ڈنگ مکوتی: یہ دو قسم کا ہو تاہے ایک میں اخروٹ کے مغز کو باریک پیس کر مکس کیا جاتا ہے دوسرے میں خو بانی کا شرین یا کڑوا گری کو باریک پیس کر ملا کر پکایا جا تاہے اور پکانے کا طریقہ وہی ہے ۔ یہ عام طور پر بو یا یوم یا تخم ریزی کے مو قوں پر بنا یا جاتاہے۔ البتہ گری اگر کڑوا ہو تو اس کی کڑواہٹ کو ایک خاص طریقے سے نکالا جاتاہے اور باقی طریقہ وہی ہے۔

(ت) چی مکی مکوتی: یہ گندم کی نہایت باریک آٹے سے یعنی معدہ کی طرح باریک آٹے سے بنایا جاتاہے۔ پرانے زمانے میں گری یا اخروٹ کے چھلکے کو انتہائی باریک پیس کر باریک آٹے کے ساتھ ملا کر بنایا جاتا تھا مگر آج کو ن ہضم کر سکتا ہے

(۷) غشًوم غشًپائی یا شًوشً کلی: یہ بھی سادہ پانی میں گندم اور مکوک کا آٹا مکس کر کے پکایا جاتا ہے لیکن اس کو تھو ڑہ پتلا یعنی پانی کی مقدار زیادہ ملایا جاتا ہ جب پکتا ہے تو دیسی چمچوں سے کھایا جاتاہے۔ اس کو ہم کسٹر ڈ کہہ سکتے ہیں ۔

(۸) مکوک ٹیکی: یہ خمیچ دون یا مشٹی پچینی میں ڈالکر پکایا جاتاہے اور تریقہ وہی گندم اور مکوک کے آ ٹے کو ملاکر ایک موٹا برٹ تیا ر کر کے مشٹی پچینی یا خمیچ دون میں ڈالکر انگا روں کے نیچے رکھ کر پکایا جاتاہے اور دیسی گھی سے کھایا جاتاہے اور سو کھا بھی کھایا جاسکتاہے۔ اگر مار خو ر یا نسالو کے گوشت کو سجی کی آگ ک سامنے رکھ کر یا سیخ کباب کی پکایا جائے تو اس وقت اس گوشت سے ٹپکنے والا چربی ک تیل کے نیچے گرم انگاروں پر خمیچ دون کے ساتھ رکھ کر اگر پکایا جائے تو اس کا مزہ اور دوبالا ہو جاتاہے۔

(۹) شَو دریکی: جس گھر میں نسالو کیا جاتاہے اس گھر میں سردیوں میں ایک یا دو مر تبہ پکا یا جاتاہے ہو تا یہ ہے کہ گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ کر ایک بہت بڑے دیگ میں ڈال کر رات بھر پکایا جاتاہے اور صبح کے وقت نزدیکی برادری والوں کو بھی بلاکر کھلایا جاتاہے اور اگر گوشت چربی والا ہو تو پکا تے ہوے اگر اس کے سوپ میں تیل کی مقدار زیادہ ہو تو نکال کر مکوک کا کوئی طعام بنا کو اس میں ڈال کر کھایا جاتاہے اور گوشت میں کوئی سبزی ملا کر پکایا جاتا ہے۔

(۱۰) سنگ سیر: جس روز نسالو کا جانور ذبح کیا جاتاہے تو اس روز گاوں والوں کو سب کو بلاکر کھانا کھلایا جاتاہے تو اس روز عام تر کاریکی طرح مگر گوشت کا ایک بڑا مقدار پکا یا جاتاہے اس طرح اس گوشت پکانے کو سنگ سیر کہا جاتاہے۔ یعنی گوشت کا قورمہ( مٹن قورمہ وغیرہ) نسالو کے روز تربٹ بھی پکایا جا تا ہے۔

(۱۱) بُریان : بہت سے انڈے گھی یا تیل میں ڈال کر پکایا جاتا ہے اور ایک پراٹھے کی طرح ہو تا ہے3

(۱۲) مو لیدہ : دودھ کو ابال کر اس میں گندم کی پتلی روٹی جس کو بپا کہتے ہیں ڈالکرتھوڑی دیر کیلئے ابالا جاتا ہے اور نکال کر اس میں دیسی گھی پگھلا کرڈالا جا تاہے اور دیسی لکڑی کے چمچوں یا کھپن سے کھایا جاتا ہے۔

(۱۳) مل: یہ سیدھاسادہ پانی میں گندم کا آٹا ڈال کر پکایا جاتا ہے اور جب پکتا ہے تو اس میں گھی یا دودھ یا دودھ اور گھی دونوں ملا کر جس کو شور غان کہا جا تا ہے ڈال کر کھایا جاتا ہے ۔

(۱۴) ڈوڈو : اس کی کئی قسمیں ہیں (ا) سًل غوم (ب) حا ورو (پ) تش مچ (ت) بردق (س)

(ا) سًل غوم : گندم کے آٹے کو تھوڑہ سا سخت طریقہ سے گوندھ کو بڑے بڑے پتلی روٹی ( بپا) بناکر اس کی تہہ کر کے کدن یا کسی بڑی چھری سے باریک باریک کاٹا جاتا ہے جس طرح (ا سپغتی) ہو تا ہے اور ایک دیگ میں پانی کی مناسب مقدار ڈالکر ابا لا جا تا ہے جب پانی کو جوش آتا ہے تو ان ٹکڑوں کو اس ابلتے ہو ے پانی میں ڈالکر خوب ابالا جاتاہے اور جب پکتاہے تو تڑکہ لگا یا جاتاہے اور قرت ڈالکر کھایا جاتاہے۔

(ب) حاورو: یہ عام طور پر گہیوں یا باقلہ کے آٹے سے بنایا جاتاہے اور آٹے میں تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر ہا تھ کی مدد سے ہلایا جاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے گول گول گولیا ں بنائی جاتی ہیں اور پھر ابلتے ہوے پانی میں تھوڑا تھوڑا کر کے ڈالا جا تا ہے اور پک کر تیار ہو نے پر تڑکہ لگاکر قرت ملا کر مز ے مزے سے کھایا جاتا ہے اور عام طور پر ڈوڈو سردیوں کے موسم میں زیادہ استعمال کیا جاتاہے اور اس سے جسم گر م ہو جاتاہے

(پ) تش مچ : گندم کی پتلی روٹی بنا کر ابلتے پانی میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناکر ڈلا جاتاہے اور پھر حسب سابقہ تڑکہ لگاکر قرت یا شت یا سرکہ ملاکر کھایا جاتاہے یہ یا د رکھیں کہ تمام ڈوڈو میں اگر گوشت ملاکر تیا ر کیا جائے تو پھر اس کا مزہ دو بالا ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ قرت اور شت سر کہ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔Capture

( ت) بر دق: یہ بھی ڈوو کی ایک قسم ہے مگر اس میں ابلتے پانی میں آٹا تھوڑا تھوڑا کر کے ڈالا جاتاہے اور ہلایا جاتاہے جب پانی کی جو بھی مقدار رکھا گیا ہو وہ پھر نی کی صورت گاڑہ ہو جائے تو پکنے کے بعد تڑکہ لگا کر قرت، شت یا سر کہ حسب منشا ملاکر کھایا جاتاہے اس ڈوڈو کو جب کسی کو پیچس لگ جائے تو بطور دوا بھی استعمال کیا جاتاہے جو کہ نمکول کا کام بھی دیتا ہے۔

(ج) ممو حا ورو : یہ دودھ میں پککا یا ہوا حا ورو ہو تا ہے

(ح) ممو سًل غوم: یہ بھی دودھ میں پکایا ہوا سًل غوم ہو تا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ ڈوڈو پورے شمالی علاقہ جات کا من بھاتا خو راک ہے اور تمام علاقوں کے لوگ بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں اور سردیوں میں خاص کر زیادہ استعمال کیا جاتاہے۔

(۱۵) شربت : یہ نمکین حلوہ کہلاتا ہے جو کہ پورے شمالی علا قہ جا ت میں مختلف انداز میں پکایا جا تا ہے اور شوق سے کھایا جاتا ہے لیکن یاسین اور نگر کا شربت البتہ اپنا مثال آپ ہے اسے یاسین اور نگر میں حلوہ کی طرح لیکن دیسی اور وہ بھی پرانا گھی میں پکایا جاتاہے اور جتنا پرانا یعنی کڑواہ گھی ہو گا اتنا ہی چرچا ہو گا اور عمو ماً شادی بیاہ کے مو قع پر پکایا جاتا ہے۔پرانے زمانے میں بلکہ چند سال پہلے تک لکڑی کے برتن (پھتے یا فتے) میں تین روٹیاں رکھ کر اوپر شربت ڈا لکر تین تین بندوں کے سامنے رکھا جاتا تھا تو گویا ایک بر تن میں تین بندے کھاتے تھے لیکن آج کل پلیٹوں میں ڈال کر روٹیاں الگ رکھ کر پیش کیے جاتے ہیں جیسا کہ یہ ہے۔اور گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے بنائے جاتے ہیں 2

(س) کھلا کھدو : اسکا رواج بہت کم ہے لیکن ایک مزیدار خوراک ہے ایک بڑے سائز کا کدو مگر جس کا چھلکا خوب سخت ہو ، کے اندر ایک سوراخ نکالا جاتاہے اور اندر سے بھیج وغیرہ اچھی طریقے سے صاف کر کے نکال کر اس کے اندر نسالو کا گوشت چربی والا بھر تے ہیں اور سوراخ کو بند کیا جاتا ہے اور پھر آ گ کے سامنے مناسب فاصلے پر رکھ کر خوب گرم کیا جا تا ہے یہاں تک کہ شام تک ادھا پک چکا ہو تا ہے پھر رات کو گرم راکھ اور انگارو کے نیچے دباکر رکھا جا تاہے اور صبح نا شتے کے وقت نکال کر اسکا چھلکا اتار کر کھا جاتا ہے اور بہت ہی مز یدار ہو تا ہے۔

(۱۶) پیاوا یا وئی برش: دیسی گھی پانی میں ڈا لکر خوب اُبالا جاتاہے اور خوب مکس ہونے پر تھوڑا نمک حسب ذائقہ ملاکر روٹی ڈال کر کھایا جاتاہے۔

(۱۷) سبزی:

پاکستان میں استعمال ہو نے والی سبزیوں کے علاوہ یہاں کے لوکل سبزی بھی بہت ساری پیدا ہوتی ہے مثلاً (۱)حا ز گار یہ پالک کی قسم کی سبزی ہے (۲) سوانچل یہ میتھی کی قسم کی ہے مگر اس کے پتے تھو ڑے بڑے ہو تے ہیں (۳) اشًکر کا (۴) بار جو ہوئے ( ۵)ھُنی منا زکی (۶) رمبوغ (۷) گوبھی (۸) پلخ(پالک) ، (۹) پستوئنگ (۱۰)گناری (۱۱) اشقہ لنگ (۱۲)پچھی لنگ وغیرہ اور  ان سبزیوں کو خشک کر کے سردیوں کیلئے ذخیرہ کیا جاتاہے اور نسالو کا گوشت ملاکر جب پکایا جاتاہے تو بڑے مزیدار ہو تے ہیں ۔

(۱۸) گوشت : اس میں بکری ، گائے اور مرغی کے علاوہ ہر قسم کا شکار کا گوشت شامل ہے

(۱۹) جو لائے ٹی کی: گندم کی موٹی روٹی یعنی برٹ یا مش ٹیکی بنا کر اس کے بھیج میں اخروٹ کا مغز باریک پیس کر بھرا جا تا ہے اور مش ٹی پچینی میں ڈال کر گرم راکھ اور انگاروں کے نیچے ڈا ل کر اوپر تھوڑ ا آگ بھی جلا کر پکایا جاتا ہے اور بڑا مزیدار ہو تا ہے۔

(۲۰) بٹو روغ(: خوبانی کی پھٹور کو پانی میں بھگو کر رکھا جاتاہے جب نرم ہو جاتا ہے تو خوب باریک کیا جاتاہے اور ایک طرح کا جوس بن جاتاہے اور بہت میٹھا بھی ہو تاہے اس خالص جوس کی طرح پیا بھی جاتاہے اور روٹی ڈال کر بھی کھایا جاتاہے آج کل گلگت شہر میں گرمیوں میں بطور جوس بھی مارکیٹ میں بھک رہا ہے جس کو ہنزہ اور نگر والے چھموس کہتے ہیں ۔ یاسین میں جب موسم بہار میں زمیندار اپنے کھیتوں میں مویشی خانوں سے کھاد نکالتے ہیں تو عام طور پر گرم بے شی میں کئی کئی گھر انے مل کر ہر گھر کے مویشی خانوں سے باری باری کھاد نکا لتے ہیں تو اس وقت ڈوڈو اور بٹو روغ کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا تھا

(۲۱)گیالچھنگ: گندم کے آٹے کو پانی میں ڈال کر تھوڑہ گا ڑہ کر کے توے پر لکڑی کی چمچ یعنی کھپن کے ذریعے پھیلا کر گول

روٹی بناکر پکایا جاتا ہے اور دیسی گھی میں ڈبوکر کھایا جاتاہے، ہنز ہ اور نگر والے براو کے آٹے کی بھی گیالچنگ بناتے ہیں لیکن یاسین میں صرف گندم کے آٹے کی بنائی جاتی ہے۔

(۲۲) چھپ شورو: یہ خوراک یا ڈش کبھی کبھی پکایا جاتا ہے بلکہ آج کل گھروں میں کم اور کاروباری طریقے سے خاص کر ہنزہ کے لوگ مارکیٹوں میں پکا کر فروخت کرتے ہیں اور لوگ بڑ ے شوق سے کھاتے ہیں یہ ڈش روٹی کے پیچ میں گوشت ڈال کر توے کے اوپر ہلکے انچ پر پکایا جاتاہے اور مزیدار ہو تا ہے۔

(۲۳) شکرپستک: خشک توت اور مغز اخروٹ یا بادام خوبانی کی گری ملا کر خوب باریک پیس کر ایک قسم کا خوراک تیار کیا جاتاہے جو بہت میٹھا اور مزیدار ہوتا ہے اور سردیوں میں کھانے کیلئے اچھا ہو تاہے۔

مقامی برتن سازی:

مقامی طور پر چند سال پہلے تک لکڑی کے بر تن بنائے جاتے تھے جو کہ اخروٹ، خوبانی ، توت ، اور ناشپاتی کے درختوں سے بنائے جاتے تھے اور جن کو مختلف نام اور استعمال میں لائے جاتے تھے مثلاً حُرَپ، بل سنگے، ا شکا وا، بر غو زی، قونج، جٹی، پھتے، پُھل،کُنوُ، تَو شی، حنیک، کھپینی، لانگری، کھپُن، ڈوری، جمبو، چھیق، موچھشک، بر غُندو کیش، کھپُن تونی، صغو، تھلُوخ، تونی، کھریٹی، خوٹول، صندوق اور غوریر، اور بیاقریش وغیرہ، جوکہ مختلف قسم کے کام آتے تھے مثلاً کھانے پینے کے برتن ، مختلف اشیاء رکھنے کی بر تن، اور سردیوں کیلئے ، خشک سبزی اور خشک خوبانی یعنی پھٹور وغیرہ رکھنے کی برتن شامل ہیں ۔

چمڑے سے بھی مختلف اشیاء بنائی جاتی تھیں جن میں خا ص کر یہ مشہور ہیں ، منیوشً، گینگیشً، بر سًے، حوچھو، تووچنگ، ترِنگ، چھمرِنکیشً، شًنگا شًی ، تمینگ اور جیلو، کھا ہہ ، بھر پٹ ، چقار تقوم ، تھُر( درہ یا چابک ) ، دخنا گنگیش، قُتی۔ کھمرکھیسا، تیردون، تسمینگ، جیکن۔ بلترنگ،انگوت، وغیرہ شامل ہیں ۔

مقامی کھیل : (۱) پولو : یاسین کا سب سے مشہور اور جوان مردی کا کھیل گھوڑوں پر کھیلا جانے والا پولو کھیل تھا اور اب بھی ہے لیکن آج کل گھوڑا پالنا جوئے شیر لا نے کے مترادف ہے اس لئے اس کی مقبولیت میں کمی تو نہیں کہہ سکتے البتہ اس کھیل میں کمی ضرور واقع ہو ئی ہے چونکہ اس کھیل سے کو ڑا کر کٹ کی طرح کروڑوں روپے کا آ مدن تو کہاں گھو ڑے کا خرچہ ہی حاصل نہیں ہو تاہے۔

YASEEN POLO

یاسین کا پولو کھیل کا ایک منظر

(۲) دپ دیچم : یہ فٹ بال کی طرح کا مگر بغیر کسی قانون کے کھیلا جاتاتھا لیکن اس کا گیند فٹ بال کی طرح بنا بنایا نہیں ملتا تھا بلکہ چمڑے کے ایک ٹکڑے جس کو بر چے کہا جاتا تھا میں بھوسہ ڈال کر گول شکل دیا جاتاتھا اور پتلی رسی ( جیکن ) سے کَس کر باندھا جاتا تھااور کھیلا ڑی دوبرابر حصوں میں تقسیم ہو کر کھیلتے تھے اور ایک دوسرے کو گرانا ، ایک دوسرے سے ٹکرانا اور ایک دوسرے پر جپٹنا وغیرہ سب کھیل کا ایک حصہ تھا کوئی قانون نہ تھا البتہ بچے کپڑے کے ٹکڑوں کو باندھ کر ایک گول گیند کی شکل دے کر کھیلتے تھے۔

(۳ ) پیدل پولو کھیل: جس طرح گھوڑوں پر پولو کھیلا جا تا تھا اسی طرح کے پولو سٹک سے پیدل بھی کھیلا جاتاتھا مگر یہ کھیل ہا کی کی طرز کا ہو تاتھا مگر اس میں بھی کوئی خاص قانون نہیں تھا ہر گول کے ساتھ گھوڑوں کی پولو کی طرح اطراف کو یعنی سائڈ تبدیل کیا جاتاتھا مگر گیند کو ہاکی کی طرح کیری کیا جاتاتھا اور گول کے قریب جاکر ذور سے کیک لگا کر گول کرنے کی کوشش کیا جاتا تھا ۔اس میں فارورڈ کھیلاڑی کیری کر تے تھے اور ایک دوسرے کو پاس کر تے تھے اور اس کھیل کو ٹُخ لئی اور فل بیگ کی طرح ایک دو کھیلا ڑی گیند کو زور سے کیک کر تے تھے اور اسکو ایش پر کہا جاتاتھا ۔اگر کسی کو پولو سٹک میسر نہ ہو تو کو شًیر استعمال کرتے تھے جو کہ ہاکی کی طرح کا ٹیڑھا بید کی ٹہنی کا ٹ کر بنایا جاتاتھا۔

(۴) ٹک سیری (گلی ڈنڈا) : یہ گلی ڈنڈا جو پورے ملک میں کھیلا جاتاہے اسی ظرح یاسین میں بھی کھیلا جاتا تھا ۔

(۵) ہن دن : یہ پتھروں کا ایک کھیل تھا ایک ایک بالشت لمبا پانچ یا سات پتھر پندرہ قدم کے فاصل پر کھڑا کر کے دونوں اطراف کے کھیلاڑی باری باری چھوٹے چھوٹے پتھر سے نشانہ بناکر ان پتھروں کو گرانے کی کو شش کر تے اور جو ٹیم مخالف ٹیم کے پتھر پہلے گرا کر ختم کر تے وہ جیت جاتا اور وہ دوسری ٹیم پر سوار ہو کر اس گراونڈکا ایک چکر لگاتے تھے ۔

(۶) سپوک (پیاندک) اس کھیل کو اردو میں پیاندک اور مقامی زبان میں سپوک کہتے ہیں ۔ کپڑے کے ایک ٹکڑے میں تھوڑا سا مٹی باندھ کر کپڑے کے سروں کو باریک باریک کاٹ کر چڑی بنایا جاتا تھا اور پاوں سے ہو ا میں اوچھالا جاتا تھا اور گنتی کیا جاتا اور نیچے گرائے بغیر جتنی زیادہ گنتی ہو تا وہ جیت جاتا اورجیتنے والا دوسرے کے کمر پر ایک ہلکا سا لات مارتا ۔

(۷) کھس کھس: یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں یا میگنوں سے کھیلا جاتا تھا تین چار کھیلاڑی مل کر کھیلتے تھے اور ہر کھیلاڑی کیلئے ایک چھوٹا سا گڑہ بنا یا جاتا تھا اور ہر گڑے میں چھ چھ پتھر یا میگنے ڈالے جاتے تھے پھر ایک کھیلا ڑی ایک گڑے سے ان چھ پتھروں یا میگنوں کو اٹھا تا اور ایک ایک پتھر یا میگنہ ہر گڑے میں ڈالتا اور جہاں یہ چھ ختم ہو تے اس سے اگلے گڑے سے ا ٹھا تا اور اسطرح اگے چلتا جاتا اور جہا ں کوئی گڑہ خالی ملتا تو اس میں ہاتھ لگا کر اگلے گڑے سے سارے پتھر یا میگنے اٹھا تا اور اگلے کھیلا ڑی کی باری ہوتی اسی طرح سب کھلا ڑی اپنی اپنی باری کا انتظار کر تے اور کھیلتے اور جب یہ پتھر یا میگنے ختم ہو تے اور جو کھیلا ڑی سب سے زیادہ پتھر یا میگنے حاصل کر تا وہ جیت جاتا ۔

(۸) ڈٹو دریک : یہ اخروٹ سے کھیلا جاتا تھااور سات قدم پر ایک چھوٹا سا گڑھا بنا یا جاتا تھا اور ہر کھلا ڑی سے ایک ایک اخروٹ جمع کیا جاتا اور ایک کھلاڑی ان اخروٹوں کو اس گڑھے میں پھینکتا اور جو اخروٹ گڑے میں گر جاتے وہ اس کھلا ڑی کے مگر گڑھے سے باہر گرے ہوے اخروٹ میں سے ایک اخروٹ کو دوسرا ساتھی اس کو دیکھاتا تو کھیلاڑی ایک اخروٹ سے اس کا نشانہ لیتا اگر کسی دوسرے اخروٹ سے ٹکرائے بغیر دکھایا ہو اخروٹ کا نشانہ لگا نے میں کامیاب ہو تا تو سارے اخروٹ وہ کھلا ڑی ا ٹھا تا اور اگر نشا نہ نہ لگا سکا مگر فول ہوا تو گڑھے میں گرے ہو ے اخروٹ بھی واپس لیا جاتا اور اگر فول نہ ہو اور نشانہ بھی نہ لگے تو گڑھے میں گرے ہو اخروٹ کھلا ڑی کے حصے میں آتے اور ہر کھلاڑی باری باری کھیلتا اوراگر اخروٹ ایک ہی باری میں کوئی ایک ہی کھلاڑی جیت جاتا تو نئے سرے سے سب کھلاڑی ایک ایک اخروٹ ڈال کر دوبارہ کھیل شرو ع کر تے ۔

(۹) گل دانک : یہ بنٹا کی شکل کا ایک کھیل ہے جو کہ چھ یا بارہ چھوٹے پتھروں سے کھیلا جاتا تھا پتھروں کو ہوا میں اوچھالا جاتا تھا اورہو ا ہی میں پکڑے جاتے تھے اور جو زمین پر گرتے تھے ان کو پکڑنے کیلئے ہاتھ میں آئے ہو ے پتھر کو ہوا میں اوچھال کر زمین پر پڑے پتھر کو بھی اٹھا کر ہوا میں اوچھالا ہو ا پتھر بھی پکڑ ا جا تا اور اس طرح زمین پر پڑے ہوے پتھروں کو اوچھال اوچھال کر ہو ا میں پکڑ پکڑ کر جب زمین پر پڑے ہوے پتھر ختم کیا جاتا تو دوسرا بندہ کھیلتا اور جب تک چاہے کھیل سکتے تھے۔ یہ کھیل لڑکیاں کھیلتی تھیں ۔

(۹) پھانگو: یہ گل دنک کی طرز کا کھیل تھا مگر اس میں بھی چھ یا بارہ پتھر ہو تے مگر اس میں پتھروں کو ایک دفع ہو ا میں اوچھا لا جاتا اور پھر جب یہ زمین پر بکھر جاتے تو دو پتھروں کے درمیان ہاتھ سے لکیر کھینچ کر قلمیں والی انگلی سے ایک پتھر سے دوسرے کو نشانہ لگایا جاتا اور نشانہ

لگ جاتا تو ایک پتھر اُٹھا تا اور اگلے دو پتھروں کو استعمال کر تا اسی طرح دوسرا تیسرا کھیلاڑی کھیلتا ۔یہ کھیل بھی لڑکیاں کھیلا کر تی تھیں ۔

(۱۱) فو دن :یہ عموماً شام کے وقت مغرب کے بعد کھیلا جاتا تھا سفید سنگ مرمر کی طرح کا ایک چھوٹا سا پتھر (چق ماق) لیا جاتا اور چھوٹےچھوٹے لڑکے اور لڑکیا ں مل کر کھیلتے تھے ایک ان کا بادشا چنا جاتا اور وہ پتھر ہاتھ میں لے کر تمام کھیلا ڑیوں کو آنکھیں بند کر نے کو کہتا اور کھیلاڑیوں کو دکھا ئے بغیر اس پتھر کو ایک طرف پھنیک دیتا اور جب وہ زمین پر رک جاتا تو کھیلا ڑیوں کو ڈونڈھنے کیلئے کہتا اور جس کھیلا ڑی کو وہ پتھر نظر آتا تو وہ کوشش کر تا کہ اس طریقے سے اٹھا ئے کہ باقیوں کو پتہ نہ چلے ورنہ باقی سب کھیلاڑی اس سے چھیننے کیلئے اس سے لپٹ جاتے تھے اور اس دنگا مشتی میں ایک دوسرے کو گرایا جاتا تھا اور کپڑے بھی پھٹتے تھے اور جو اس پتھر کو بادشا یا لیڈر تک پہنچا تا وہ ونر کہلا تا

(۱۲) کھو شت نا کھوشتی: اردو میں آنکھ مچولی کہا جاتا ہے یہ عام طور پر پورے پاکستان میں بھی کھیلا جاتا ہے

(۱۳) دُپ لا دوپی:یہ عام طور پر چھوٹے بچے بکریوں کے پا س جاکر بکریوں کے ریوڑ خانے میں سردیوں کے موسم میں کھیلتے تھے چونکہ ریوڑخانے گرم ہو تے تھے اس لئے بچے وہاں جاکر ٹہنیوں کی بنی ہوئی تونی ( ٹوکرے) کو الٹا رکھ کر بکریوں کے میگنے اس ٹوکرے پر اچھالتے تھے اور ایک گیت گاتے تھے کہ دپلا دوپی شالا دوپی کی طرح کے الفاظ پر مشتمل ہو تا تھا

(۱۴) قیدرانگ: اس کو اردو میں جھولا کہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ جھولا اردو والے جھولے سے تھوڑا ہٹ کر تھا یہ بکری کے بالوں سے بنی ہو رسی کو کسی اونچے درخت سے لٹکا کر بنایا جاتاتھا اور لڑکیا جھولتی تھیں خاص کر عیدوں کے مواقعوں پر اور بو یا یوم ( تخم ریزی ) کے مو قع پر اور اس کے علاوہ جب کو ئی بندہ نیا رسی بناتا تو اس کی کچھاو کو بر قرار رکھنے کیلئے بھی لڑکیوں کو دیتا کہ اس رسی پر جھولا جھولے تاکہ اس کی کچھاو مظبوط ہو۔ اسی طرح ایک جھولا لکڑی زمین میں گاڑھ کر اوپر بھی زمین کی متوازی ایک لکڑی لگاکر بنایا جاتا تھا،اس کو بھی قیدرانگ کہا جاتا تھا۔

(۱۵) پیش پو : یہ بھی لڑکیوں کا کھیل تھا، ہوتا یو ں تھا کہ دو لڑکیا ایک دوسرے کے ہاتھوں کو مظبو طی سے پکڑ کر پاوں کو جوڑ کر اپنے دائیں طرف تیزی سے گھو متی تھیں اور یہ ایک بہترین ورزش تھی ۔

(۱۶) چوٹی : یہ چھوٹے بچوں کا کھیل تھا عمو ماً ایک دوسرے کے پیٹھ پر دپ سے مار کر چوٹی کہہ کر بھا گتے تھے تو دوسرا بھی اس کو اسی طرح پیٹھ پر مارنے کیلئے دوڑتا تھا اور اس کو ہاتھ لگا کر چوٹی پکار کر بھا گتا اور پہلا اس کو پکڑ کر ہاتھا لگا نے کی کوشش میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے اور تھکنے تک جاری رہتا۔

(۱۷) شیر مو: یہ دو یا دو سے زیادہ کھیلا ڑی کھیلتے تھے دو بندے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ ملاتے ہیں اور واپس کھینچ کر مختلف نشان بناتے ہیں مثلاً ایک کھیلاڑی اگر قینچی اور دوسرا اگر ہتھوڑہ بناتا تھا تو ہتھوڑے کے نشان والے کا ایک پوائنٹ ہوتا تھا اس طرح مختلف نشان بنا بنا کر پوائنٹ حا صل کر تے تھے اور جس کو پوائنٹ زیادہ حاصل ہو تے تھے وہ جیت جاتا تھا ۔

(۱۸) بے شیریکی: یہ پہیلیاں بھجانے والا کھیل تھا ایک پہیلی کہتا تو دوسرے اس کو سجھاتے یعنی بوجو تو جانو والا کھیل کہہ سکتے ہیں ۔ایک پہیلی ( سی چُم بسی چُم درونگ درونگ سما چُم ) یعنی لمبا راستہ لمبی زندگی یعنی شار ٹ کٹ سے زندگی کو خطرہ لا حق ہو سکتاہے اس لئے سیدھا راستہ اختیار کیا جائے چاہے لمبا ہی کیوں نہ ہو۔

اس کے علاوہ کشتی اور رسہ کشی اور تیراکی بھی ایک عام کھیل تھا مگر آج کل تیراکی کہیں کہیں نظر آ تی ہے با قی سارے کھیل نا پید ہو چکے ہیں اور آج کل سب سے مقبول یاسین میں بھی کوڑا کر کٹ ہے اس کے علاوہ فٹ با ل ، والی بال ، ہاکی بھی کھیلا جاتاہے۔

(جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button