کالمز

تا ریخ شندور اور خود کُش مو رخ ( تیسری قسط)

بر ملا اظہار: فدا علی شاہ غذریؔ

قا ر ئین کی یاد دہا نی کے لئے عرض ہے کہ میں نے آخری قسط میں اس بات کی طرف اشارہ دیا تھا کہ میری تحریروں کے عنوان اور مخا طَب بھی فیضی صاحب ہو نگے اور اُن کے جان نثاران ’’ ژور تا تے ریم رو ژائیو کار کو رے‘‘ کے مصداق رہیں گے کیونکہ میں نے اُن سے عرض کیا تھا کہ ’’ تو کی مہ وزیرو پرا اوا تہ با چھو دوم اسپہ مو ژی ژنگ‘‘ اب بھی اُن کی خد مت میں عرض ہے کہ

دلیل تھی نہ کو ئی حوالہ تھا اُن کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے

فیضی صاحب !! سانپ والی مثل نے سانپ کے بارے ایک مشہور لائین مجھے بھی یا د دلا دی ’’ سانپ ہمیشہ ٹیڑھا ہو کر چلتا ہے سیدھا صرف اپنے بل میں جا تے ہو ئے ہو تا ہے‘‘۔ سانپ کے ڈسے ہو ئے کا علاج مو جود ہے اور حد تو یہ ہے کہ دنیا میں کئی لوگوں کوسانپوں سے ڈسوا نے کی عادت پڑ گئی ہے اور اُن پر سانپ کے زہر کا کو ئی اثر نہیں ہوتا ۔ پا کستان کے شہر سر گو دھا کے نوجوان حا فظ امر شہزاد کو بھی یہ خو فناک شوق کی لت لگی ہے جب دن میں دو تین دفعہ سانپ نہ ڈسے اُن کا دن نہیں گزرتا۔ یوں سانپ اور رسی سے ڈ رنے کا رواج بہت پرا نا ہو تا جا رہا ہے۔ اب سانپ کا ڈسنا خطرے سے خالی ہو چکا ہے لیکن انسا نی منہ کو اپنا بل سمجھ کر اندر دا خل ہو نے والے نفرت کے سانپ سے بہت خطرہ لا حق ہو گیا ہے اور اس کا کو ئی علاج بھی نہیں۔ادریس شاہ کی تصنیف Tales of Darvesh میں ایک حکایت The horserman and the snake درج ہے کبھی موقع ملا تو ضرور پڑھنا کہ کس طرح سانپ ا یک شخص کے اندر داخل ہو تا ہے اور گھڑ سوار کے پاس کیا طریقہ علاج مو جود ہو تا ہے۔ نفرت کے سا نپوں سے اللہ تعا لی ہم سب کو محفو ظ رکھے اور نفرت کے کسی ذ ہر یلے سانپ کو مو قع نہ مل جا ئے کہ وہ ’’ انسا نی منہ‘‘ کو اپنا بل سمجھتے ہو ئے ’’سید ھا ہو کر‘‘ اندر داخل ہو سکے۔

فیضی صا حب!! جن لو گوں کے پاس علم ، دانش اور تجر بہ ہو تا ہے اُ ن کے کندھوں پر ذمہ داری بھی عا ئد ہو تی ہے اور کو ئی بھی ذمہ داری احساس ذمہ داری کے بغیر اپنے انجام کو نہیں پہنچتی۔ علم دانش ، فہم فرا صت اور وسعتِ تجر بہ بھی احساس ذمہ داری کے بغیر ایسے ہی ہیں جیسے خرد کا نام جنون اور جنو ن کا خرد۔۔اگر ان تین چیزوں کی مو جو دگی بھی ایک انسان کے عمل کی درستگی میں مدد گار ثابت نہ ہو تو وہاں سے آگے خر مستی کا سفر شروع ہو تا ہے۔ آ پ بڑے دا نا ور پہنچی ہو ئی شخصیت ہیں آپ ا حساس ذمہ داری اور علم و دانش کی بصارت سے خوب آگاہ ہیں اور اُن میں چھپے سیا سی مقا صد اور توجہ و تر جیہات کے پہلو سے کبھی پہلو تہی نہیں کر سکتے لیکن میں تو ایک مو رکھ طفل مکتب ہوں جو سطروں کا صرف لفظی مطلب جا نتا ہے۔’’ وہم‘‘ نفسیاتی اُلجھن ، خوف اور شکوے نام کی بیماریاں میری ذات کا حصہ نہیں رہی ہیں لیکن اُن لو گوں میں مو جود ہیں جو اپنے سطروں کو دو سروں کا نام دے دیتے ہیں اور بار بار دیتے ہیں، میں اُن تمام نا موں سے واقف ہو ں جن کے نام لکھ کر داد بیداد کیا جا رہا ہے اُن دو نا موں کو کیسے بھول سکتا ہوں جن کی عقد میں اہل غذر کی دختران نیک اختران ہیں ۔ مجھ سمیت اہل لا سپور حیران ہیں کہ وہ را توں رات کا لم شنا سی اور کا لم نویسی کہاں سے سیکھ لئے ؟؟ پیرو مر شد!!لوگ سیا نے ہو گئے ہیں وہ خط کا مضمون لفا فہ دیکھ کر بھا نپ لیتے ہیں ۔ لیکن مجھے کو ئی اعتراض نہیں کیو نکہ اُصول تو ڑنا اور عہد تو ڑنا کو ئی جر م نہیں یہ عمل معا شرے کے نام نہاد بڑوں کا وطیرہ بن چکا ہے ۔آپ کے سطروں میں کبھی تا ریخی ’’افسا نے‘‘ کی قسطیں لکھنے کی دھمکی تو کبھی قہقوں کو ’’رو نے ‘‘میں بدل دینے کی نو ید آپ کے الفاظ میں سرایت ہو ئی گہرا یت کو نکال کر با ہر پھینک دیتی ہے۔ مجھے آپ کے درج بالا دو نوں ارادوں سے کو ئی خوف نہیں اور نہ ہی مجھے میدان جنگ میں شہسواروں کے گر نے پر قہقے آتے ہیں لیکن جب وہ وہاں نہیں کہیں اور گر جا تے ہیں اُس پرقہقہ ضرور لگا تا ہوں، میں تو گھٹنوں کے بل چلنے میں اپنی عا فیت سمجھتا ہوں کہ گرے بغیر محبت کی ہر وادی عبور کر کے منزل پاسکوں لیکن اکیسو یں صدی کے شہسواروں کو اس بات سے بھی آگاہ ہو نا ہو گا کہ میدان جنگ میں گھو ڑوں سے گر نے اور پلکوں سے گر نے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

ہاں!! ہم ( قہقے لگا نے والے) با خبر ہیں کہ شہسوار ما ضی میں کہاں اور کس کے خلاف شمشیر زنی کر تے تھے، شہسوار کے گھو ڑے کا لگام کن کے ہا تھ میں ہو تا تھا اور ہم یہ بھی جا نتے ہیں کہ شہسوار کی نظر ہمیشہ نیلے آسمان پر ہو تی تھی لیکن گھو ڑ ے کی نظرہمیشہ سبز گھاس تک محدود رہی اور یوں سبز گھاس پر چر تے چرتے گھو ڑے کالگام کسی اور نے تھام لی اور گھوڑا راہ راست پر آگیا۔ تنقید نگا ری تو بہت بڑی چیز ہے مجھ جسیے نا چیز لوگ کہاں تنقید اور طنز کر سکتے ہیں مجھے قلم تھا مے ابھی بہت کم عر صہ گزرا ہے وقت آنے پر نا قد بھی بن جا وں گا، طنزو مزاح کے شا ہکار اور آوارہ خیالات کے فن پا رے بھی جنم لیں گے۔ لیکن صبر تو کرے۔۔

فیضی صاحب! تا ریخ کو بے وضع کہہ کر آپ نے میرا کام آسان کر دیا ہے میں بھی بعض مو ر خین کی تا ریخ کو بے وضع سمجھتا ہوں آپ کے واسیع مطا لعے میں یہ بات بھی آ ئی ہو گی کہ جس اردو ’’تا ریخ چترال ‘‘پر آپ انحصار کر تے ہیں وہاں تا ریخ اپنے آپ کو دہرا نے کی بجا ئے خو د کو رو لاتی ہے اور جس ’’تا ریخ چترال‘‘ (فارسی) کو محمد غفران نے عمر کا ایک حصہ بڑا لگا کر پورہ کیا تھا اُسی تا ریخ کو تو شجا ع الملک نے شروع میں’’ تا ریخ شجا ئیہ‘‘ کہتا رہا لیکن بعد میں کسی لفظ سطر یا بات پر ناراض ہو کر جلا ڈالا ۔ اُس تا ریخ کی صرف ایک کا پی اپنے پاس رکھا اور با قی سب راکھ کے ڈھیر میں بدل د یئے۔ محمد غفران کی وہ کاوش جس پر کم و بیش 12برس لگ گئے تھے راکھ بننے میں 12 منٹ بھی نہیں لگے۔ شجا ع الملک کو تا ریخ چترال لکھوا نے کا نظریہ بھی گلگت ایجنسی کے انگر یزوں نے دیا تھا جو انہیں پسند آیا لیکن نہ جا نے پھر کس بات پر شجا ع الملک ہلا کو خان بن گئے ۔ سر زمین چترال کے ایک فر زند

ہدا یت الر حمن صاحب کا اس حوا لے سے بڑی اچھی تحقیق ہے چترال کی تا ریخ میں دل چسپی ظا ہر کر نے والے نو جوانوں کو اُن کی اُس علمی کا وش سے استفادہ حا صل کر نے کی ضرورت ہے ۔ فیضی صا حب !! جن لو گوں کی جانب رُخ کر نے کا مشورہ آپ مجھے دے رہے ہیں وہ آپ کے ذات قبیلے کے لوگ ہیں اُن کی طرف رُخ میں کروں یا نہ کروں فرق نہیں پڑے گا لیکن آپ کا واسطہ رشتہ اُن سے ہے لہذا اپنے رشتوں کو اُن سے بحال رکھئے گا۔۔ انہوں نے تو اپنے نام استعمال کر نے کی اجازت عطا فر کر اپنا حق ادا کر د یئے۔۔ رہی بات میری جان بخشی کی۔۔ تو فیض احمد فیض صا حب نے کیا خوب فر ما یا ہے

جس دھج سے کو ئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جا نی ہے اس جان کی تو کو ئی بات نہیں

فیضی صا حب ! سر زمین چترال او ر وادی شہداء ضلع غذر میں روایات و اقدار، تہذیب و تمدن، ثقا فت اور دیا نت سب اپنے اپنے عروج پر ہیں اس لئے کسی کی کتاب یا سر زمین سے روایات اور اقدار سیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو ئی اور نہ کبھی ہو گی۔ آپ اپنے اندھے تقلید کاروں ، مدا حوں ،سفلہ پن کے عملی نمو نوں اورسو قیاپن کے آمینوں اور دشنام طرازوں( اپنے نام پر کالم لکھوا نے والوں ) کو سر زمین چترال اور غذر کی حسین روایات کی سیر کر وا دیں جہاں صورت بھی ہے سیرت بھی، بصارت بھی ہے بصیرت بھی، ثقا فت بھی ہے اور دیانت بھی یہ وادیاں جنت کی وادیاں ہیں جہاں محبت ہی محبت ہے ۔ جھگڑا فساد کے لئے مشہور تین چیزیں (زن، زر اور زمین ) اس سر زمین میں کبھی نفرت کا با عث ہی نہیں بن سکیں اور بے پنا ہ پیار نے ان کی یہ مبینہ خا میاں بھی بدل دیا ہے ۔۔ زن ما ں ، بہن ، بیٹی اور بیوی جیسے مقدس رشتوں کے معراج پر ہے، زرزندگی گزارنے کا ایک نظام ہے لیکن کسی کو ایمان بھیجنے پر ابھی مجبور نہ کر سکا ہے اور زمین بھی محبت کی اناج اُ گا نے کے لئے مشہور ہے لیکن تخمِ نفرت و فساد کو پنپنے نہیں دی ہے اس لئے آپ سے التماس ہے کہ کم ازکم تہذیب اور اقدار سیکھنے کے لئے کسی اور معا شرے کی مثا لیں اور را ہیں مت دیکھانا۔ بڑو ں، رشتوں اور محبت کی قدر اور احترام کا جذ بہ نفرت نا مہ لکھتے وقت یاد رہتا تو مجھے اقساط لکھنے کا موقع نہیں ملتا، روایات اور اقدار کو اپنے ایمان کا حصہ بنا لیتے تو مجھے گستا خی کی ضرور ت نہیں پڑ تی اور پھر جھوٹ و نفرت کو اپنے سطر وں سے الگ رکھتے تو مجھے ان کے پر دے چاک کر نے کی سوچ بھی نہیں آتی لیکن ایسا نہیں ہوا پہ درپے الزامات اور یہاں تک کہ ملک دشمن مو دی کے بیان کے تا نے بانے بھی ہم سے ملا نے کی کوشش کی۔ رشتوں کی بات کر نے والوں کو میتھیو بریٹ سے تشبح دے کر اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے اب اخلاق اور اقدار کی بات زیب نہیں دیتی ۔ اب بھی آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ جس مٹی کے لو گوں نے فیضی کو مشترکہ آثا ثہ سمجھتے تھے وہاں آپ کی صورت اور سیرت دو نوں داغدار ہو چکی ہیں ان دا غوں کو دھو نے کے لئے دوسری جنم بھی نا کا فی ہو گی اب آپ کی تحریروں سے محبت کے شیشے پر پڑے کر یک ختم نہیں ہو سکتے وہ شیشہ’’ کھو ر‘‘ ہو گیا ہے ۔ ۔ مجھے اپنے ایک پیرا گراف سے اقدار سیکھا نے وا لے ، ہوش میں لا نے والے، رو لانے اور دھمکا نے والے بھول جا تے ہیں کہ شخصیت پر ستی ( اصل میں انا پر ستی ) و مدح سرا ئی میں یہ سب کچھ اگر جا ئز ہیں تو اُس پر تنقید کر نے کا حق بھی کسی کے پاس محفوظ ہوتاہے۔ آپ نے نفرت نا مے میں الزامات لگا کر پر سکون نیند کشی کرو گے اور اہل غذر کے سپوت کا نہایت احترام کیساتھ آپ سے سوال پوچھنا خود کشی ہے واہ واہ کیا خوب داد بیداد کر نے کا ہنر ہے !!! مجھے اہل چترال اور سر زمین چترال کی مہمان نوازی پر کو ئی شک نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ نفرت کے پجا ریوں میں کہاں ہمت ہے کہ خو شبو لگا کر سچا ئی کو مہمان بنا سکے۔۔ اُن کی سرشت میں ایسی خو بیاں جنم ہی نہیں لیں ہیں لیکن پھر بھی مجھے اُن سے ملنے کا اشتیاق ر ہے گا۔ ڈا کٹر مجیب ایمانؔ نے کیا خوب کہا ہے

تیری تنو یر کا آئینہ ہوں
غور سے دیکھ تما شہ نہ سمجھ

فیض احمد فیض کا ایک اور شعر عرض ہے

گر با زی عشق کی با زی ہے تو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو با زی مات نہیں

(جا ری ہے )

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button