کالمز

خود کشی سے بچاو کا عالمی دن اور گلگت بلتستان

دنیا بھر میں ہر سال 10 ستمبر کو خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحاں کے پیش نظر اقوام متحدہ نے 1990 میں خود کشی سے بچاؤ کی نیشنل پالیسی کی منظور دی تھی جبکہ 2003 میں پہلی دفعہ 10 ستمبر کو خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن قرار دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد دنیا کے اکثر ممالک اس دن کومناتے ہیں۔ اس دن دنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے پاس ایک عدد موم بتی جلا کر خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کو یا د کرنے کے علاوہ خودکشی کی کوشش کرکے بچنے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ 2011 میں دنیا کے 40 ممالک میں اس دن کو سرکاری سطح پر منا یا گیا تھا۔ امسال خودکشی سے بچاؤ کے عالمی دن کا موضوع Connect, Communicate and Care ہے۔ جس کا مطلب ہے ان افراد سے ملو، رابطہ رکھواور ان کا خیال رکھو جن کے عزیز وں میں سے کسی نے خودکشی کی ہے یا خودکشی کرکے ناکام ہوئے ہیںیا ایسے افراد جو تنہا پسند ہیں اور خودکشی کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر تین سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کی کوشش کرتا ہے ۔ خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس تناسب سے ہر چالیس سکینڈ میں ایک فرد خود کشی کے نتیجے میں موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں روزانہ تین ہزار افراد خودکشی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ خود کشی سے بچاؤ کی عالمی تنظیم کے صدر برائین مشارا کے بقول دنیا میں جنگوں، دھشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اتنی اموات نہیں ہوتی ہیں جتنی خودکشی کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔خودکشی کے نتیجے میں ہلاکتوں کا رجحان پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے افراد میں سے زیادہ ہے۔ یعنی یوتھ کے اندر خودکشی کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں کچھ غیر معمولی کام کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

2020 تک دنیا بھی میں خودکشی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح ساؤتھ کوریا میں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح دنیا کے باقی ممالک سے قدرے کم ہے۔

پاکستان میں سالانہ پندرہ سو سے دو ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں جبکہ ہزار سے زائد افراد خودکشی کرکے ناکام ہوجاتے ہیں۔جبکہ گلگت بلتستان میں سالانہ اوسط پندرہ سے بیس افراد خود کشی کرتے ہیں۔محکمہ پولیس گلگت بلتستان کے اعداد وشمار کے مطابق 2011 میں 22 افراد نے، 2012 میں 16 افراد نے، 2013 میں18 افراد نے2014 میں 15 افراد نے اور 2015 میں 13 افراد نے خود کشی کے زریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ گلگت بلتستان میں گذشتہ پانچ سالوں میں مجموعی طور پر 84 افراد نے خودکشی کے نتیجے میں اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا ہے جبکہ 41 افراد خودکشی کرکے ناکام ہوئے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان میں خودکشی کی شرح پاکستان کے دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔2000 سے 2010 تک گلگت بلتستان میں خودکشی کا یہ رجحان سب سے زیادہ تھااور آبادی کے تناسب سے ضلع غذر پاکستان کا وہ ضلع تھا جہاں سب سے زیادہ خودکشیوں کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ مگر اب یہ رجحان گلگت بلتستان کے تمام اضلاع تک پھیل چکا ہے۔ گذشتہ ایک سال میں وادی گوجال میں کئی نوجوانوں نے خودکشی کے زریعے اپنی زندگی کا چراغ گل کردیاہے۔ ایک اندازے کے مطابق وادی گوجال میں گذشتہ چند سالوں میں خودکشی کرنے والے ان نوجوانوں کی تعداد دس کے قریب ہے۔ اسی طرح گلگت اور دیگر اضلاع سے بھی واقعات ریکارڈ پر آچکے ہیں۔ تاہم گوجال میں ا س رجحان میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔جہاں پڑھے لکھے نوجوانوں نے خود کشی کی ہے۔

2000 سے 2004 تک ضلع غذر میں خودکشیوں کے 64 واقعات ریکاڈ کئے گئے تھے۔ ان واقعات پر کی جانے والی ایک سٹیڈی میں خودکشی کی کئی وجوہات کے علاوہ یہ اہم انکشاف بھی ہوا تھاکہ یہ سارے واقعات خودکشی نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے 60 فیصد واقعات غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں جن کو خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر خواتین کی ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو خودکشی کا رنگ دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ خودکشی کے واقعات کی تحقیقات نہیں ہوتی ہیں۔ ہمارے قوانین میں یہ سقم موجود ہے کہ ورثاء کی اجازت کے بغیر پوسٹمارٹم نہیں ہوسکتا۔ اگر پوسٹمارٹم کیا بھی جائے تو پولیس اپنی آسانی کے لئے اس کو خودکشی ہی قرار دیکر کیس فائلوں میں دفن کردیتی ہے۔ اگر غیرت کے نام پر قتل ثابت ہو بھی جائے تو ورثاء میں سے کوئی مدعی بنا کر مقدمہ درج کردیا جاتا ہے اور بعد ازاں مدعی قاتل کو معاف کردیتا ہے کیونکہ ایسے واقعات میں قاتل ہمیشہ گھر کا کوئی فرد ہی ہوتا ہے۔ دیت قانون کے تحت مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر سکتے ہیں۔ جب تک ریا ست خود مدعی نہ بن جائے غیرت کے نام پر قتل کے ملزمان کو سزا ملنا مشکل ہے۔

مذکورہ سٹیڈی میں خود کشی کی کئی وجوہات بھی بیان کی گئیں تھیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ خودکشی کے ہر واقعے کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے۔تاہم جو اہم وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان میں ذہنی و نفسیا تی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ ذنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان ، لامتنا ہی خواہشات وغیرہ شامل ہیں۔

بدقسمتی سے عام لوگوں میں خودکشی سے متعلق آگاہی نہیں ہے اس لئے نہ صرف خودکشی بلکہ دیگر کئی سماجی مسلوں پر وہ حکومت وقت سے توقع رکھنے کی بنائے انسانی حقوق کی تنظیموں سے ایسے مسائل کے حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔حالانکہ خودکشی سمت کسی بھی سماجی مسلے کا حل انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس نہیں ہوتا ۔ ایسی تنظیمیں صرف کسی سماجی مسلے کی نشاندہی کر سکتی ہیں ان کا حل نہیں نکال سکتی۔ ان تمام مسائل کا حل حکومت کے پاس ہی ہوتا ہے تاہم سول سوسائٹی اس ضمن میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے۔

خودکشی ایک پیچیدہ سماجی مسلہ ہے ، دنیا کے بیشتر معاشرے اس کا حل نہیں نکال سکے ہیں تاہم اس رجحان کو کم کرنے کے لئے ضروری اقدامات اقوام متحدہ سمیت کئی ممالک اٹھا چکے ہیں۔ کیونکہ خودکشی عام جرائم کی طرح نہیں ہے کہ تفتیش کے دوران منصوبہ ساز اور اس پر عمل کرنے والے کا پتہ لگ سکے۔ یہ ایک فرد کی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ دنیا کے ہر فرد کو اپنی سوچ پر اختیار حاصل ہو تا ہے کسی بھی شخص کوکسی دوسرے کی سوچ پر پہرہ نہیں بیٹھایا جاسکتا ۔ تاہم معاشرے کی مجموعی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں اہم تبدیلیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے باوجود خودکشی کی روک تھام کے لئے حکومتی اور سول سوسائٹی کی سطح پر چند اقدامات کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں خودکشی کے اصل محرکات کو سمجھنے کے لئے ایک باضابطہ تحقیق کی ضرورت عرصہ دراز سے شد ت سے محسوس کی جارہی ہے جس کے لئے اچھے خاصے وسا ئل درکار ہیں ، حکومت چاہے تو یہ کام بآسانی ہوسکتا ہے تاکہ اس تحقیق کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔دوسری طرف خودکشی کے واقعات کی تفتیش کے عمل کو بھی شفاف بنانے کی ضرورت ہے جبکہ غیرت کے نام پر قتل کو خودکشی کا رنگ دینے کے رجحان کے روک تھام کے لئے بھی پالیسی اور قانون سازی کی جاسکتی ہے۔گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اس سماجی مسلے کے حل کئے ماہرین کی مدد سے ایک پالیسی بنا کر اس پر عملدرآمد کرا سکتی ہے ۔اسی طرح حکومت اور سول سوسائٹی مل کر آگاہی مہم بھی چلا سکتے ہیں ۔ جس سے اس سماجی لعنت کے رجحان کو کم کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے ۔ امید ہے صوبائی حکومت اس اہم مسلے کی طرف تو جہ دے گی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button