کالمز

دلناٹی گاؤں کے عوام پانچ سا ل سے حکومتی امداد کے منتظر

قاسم شاہ

گلگت بلتستان کے ہیڈ کوا ٹر گلگت سے 50 کلو میٹر دور ضلع غذر کے گا وں ڈلنا ٹی جس کی آبادی 150 گھرا نو ں پر مشتمل ہے 2010 اور 2015 میں مو سمیا تی تبد یلی کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے تبا ہی پھیلا دی ۔سیلاب کی وجہ سے 1کلو میٹر سڑک 1 گورنمنٹ پرایمری سکول 10 رہا یثی گھر 2 پن چکیاں 3واٹر چینل سینکڑوں کنال زرعی زمین اور ھزا روں پھلدار اور غیر پھلدار درختوں کو تباہ ہ کر دیا جس کی وجہ سے بعض لو گو ں کو گا وں کو خیر باد کرنا پژا کیو نکہ ان کی زمین اور جائداد سیلاب کی نظر ہوئ تھی۔ سخی احمد جا ن کا تعلق بھی اسی گا وں سے ہے جو کہ 4 بچوں کا با پ ہے جس کی 2 کنال زمین تھی جس میں اس نے گھر بنا یا تھا جہان اس نے سیب‘ خوبا نی اور انار کے درخت بھی اوگایا تھاگھر کے لے سبزی بھی یہان سے پوری کرتا تھا پھل فروٹ بیج کر اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات بھی ادا کر تا تھا مو سمی تبدلی کی وجہ سے انے والے سیلاب نے اس کا سب کچھ تباہ کیا اور وہ اپنے گاوں چھوڈنے پر مجبو ر ہوا اس وقت وہ قریبی گاون شیر قلہ کے محلقہ آبادی ہموچل میں ایک کمرے کا مکا ن بنا کر شفٹ ہوا ہے ۔سخی کا کہنا ہے کہ مو سمی تبد یلی کی و جہ سے آنے والا سیلاب نے اس کا سب کچھ تباہ کیا جس کی وجہ سے آس کو گاون چھوڑنا پڑا جہان اس نے اور اس کے والدین نے محنت کر کے ابادی کی تھی اس کا کہنا ہے کہ کچھ مخیر حضرات اور حکومتی امداد سے 10 مرحلہ زمین لے کر 1 کمرے کا بچوں کو سر چھپا نے کے لے جگہ بنا یا ہے اور مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پلتا ہوں 400 روپے روزانہ کی مزدوری کر کے گھر بنا نا ممکن نہین ہے لہذا حکو مت اور غیر سرکاری تنظمو ں سے امداد کی اپیل کر رکھی ہے۔گا وں ڈلنا ٹی سے تعلق رکھنے والے صحافی ذاکر اللہ ندیم کے مطا بق یہ گا وں صلع غذر کی قدیم آبا دیوں میں شما ر ہو تی ہے یہان کے با سییوں نے بڑی محنت کر کے اپنے ز مینوں کو آباد کیا تھا جس کی و جہ سے یہ لوگ سلانہ لاکھون کا پھل فروٹ اور آلو بیجتے تھے اور اپنا روزگار کرتے تھے 2010 اور 2015 کے سیلابوں نے اس گاوں کو تباہ کردیا اور اب بھی گاوں کی ایک بڑی آبا دی سیلاب کے خطرے میں ہیں ذا کر کا کہنا ہے کہ 2010 سے قبل اس گا وں میں اسطرح کا سیلاب کبھی نہین آیا تھا جس کی وجوہات بیان کر تے ہوے اس نے کہا کہ 2010 سے قبل اس گاوں کی آبادی بہت کم تھی اور جنگلات بہت زیادہ تھے اور اس گا وں کے نالے میں بھی بڑا جنگل تھا جو کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ لوگوں نے تعمیرات اور جلا نے کی لکڑی حا صل کر نے کیلے ان جنگلا ت کی بے دریغ کٹا ئ کر دی گئ جس کی وجہ سے گاوں اور نا لے کے جنگل تبا ہ ہوے اسی وجہ سے موسمی تبد یلی کے اثرات ڈایرکٹ گا وں پر پڑھنا شروع ہوے ان کا کہنا تھا کہ جب جنگلات زیادہ تھے تو سیلاب کا پا نی اسطر ح سے گا وں میں داخل نہین ہو تا تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ سب انسا ن کا ماحول کے سا تھ دشمنی کا نتیجہ ہے کہ جس کی وجہ سے گاوں کے لوگ بے گھر ہو گے جبکہ سڑک اور زرعی زمینوں کی تبا ہی سے کروڈوں کا نقصان ہوااور بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حا صل کرنے پر مجبور ہوے جبکہ حکو متی ا بے حسی کا حال یہ ہے کہ 2010 میں تباہ ہونے والی سڑک ‘حفا ظتی بند اور سکول تا حال تعیر نیہن ہو سکے ہیں سڑک جو گلگت چترال روڈ کہلاتاہے جس پر روزانہ سینکڑوں گا ڑیاں چلتی ہے خستہ حا لی کی وجہ ٹرانسپوٹروں کو سلا نہ لاکھوں روپے کا نقصان ہو تا ہے ذاکر کا کہنا تھا کہ کرا چی کے ا یک پرایویٹ سکو ل ‘کا لج کے طلباء نے میڈیا کی مہر با نی سے پتا چلنے پر اپنے پا کٹ منی سے پیسے بچا کر اس گا وں کے طلباء کو چھت فراہم کی جس پر گاون ڈلنا ٹی کے عوام کرا چی کے ان طلباء کا شکریہ ادا کر تے ہیں۔ حکو مت اگر 2010کے بعد فورن حفاظتی بند بناتی تو 2015 کے نقصنات کم ہوسکتے تھے انھوں نے کہا کہ گا وں کی اکثر آبادی ان پڑ افراد پر مشتمل ہے ان کوسرکاری اور NGOs کے ذر یعے مو سمیا تی تبدیلی اور ماحولیا تی الودگی کے خطر ناک اثرات کے حوالے سے شعو ر ‘ آگاہی کے حوا لے سے خصو صی تر بیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ ما حول دوست بن جاے اور جنگلات کی بے در یغ کٹا ی نہ کر یں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button