کالمز

اوورسیز پاکستانی

شاہ عالم علیمی

‘اپ کیا کام کرتے ہیں’ میں نے اس سے پوچھا

‘میں دبئی میں مزدوری کرتاہوں’ اس نے مختصراً جواب دیا

‘یعنی لیبر کا کام کرتے ہیں’

‘جی ہاں’

‘کام بہت مشکل ہوگا’

‘اتنا بھی مشکل نہیں ہے’

‘یار اتنی گرمی میں باہر کام کرنا تو بہت مشکل ہوگا’ میں نےاصرار کیا

‘وہ تو ہے یہی تو مزدوری ہے ہم پسینہ بہاتے ہیں. خون پسینہ ایک ہوتا ہے دراصل اور اس کے علاوہ اپ کو دو دو سال گھر سے دور رہنا پڑتا ہے’

میں نے مزید کچھ نہیں پوچھا. لیکن سوچتا رہا کہ بھائی اس ملک کے جوان کب تک اپنی جوانی عرب کے صحراوں میں گزارینگے. کب تک جدید غلامی کا یہ نظام چلتا رہےگا.

اج صرف سعودی عرب میں بیس لاکھ سے زیادہ پاکستانی محنت مزدوری کررہے ہیں. اور متحدہ عرب امارات میں بھی اتنی ہی تعداد میں پاکستانی کام کرتے ہیں. اس کے علاوہ مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک جیسے بحرین عمان کویت قطر وغیرہ میں بھی لاکھوں پاکستانی خون پسینہ ایک کررہے ہیں. یہ تعداد دنیا کے ادھے ممالک میں سے بہت سارے ممالک کی کل ابادی سے بھی ذیادہ ہے.

پاکستان سے باہر محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیوں کو عموماً اوور سیز پاکستانیز کہا جاتا ہے. اپ عموماً پاکستانی اخباروں میں اشتہار چھپے دیکھتے ہیں کہ ہمارے معزز پرنسپل کو میسن، لیبر، کارپینٹر، ٹائل فیکسر، الیکٹریشن وغیرہ چاہیے. تنخواہ اتنی اتنے مراعات باقی سہولیات اس ملک کے لیبر لاء کیمطابق.

پاکستانی جوان تعلیم حاصل کرکے عموماً ملک سے باہر جاکر ہی اپنے اور اپنے خاندان کی کفالت کرتاہے. چونکہ ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں. سال میں ایک دو اسامیاں ابھی جائے تو وہ سیاسی لوگوں اور اثرورسوخ رکھنے والوں کے اقربا پروری اور کرپشن کی نذر ہوجاتےہیں.

2015 کے اعداد شمار کے مطابق ملک سے باہر محنت مزدری کرنے والے یہ پاکستانی 16 ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ سالانہ ملک بھیجتے ہیں. جبکہ تازہ اعدادوشمار کے مطابق یہ فگر 19 ارب امریکی ڈالر یا دو ہزار ارب پاکستانی روپے سے بھی زیادہ ہے. یہ وہ رقم ہے جس سے اس ملک کا بجٹ بنتا ہے. البتہ بجٹ کو بنانے کے لیے ائی ایم ایف ورلڈ بنک جیسے بین الاقوامی اداروں سے بھی قرض لیا جاتا ہے لیکن یہ اس رقم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو اوورسیز پاکستانی بھیجتے ہیں.

تاہم کیا اج تک ہم نے سوچاہے کہ یہ عرب کے صحراوں میں رہنے والے پاکستانی کس حال میں رہتے ہیں. ان کے دن رات کس طرح گزرتے ہیں. اس کا اندازہ لگانے کے لیے اپ یوں سوچیے کہ 17640 سے 17646 بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ گرمی میں اپ دھوپ کے نیچے کم از کم نو سے بارہ گھنٹے کام کرے . اور زیادہ تر اسمان سے باتیں کرتی ہوئی زیر تعمیر عمارتوں کا. یہ بہت مشکل کام ہے. یہی وجہ ہے کہ اس کام کے لیے عموماً ساوتھ ایشین اور خصوصاً پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے.

ایک عام پاکستانی ورکر ان ممالک میں ہزار سعودی ریال یا یو اے ای درہم سے لیکر اٹھارہ سو درہم یا ریال کماتا ہے. اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تین سو ریال کفیل خود اٹھاتا ہے. پیچھے سات سو ریال بچ جاتے ہیں. یعنی بمشکل 20 ہزار روپے. اور دن میں تین سے چار گھنٹے اوور ٹائم کام کرکے ان لوگوں کو مزید تین سے پانچ سو ریال کمانا پڑتا ہے. یوں ان محنت کشوں کے دن گزرتے ہیں. اور پاکستان سے جاتے وقت کمپنی کے ساتھ باقاعدہ کنٹریکٹ سائن کرنا پڑتا ہے جس کے مطابق اپ کسی بھی حالت میں کمپنی کے ساتھ رہینگے. اور دوسال سے پہلے اپ کام چھوڈ کر گھر انا چاہیے تو اپ کو باقاعدہ جرمانہ کیاسکتا ہے . چونکہ میں نے خود اپنی انکھوں سے ان سخت گیروں کو دیکھا ہے لہذا میں کافی حد تک اندازہ لگا سکتا ہوں کہ یہ بہت محنتی اور صبر کرنے والے لوگ ہیں.

لیکن اج کل ان ممالک میں حالات کچھ ٹھیک نہیں ہیں. ان سارے ممالک کا دارومدار تیل کی پیداوار پر ہے. تاہم 2014 سے تیل کی قیمتیں گرنے کے باعث ان ممالک کو مالی لحاظ سے سخت مشکلات کا سامنا ہے. اور نتیجتاً غیرملکی ورکروں کو بھی یہاں مشکلات نے اگھیر لیا ہے. پاکستانیوں سمیت ہزاروں غیر ملکی ورکروں کو پچھلے کئی مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی ہے. اور جو لوگ اپنے ملک سے لاکھوں روپے خرچ کرکے گئے تھے وہ اب وہاں خالی ہاتھ بیٹھے ہوئے ہیں.

سعودی عرب میں پاکستانی ایمبیسی کے مطابق ہزاروں پاکستانیوں کو پچھلے نو مہینے سے ایک ریال بھی نہیں ملا ہے. صرف سعودی اجر Oger کمپنی کے ہی 6،500 پاکستانی ملازمین کو پچھلے اٹھ دس مہینے کی تنخوا نہیں ملی ہے. ایسے ہی چھوٹی بڑی کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین کام سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. اور وہاں پر بے سروسامانی کی حالت میں ہیں.

پاکستانی ایمبیسی نے بتایا ہے کہ مذکورہ کمپنی کے چھ ہزار سے زائد پاکستانی ورکروں میں سے 405 بے غیر تنخوا لیے خالی ہاتھ گھر واپس بھیج دیے جائینگے. اور اہستہ اہستہ جو ورکر واپس جانا چاہیے ان کو واپس بھیج دیا جائیگا . جبکہ 275 پاکستانی پہلے ہی خالی ہاتھ واپس اچکے ہیں. پاکستانی ایمبیسی کے کمیونیٹی ویلفئیر اتاشی Community Welfare Attache عبدالشکور شیخ نے بتایا کہ کمپنی نے ان ورکروں

کی تنخوا پاکستان ایمبیسی میں جمع کرنے کا وعدہ کیا ہے. البتہ اب کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب تنخوا ملےگی. جونہی مطلقہ کمپنی پے کریگی ان ورکروں کے پیسے پاکستان میںں ان کے گھروں کو بھیج دیا جائیگا.

یہ کہانی صرف ایک کمپنی کے ملازمین کی ہے. ایسے ہی سینکڑوں کپمنیاں پچھلے ایک سال سے اپنے ورکروں کو پے کرنے سے قاصر ہیں. کیونکہ ان کو مالی مشکلات کی شکار سعودی حکومت سے گرانٹ نہیں مل رہی ہے. نتیجتاً ہزاروں پاکستانی محنت کش ان ممالک میں زلیل خوار ہورہے ہیں. ان کو کھانے پینے اور رہنے کے مسائل کا سامنا ہے. ایسی ہی کمپنیوں میں سے ایک بن لادن گروپ بھی ہے . جس کے ملازمین نے پچھلے سال تنخوا نہ ملنے پر احتیجاً درجنوں بسوں کو اگ لگا دی. البتہ اب جاکر ایک سال بعد بن لادن اپنے ملازمین کو پے کرنے کے قابل ہوئی ہے.

سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک سو ملین سعودی ریال کا خصوصی ایڈ پکیچ دینے کا اعلان کیا ہے. جس کے تحت جو لوگ کنٹریکٹ ختم ہونے سے پہلے کام سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جن کو تنخواہ نہیں ملی ہے ان کے کھانے پینے میڈیسن اور رہنے کا بندوبست کیا جائیگا. اس پلان کے تحت جو لوگ بے غیر تنخواہ اپنے گھرجاناپاہیے ان کو بھی بھیج دیا جاتا ہے. اطلاعات کے مطابق اس کے تحت 275پاکستانی واپس گھروں کو لوٹ ائے ہیں. جبکہ دو ہزار 2000 کے ایگزٹ ویزا تیار ہیں. جو اج سے گھروں کو لوٹنا شروع ہونگے.

قارائین خود اندازہ لگائے کہ ایک جوان جو مشکلات کی شکار زندگی میں سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر کی جمع پونجی دیکر ملک سے باہر ان ملکوں میں محنت مزدوری کے لیے جاتا ہےاور انکھوں میں یہ حسرت اور دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ شاید کچھ سال سخت محنت کرکے خون پسینہ بہا کر کچھ کمالونگا لکین وہاں بھی ان کے یہ سلوک ہو تو یہ سخت افسوسناک مقام ہے. وہاں بھی یہ لوگ خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود کچھ بھی نہیں پا لیتے ہیں. ایک طرف زندگی تباہ دوسری طرف جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. انھی لوگوں کی اس محنت مزدوری سے ہی یہ ملک چلتا ہے. . عرب کے صحرا انھی کے خون پسینے کی وجہ سے گل و گلزار ہوئے ہیں. عربوں کی عالی شان عمارتوں کو انھی لوگوں نے تعمیر کیا. اور کررہے ہیں. لیکن نتیجے میں ان کو کیا مل رہا ہے یہ ہمارے سامنے ہے.

میری ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ ان مظلموں کی صیح خبرگیری کرے. ان کو ان کا حق دلوانے کی بھر پور کوشش کی جائے. اس سلسلے میں پاکستانی حکومت پہلے ہی سعودی حکومت سے رابطے میں ہے. تاہم کوششوں کو اور بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے.

ہمیں یہاں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ سلسلہ کب تک چلےگا. کب تک اس دیس کا جوان اپنی زندگی ان صحراوں میں گزارےگا. یہ ون ملین سوال ہے. صاحب اقتدار کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button