کالمز

دیامر تباہی کے دہانے پر

بلاشبہ ضلع دیامر سر تا پا کرپشن بداخلاقی،بے حسی اور کسالت پسندی، خود غرضی، لالچ، حرص و حوس، اقربا پروری میں ڈوبا ہوا ہے۔ آہ! وہ دیامر جس کی روایات و اقدار پر بلاشبہ فخر کیا جاتا تھا آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ایک طویل عرصہ یہ سمجھا جاتا رہا کہ دیامر میں ایمان و عقیدہ مضبوط ہے۔ امن و سکون اور اعتماد واطمینان کی بہاریں چار سو ملتی ہیں۔ قناعت و استغنا دیامر کا خاص خاصہ ہوا کرتا تھا۔ لوگ غربت میں بھی خوش ہوا کرتے تھے۔ محبت و الفت اور انسانیت کی قدر بلاشبہ یہاں فراواں تھی۔ اس پر مستزاد فطرت کی سادگی اور اس کا حسن، اللہ اور اس کی مخلوقات سے مخلصانہ تعلق اور پھر جسم و روح کا حسین اتحاد ضلع دیامر کی عظیم روایات میں ہوا کرتیں تھیں۔ایک وقت تھا باسیان دیامر کا اندرونی اتحاد اور ہم آہنگی بہت مضبوط ہوا کرتی تھی۔ اور ان کو تقسیم کرنے والے عناصر بہت ہی مصنوعی تھے۔آپس میں رشتہ اور تعلق کی بنیادیں روپیہ پیسہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر نہ تھیں بلکہ ایمان ، تقوی اور کردار کی بنیاد پر قائم تھی۔

لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تمام باتیں ماضی کا قصہ بن گئی ہیں۔ حالات و اقعات اور تمدنی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی کہ دیامر میں بے یقینی اور ناامیدی نے بری طرح ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ پورا معاشرہ اضطراب اور انتشار کا شکار ہے۔جگہ جگہ چھوٹے بڑے اغراض و مقاصد کا تصادم برپا ہے۔ سیاسی جماعتوں بلکہ سیاسی اشخاص کی رقابتیں اور چپقلشیں عروج پر ہیں۔ پھر خاندانی، قوم ذات پات اور طبقات کی کشمکش نے زندگی اجیرن بنا کررکھ دی ہے۔ بداعتمادی اور بدگمانی کی تاریک فضائیں پورے دیامر کا احاطہ کئے ہوے ہیں۔ جائز اور ناجائز حصول دولت اور ترقی و توسیع تجارت ضلع دیامر کے پیر و جوان میں جنونیت کی حد تک سرایت کرگیا ہے۔

میں نے انتہائی غور سیدیکھا ہے کہ دولت و حرص کی ایک نہ بجھنے والی پیاس ضلع دیامر کے جوانوں میں پائی جاتی ہے۔ دولت کی اس ہوس نے قلب و روح کو مار دیا ہے۔ انسانیت زوال کے دروازے پر کھڑی ہے۔ زندگی کی اصل دولت اورانسانیت کی اصلی لطافت کا یہاں سے خاتمہ ہوا جارہا ہے۔ خالق اور مخلوق کا تعلق بھی ٹوٹنے کو ہے یا انتہائی کمزور ہوچکا ہے۔ اجتماعی روایات میں رسہ کشی جاری ہے۔زندگی کے نئے نئے فتنے یہاں سر آٹھا رہے ہیں۔ عجیب و غریب فیشنوں نے انسان کو سخت کش مکش میں ڈالا ہوا ہے۔آہ! نظریں ان اوصاف حمیدہ اور خصائص عالیہ کے لیے ترستی ہیں جن پر کبھی اہلیان دیامر فخر کیا کرتے تھے۔آپس کا اتحاد و اتفاق دم توڑ رہا ہے۔ تعلق واحترام کی بنیادیں، روپیہ پیسہ، عہدہ اور گاڑی پر منحصر ہوکر رہ گیءں ہیں۔علم و عمل، تقوی و للہیت اور کردار کی بنیاد پر ضلع دیامر میں کسی کو عزت نہیں ملتی بلکہ سرکار کی جتنی بڑی نوکری ہوگی اتنا ہی وہ شخص عزت و احترام کا حق دار کہلایا جائے گا۔

دیامر بھاشا ڈیم کی مد میں ضلع دیامر میں اربوں روپیہ آیا لیکن یہ تمام روپیہ دیامر سے باہر صرف ہوا۔ ان روپیوں سے ضلع دیامر کی تعمیر ترقی اور تعلیم تربیت کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔جن لوگوں کو کروڑوں میں روپیہ ملا انہوں نے گلگت، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں چھوٹے چھوٹے مکان یا پلاٹ مہنگے داموں خرید لیے۔ انہیں غلطی سے بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ دیامر کے کسی علاقہ میں رہائشی سوسائٹی بناتے اور لوگوں کی رہائشی زندگی کا اسلوب بدل کر رکھ دیتے۔کاش ان اربوں روپیہ سے کوئی ڈھنگ کا تعلیمی ادارہ ہی بنا لیا جاتا۔جن لوگوں کو ڈیم کی مد میں پیسہ ملا ہے ان کی اخلاقیات اور طرز زندگی بھری طرح متاثر ہوئی ہیں۔کل تک جن کے پاس گلگت جانے کا کرایہ نہیں ہوا کرتا تھا آج وہ لینڈ کروزر اور ٹی زیڈ گاڑیوں میں فراٹے بھر رہے ہیں۔آخرکب تک اپنی اس متاع عزیز کو یوں بے دردی سے لوٹاتے رہیں گے؟ کب تک ان کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟

سرکار بھی خاموش تماشائی بن کر اس سارے عمل کو دیکھ رہی ہے۔دیامر میں اجتماعیت کا فقدان ہے۔ اور تو اور دیامر کے کپیٹل چلاس شہر میں صفائی اور پانی و سیوریج کی ناقص اور بدترین صورت حال دیکھ کرافسوس کے سوا کسی چیز کی گنجائش نہیں۔بازار اور رہائشی کالونیوں میں گندے پانی نے ڈیرے جمایا ہوا ہے۔ لیکن کسی کے کانوں جوں تک نہیں رینگتی۔ آپ کسی کے بھی گھر میں داخل ہونگے تو بہترین سسٹم اور انتظام دیکھنے کو ملے گا لیکن جیسے ہر گھر سے باہر گلی میں قدم رکھتے ہیں تو گندگی کا ڈھیر آپ کا سامنا کریگا۔جتنی توجہ ذاتی گھر اور ذاتی زندگی کی بہتری کے لیے دی کی جاتی ہے اس کا عشر عشیر بھی اجتماعی معاملات کے لیے صرف ہوتی تو بخدا صفائی کا نظام اور سڑکوں کی حالت بہت اچھی ہوتی لیکن، روڑ ٹوٹے، بجلی نہ آئے، گندا پانی پورے شہر میں پھیل جائے، جگہ جگہ بے جا کنسٹریکشن ہو، ہر طاقتور ناجائز قبضہ کرے، بازار میں تمام دوکاندار من مانی قیمتیں وصول کریں،گاڑی والے مرضی سے کرایہ طے کریں، سرکای عملہ دفاتر میں ہوں یا نہ ہوں، ٹھیکدار کام کرائے یا نہ کرائے،اسکول کالج آباد ہوں یا نہ ہوں،ہسپتال میں کوئی حاضر ہو یا نہ ہو، جعلی ادویات بکے یا اصلی، اشیا خود نوش میں ملاوٹ ہو یا نہ ہو،عدالتوں میں انصاف ہو یا نہ ہو، پولیس گردی ، آفسر گردی، غرض کسی کو کسی چیز سے غرض نہیں۔ بس ہر کوئی اپنی اپنی ذاتی زندگی میں تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اور تمام تر کوششیں اپنی ذات کی حد تک کے لیے کی جاتیں ہیں۔

ضلع دیامر اور اس کے مضافات کو تو چھوڑیں ، ہیڈکوارٹر چلاس کی انتظامی و انصرامی حالت دیکھ کر حیرت ہی کا اظہا ر کیا جاسکتا ہے۔باقی تمام سرکاری ڈیپارٹمنٹس کی کارکردگی کو چھوڑیں ، تعلیم اور صحت جیسے اہم اور بنیادی ضروریات والے اداروں کی ایک مختصر سی بات ملاحظہ کیجیے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چلاس میں 36ڈاکٹروں کی سیٹیں ہیں لیکن آٹھ ڈاکٹرچلاس ہسپتال میں ڈیوٹی انجام دیتے ہیں باقی تمام ڈاکٹر چلاس ہسپتال سے تنخواہ لے رہے ہیں لیکن ڈیوٹیاں گلگت اور دیگر من پسند علاقوں میں دے رہے ہیں۔ اسی طرح ڈگری کالج چلاس میں 20استادوں کی سیٹیں ہیں ان میں 9چلاس ڈگری کالج میں ہیں باقی گیارہ اپنی پسندیدہ کالجوں میں ہیں لیکن تنخواہ ڈگری کالج چلاس سے لیتے ہیں۔اب گلہ کریں تو کس سے کریں، وزیر صحت بھی دیامر کا ہے اور سیکرٹری ایجوکیشن بھی دیامر کا ہے۔ اپنوں کی نگرانی اور سرپرستی میں یہی حال ہے تو دیگر ڈیپارٹمنٹس کے متعلق آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔

کافی دنوں سے یہاں کے لوگوں کے رویے مطالعہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کے جذبات واحساسات کا جائزہ لیتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں شعو ر و آگاہی کا کتنا فقدان ہے۔انتہائی مختصر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعیت کی جگہ انفرادیت، قوم کی جگہ ذات، اور خدمت کی جگہ خودغرضی جیسی لعنتوں نے یہاں کی معاشرت برباد کرکے رکھ دی ہے۔یہ وہ اسباب و محرکات ہیں جنہوں نے ہر انسان کو متاثر کیا ہوا ہے۔

یہ سچ ہے کہ دیامر کے لوگوں کا لباس، مہنگی گاڑیاں،بینک بیلنس اور سامان حیات دیکھ کر ان کی خوش قسمتی ، خوش حالی اور معاشی بہتری کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن ان کے چہروں پر چھائی ہوئی مغمومیت، ان کی اداس شکلیں، اور جعلی اور پھیکی مسکراہٹوں سے یہ اندازہ کرنا قطعا مشکل نہیں کہ ان کے اندر کوئی بے اطمینانی اور کرب ہے جو انہیں سکون و طمانیت سے رہنے نہیں دیتا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دنیاوی مال و متاع کی فروانی ہر چیز کا علاج اور مداوا ہے؟۔ باسیان دیامر کی زندگی میں اتنی جلدی یہ تضاد کیوں واقع ہوا ہے۔۔؟ وہ کونسا کرب ہے جس سے یہاں کے نوجوان گزرنا شروع ہوئے ہیں۔۔۔؟ ان کا اصل مرض کیا ہے جو گھن کی طرح ان کو کھایا جارہا ہے۔۔۔؟

انتہائی سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ قناعت کا فقدان،اپنی شاندار روایات اور تعلیمات اسلامی سے دوری اور ھل من مزید کی لعنت نے انہیں تباہی کے چوراہے پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ دولت کی دیوی اور ناجائز حرص نے ہر انسان کو لپیٹا ہوا ہے۔ اس کے حصول کے لیے ہرممکن اور ناجائز کوشش جاری ہے۔ان کی یہ صورت حال کو ”خوشحال بے چینی” کا نام دیا جاسکتا ہے۔

بہرصورت، تعلیم وصحت، تہذیب وتمدن، کرپشن، انتظامیہ کی لاپروائی، علما و صلحا ء کی خاموشی، رشوت خوری، معاشرتی مسائل ، سماجی ناانصافی، فکر و شعورکی کمی، اقربا پروری، قومیت، لامرکزیت، حرص و حوس اور اس جیسے بے شمار مسائل ہیں جن پر وقتا فوقتا لکھتا رہا ہوں اور آئندہ بھی خامہ فرسائی کی جائے گی۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button