کالمز

ٹوپی اور شانٹی ڈے

دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں  قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے درمیان واقع سرسبز وشاداب خطہ گلگت بلتستان   آبی اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے علاوہ اپنے سینے میں دنیا کے قدیم تہذیبوں کوبھی سمیٹےہوئےہے۔ اگرچہ اس خطے کی کوئی مصدقہ تاریخ  اور اس سے متعلق  تاریخی مواد موجود نہیں البتہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے مطابق  یہ خطہ قبل از مسیح سے آباد تھا ۔خطے میں بدھ مت ،ہندمت اور زرتشتی جیسے قدیم تہذیب  کے اثرات اب بھی موجود ہیں  بہت سارے ایسے رسم ورواج بھی علاقے میں پوری آب وتاب سے موجود ہیں  جن کی تاریخ دورِ حاضر کے محقیقین کے مطابق چار سے پانچ  ہزار برس سے بھی پرانی ہے ،ان میں قدیم فارسی تہوار نوروز علاقہ چترال اور گلگت بلتستان میں اب بھی جوش وخروش سے منایاجاتا ہے۔

گلگت بلتستان کی   تہذیب نہ صرف اس کی کی پہچان ہےبلکہ پاکستان کی سیاحت  میں اسے  نمایاں مقام حاصل ہے۔ویسے تو ٹوپی پہنے کا رواج پوری دنیا میں ہے لیکن ثقافتی حوالے سے گلگت بلتستان میں ٹوپی اور شانٹی کو نمایاںمقام حاصل ہے۔بہت سارے دیگر رواج ختم ہوئےہیں  لیکن ٹوپی اور شانٹی کا رواج آج بھی اسی شوق اور  جذبے سے جاری اور ساری ہے۔شادی بیاہ اور بڑی تقریبات  کوٹوپی اور شانٹی کے بغیر  ادھوراہی تصور کیا جاتا ہے۔

اسلامی نقطہ نقطہ نگاہ سے  دیکھا جاءے تو  سر ڈھاکنا۔ عمامہ  باندھنا اور ٹوپی پہنا  سنت ہے ۔حدیث میں ہے کہ حضرت محمدﷺ  اپنا سر ہمیشہ ڈھانک کر رکھتے تھے اور عموما سفید  ٹوپی پہنا کرتے تھے۔سید الشہداء  حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب وہ غزوہ بدر میں اترے تھے تواس وقت وہ زرہ بندتھے اور ٹوپی پر شتر مرغ کا پر لگاہوا تھا ۔قدیم تہذیب کا جاءزہ لیا جاءے تو   یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹوپی ہر دور میں عزت و احترام اور وقار کی علامت رہی ہے اور ہنوز  سمجھی جاتی ہے  ۔سکندر آعظم کے فوجیوں میں بھی ٹوپی پہنے کی روایت ملتی ہے۔سکندر آعظم کے فوجی اپنی عظمت جتانے کے لئے ٹوپی پر رنگدار پر لگایاکرتے تھے ۔ٹاریخی اور دیگر حوالہ جات سے ہٹ کر  ٹوپی پہنے  کے رواج کو دیکھا جائے  تو اس وقت تمام اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں ٹوپی پہنے کا عام رواج ہے،مسلمان تو پانچ وقت نماز میں ضروری طور پر ٹوپی پہنتے ہیں۔

ثقافتی حوالے سے بات کی جائے  تو گلگت بلتستان میں روایتی ٹوپی مقبول ہے  بڑے بزرگ تو لازمی اس ٹوپی کو پہنتے ہیں جبکہ نوجوانوں میں  اس کا پہنا اب تقریبات کی حد تک رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی ثقافتی ورثے کو محفوظ اور ترویج کے لئے   عملی اقدام اٹھائے جائیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا ہر سال یکم  اکتوبر کو ٹوپی او  اور شانٹی  ڈے منانے کا اعلان ثقافت کے فروغ کےلئے   بڑا مددگار ثابت ہوگا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button