کالمز

محکمہ تعلیم جی بی:تین لاکھ کی بجائے میرٹ پر بھرتیاں

تحریر: ممتاز گوہر

شینا زبان کے ایک پرانے محاورے کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "جو پیاز کا چھلکا چوری کرے وہ بھی چور،جو بیل چوری کرے وہ بھی چور”اسی محاورے کے حساب سے اگر ہم کسی بھی محکمے یا ادارے میں غیر قانونی بھرتیوں کو دیکھیں تو وہ غیر قانونی ہی ہوں گے چاہے وہاں ایک بندہ غیر قانونی طور بھرتی ہوا ہو یا بڑی تعداد میں لوگوں کوگھسایا گیا ہو۔

یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ محکمہ تعلیم میں پہلے تین لاکھ دینے اور لینے والوں پر لعنت بیج دیا جائے یا پھرحالیہ بھرتیوں میں میرٹ کا مظاہرہ کرنے والوں کو مبارک با د دیا جائے کیوں کہ کام تو دونوں نے ہی انتہائی محنت،کوشش اور باریک بینی سے کیا ہے۔

علی مدد شیر کے دور وزارت میں محکمہ تعلیم میں مشتہر ابتدائی چند پوسٹوں کو میرٹ پر بھرتی کیا گیااور بعد میں ایک "خصوصی نسخہ” آزمایا گیا جو مکمل طور پر کامیاب رہا۔ اس نسخے میں ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ کسی بھی امیدوار کو فیل نہیں کیا جائے کیوں کہ انھیں ڈر تھا کہ کہیں میرٹ پر آنیوالے امیدوار تین لاکھ نہ دے سکے یا پھر میرٹ کا نعرہ بلند کریں تو اس صورت انھیں کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو ۔

جب میں نے خلاف ضابطہ اور تین تین لاکھ کے عوض بھرتیوں کی مخالفت کی تو کچھ لوگ مجھے سمجھانے کے غرض سے آئے اور کہنے لگے”دیکھیں جی… جو کچھ وزیر تعلیم کر رہے ہیں اس میں علاقے اور کمیونٹی کا مفاد پوشیدہ ہے، وسیع تر مفاد کو دیکھ لیں۔آپ کو فی الحال سمجھ نہیں آئے گی اور اس کے ثمرات کچھ سال بعد نظر آئیں گے "

انھیں سمجھانے کی کافی کوشش کی مگر وہ اپنے نظریات ہی تھوپنے کی کوشش کرتے رہے۔مگر اس وقت سے ایک سوال اور تنگ کرنے لگا کہ کچھ سال بعد تین لاکھ دے کر بھرتی ہونے والے اور نئی نسل کی بھاگ ڈور سنبھالنے والوں کے ثمرات کس طرح کے سامنے آئیں گے؟

میرا بھی ان سے ایک معصومانہ سا سوال تھا کہ "کیا ایک مقدس پیشے کے لئے تین لاکھ دیکر بھرتی ہونے والے نئی نسل کی تربیت وقت کے تقاضوں کے مطابق کر سکیں گے؟” خیر وہ اس سوال کا جواب تو نہیں دے سکے اور صرف یہ کہہ کر چل دیئے کہ سرکاری نوکریاں بار بار نہیں آتی۔

مہدی سرکار میں بھی محکمہ تعلیم کے ابتدائی نتائج میرٹ پر تھے اور تمام قابل اور حقدار لوگ اس قافلے میں شامل ہو گئے لیکن اس کے بعد والے راؤنڈ زمیں جو کچھ ہوا سب نے خوب دیکھا۔اب یہاں ایک اور معصومانہ سا سوال یہ ابھر رہا ہے کہ کیا حفیظ سرکار کا یہ ابتدائی میرٹ پر مبنی بھرتیاں کوئی دکھاوا تو نہیں؟ اور آئندہ کی بھرتیوں میں علی مدد شیر والے "خصوصی نسخے”کو استعمال تو نہیں کیا جائے گا؟

جدید اردو صحافت کے امام استاد وسعت اللہ خان اپنے ایک حالیہ تحریر میں لکھتے ہیں "اور پھر سب بدل گیا۔ تعلیم کے خیمے میں پیسے، لالچ، رشوت، سفارش کا اونٹ گھس گیا اور اب تو پورا خیمہ ہی اس اونٹ کے کوہان پر ہے۔ جس کو کہیں نوکری نہیں ملتی وہ پرچی اور پیسے کے زور پر کسی سرکاری اسکول میں ٹیچر بھرتی ہو جاتا ہے۔ تنخواہ کو وظیفہِ آسمانی سمجھتا ہے اور مہینے کی پہلی تاریخوں میں اسکول کا چکر لگانے کا بھی تکلف کر لیتا ہے۔ نہ وہ اپنے شاگردوں کی صورت اور نام سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اور نہ ہی شاگردوں کو اس کی شکل ٹھیک سے یاد رہتی ہے۔”

گلگت بلتستان کے عوام میں سرکاری نوکری کی جو لت لگی ہے وہ خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے عوام بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے سے زیادہ تین لاکھ روپے تیار کرنے پرزیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔اس میں ان کی بھی کوئی غلطی نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے قابلیت اور ڈگری والوں کو تین لاکھ روپوں کے سامنے بے بس دیکھا ہے۔یہاں ڈگری اور قابلیت والے آج بھی اسی جگہ جبکہ پیسوں کے زور پر نوکریاں لینے والے اگلے عہدے پر جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

موجودہ حکومت اگر ایمانداری سے اسی طرح کوششیں کرے تو عوام اور نوجوانوں کے ذہنوں سے یہ تاثر ختم کر سکتی ہے کہ نوکری کے لئے پیسے اور سفارش کی نہیں بلکہ ڈگری، ایمانداری اور قابلیت بھی چاہئے۔ ایسا ماحول قائم کرنے میں مشکلات ضرور ہیں مگر یہ نا ممکن ہرگز نہیں۔تین لاکھ والے انجکشن سے جو نقصان اس خطے کو ہوا ہے یا آئندہ ہوگا اتنا نقصان کسی خطرناک وبائی مرض سے بھی اب تک نہیں ہوا ہے۔اس میں وھ اساتذہ ہرگز شامل نہیں ہیں جو اپنی اہلیت اور قابلیت کے بل بوتے پر یہاں تک پہنچے ہیں۔

کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی محکمے میں شفاف بھرتیاں ہو رہی ہوں اور اس محکمے کا سربراہ اپنے ماتحتوں کو کسی موقع پر ”تھوڑی گنجائش” کا کہہ دے تو پھر بہت ساری گنجائشات نکال لی جاتی ہیں اور جب تک ”تھوڑی گنجائش” والی بات نہ ہو باقی گنجائشات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

مہدی شاہ اور علی مدد شیر نے جب ”تھوڑی گنجائش” کا فرمان چند ذمہ دار ماتحتوں تک پہنچایا تو ان ماتحتوں کے ماتحتوں نے بھی اتنے گنجائشات نکال لئے کہ جو بعد میں ان سے سنبھالے نہیں جا رہے تھے اور اس کا خمیازہ پورے علاقے کوہنوز اٹھانا پڑ رہا ہے۔

یہاں مجھے حفیظ الرحمان کو کریڈٹ دیتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو رہی ہے کہ سب سے پہلے ان کی طرف سے ”تھوڑی گنجائش” کا کوئی فرمان ماتحتوں تک نہیں پہنچا ورنہ تو اس بار لوگوں نے تین کے بجائے پانچ لاکھ سنبھال کر رکھے تھے اور بہت سارے لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہوتے۔بس یہی التجا ہے کہ آئندہ بھی ”تھوڑی گنجائش” والا یہ مطالبہ کہیں سامنے نہیں آئے۔

آج میں بہت خوش ہوں اور محکمہ تعلیم میں اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آنے والوں کے ساتھ مل کر یہ خوشی منانا چاہتا ہوں کیوں کہ میری آئندہ نسلوں کی رہبری کے لیے لوگ اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر آگے آرہے ہیں اور یہ لوگ تین لاکھ دے کر یا کسی کی سفارش کے سہارے نہیں آرہے اور زندہ قوموں کو یقیناً اصل کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے۔

جناب حفیظ صاحب!محکمہ تعلیم میں شفاف بھرتیوں پر آپ کا ایک بار پھرشکریہ۔لیکن کچھ محکموں میں جس طرح گریڈ 14 تک کچھ آپ کے آس پاس رہنے والوں یا ان کے گھر والوں کو گھسایاگیا ہے یہ آپ تو بہتر جانتے ہی ہونگے کیوں کہ آپ کی اجازت کے بغیر ایسا ممکن نہیں اگر آپ کو معلوم نہیں تو آپ کو یہ معلومات دی جا سکتی ہیں۔

یہاں اپنے اختیارات (جائز یا نا جائز ) کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے منظور نظر افراد کی گریڈ 14 تک کسی بھی پوسٹ عارضی بھرتی کی جاتی ہے۔جب دو سال کا عرصہ گزر جائے تو یہ منظور نظر افراد کو سابقہ حکومت کے منظور کردہ ایک ’’کالے قانون ‘‘کے ذریعے مستقل کر دیا جاتا ہے۔دو سال کے بعد انہیں اگلے گریڈ میں ترقی بھی مل جاتی ہے۔نہ کوئی ٹیسٹ نہ کوئی انٹرویو بس چور دروازے سے گھس جاؤ اور دو سال کسی بھی محکمے میں رہو تیسرے سال پکی ملازمت آپ کے قدموں پر .

یہاں گزارش کرنے کا مقصد یہی ہے کہ یوں جب چور دروازوں سے لوگ بھرتی ہوتے رہیں گے تو نہ صرف حقداروں کی حق تلفی ہوتی رہے گی بلکہ آپ کی حکومتی کارکرگی پر بھی انگلی اٹھائی جائیں گی۔یہ بیشک حکومتی عہدیداروں کے اختیار میں ہو کہ وہ کسی کو بھی عارضی ملازمت دیں مگر بغیر ٹیسٹ انٹرویو غیر مشتہر پوسٹوں پر بھرتیاں غیر قانونی ہی ہونگی۔ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے یہ واقعات بھی کافی ہوتے ہیں۔سابق حکومت پر ملازمتیں بیچنے کا الزام لگانا ہی کافی نہیں ہوگا بات تب بنے گی جب آپ کے دور میں میرٹ پر بھرتیوں کے ساتھ چور دروازے سے اپنوں کو بھرتی کرنے کا سلسلہ بھی مکمل طور پرروک دیا جائے۔

محکمہ تعلیم کے حالیہ شفاف بھرتیوں پر شادیانے بجانے کی بھی اتنی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تھے۔ابھی اصل امتحاں باقی ہیں۔این ٹی ایس کے ذریعے ابتدائی تحریری امتحان لینے کا آغاز بھی انتہائی مستحسن ہے ہاں کچھ لوگ اس نظام پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں مگر یہ نظام اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے جس میں تین لاکھ کے خاطر امتحان میں شریک ہر امیدوار کو پاس قرار دیا جاتا ہے۔

یہ کیا ہی بہتر ہو کہ جتنی بھی پوسٹیں ابھی پائپ لائن میں ہیں ان کے لئے بھی بالکل اسی طرح سے ہی انتظامات کئے جائیں۔کیا ہی بات ہوگی جب چور دروازے کو بند ،سفارش کو خدا حافظ اور نوٹوں کی خوشبوؤں سے سرکاری افسران اور وزراء کے دفاتر کو پاک رکھا جائے۔کام بہت مشکل ہے مگر نا ممکن کسی صورت نہیں۔

سابق حکمران جماعت کا حالیہ انتخابات میں جو حال ہوا وہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا۔انھیں اس صورتحال تک پہنچانے میں بہت سارے وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہی سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ تھی۔تقریبا پارٹی کے تمام ذمہ داروں نے اس میں اپنے ہاتھ رنگ لئے۔موجودہ حکمران جماعت کے لئے اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں مل سکتی۔

اب حفیظ صاحب کے پاس دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ کھلم کھلا اور خفیہ دونوں طریقوں سے جتنی پوسٹیں ابھی پائپ لائن میں ہیں ان کے لیے سابق حکومت جیسا ایک "خصوصی نسخہ "تیار کر لیں خود بھی جائیدادیں بنا لیں بلڈنگیں اور ولاز کھڑی کر دیں۔تین لاکھ کو چھ لاکھ کر دیں تجربہ کار ایجنٹ مقرر دیں۔ایسا طریقہ کار وضع کردیں کہ کسی کے باپ کی مجال نہ ہو کہ کوئی ثبوت نکال لے۔خود بھی عیاشی کریں ور اپنی ٹیم والوں کو بھی عیاشی کرنے دیں۔

دوسرا راستہ وہی ہے جس کا محکمہ تعلیم کی حالیہ تعیناتیوں سے آغاز ہوا ہے۔یعنی تین لاکھ اور سفارش کی جگہ قابلیت اور ڈگری کو فوقیت دیں۔لوگوں اور نوجوان نسل کے ذہنوں سے سفارش اور رشوت کلچر کو ختم کریں۔میرٹ کے حوالے سے زیرو ٹا لرنس کی پالیسی اپنائیں۔آپ نہ صرف حقداروں کی دعائیں لیں گے بلکہ دوبارہ عوام کی عدالت میں جائیں گے تو یقیناً آسمان سے زمین پر نہیں گریں گے بلکہ سرخرو رہیں گے۔اب دونوں راستے آپ کے سامنے ہیں جس راستے کا انتخاب کرنا ہے آپ اور اور آپ کی ٹیم پر منحصر ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button