کالمز

قطر مذاکرات کا نیا دور 

16نو مبر کو امریکہ کے صدارتی انتخابات ہونگے جنوری 2017ء میں امریکہ کی نئی حکومت بر سر اقتدار آئیگی کوئی بھی نیا صدر ہوگا یا نئی صدرہو گی اسکو ڈیمو کریٹک پارٹی کی 8سالہ پالیسیاں ورثے میں حاصل ہونگی اور اگلی حکومت اس ور ثے کو لیکر آگے بڑھیگی قطرکے دارلحکومت دوحہ میں امریکی فوج کا سنٹرل کمانڈ(سنیٹ کام)آج کل ایک منصوبے پر تیزی سے کام کر رہا ہے اگر چہ اس مشن کو خفیہ رکھا گیا ہے تاہم امریکی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ایک آدھ خبر باہر بھیجی جاتی ہے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ طالبان تحریک کے بانی ملا عمر مرحوم کے بھائی ملا عبدالمنان اس وقت قطر میں ہیں وہ طالبان کے ایک وفد کی قیادت کر رہے ہیں یہ وفد اشرف غنی حکومت کے ساتھ انجینر گل بدین حکمتیار کی طرح شراکت اقتدرا کا معاہدہ کرنے کی غرض سے مذاکرات کر رہا ہے افغان حکومت کی طرف سے سینئرانٹیلی جنس افیسر محمد معصوم شنگزی قطر میں اپنے مختصر وفد کے ساتھ موجودہیں مذاکرات میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے اندر خاصی پیش رفت ہوئی ہے شراکت اقتدار کے مختلف طریقے زیر غورہیں ملاعبدالمنان اور محمد معصوم شنگزی دونوں اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ را بطے میں ہیں امریکی انٹیلی جنس اداروں کے حکام اور سینئر سفارت کار مذاکرات کو آگے بڑھانے میں سنیٹ کا م کی مدد کر رہے ہیں غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق بھارتی سفارت خانہ پورنے عمل میں شریک ہے البتہ پاکستان کے سفارت کاروں کو اس کی کوئی خبر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے امریکی حکام نے کریڈیبیلٹی (Credibility)کا بہانہ بنا کر پاکستان کو قطر مذاکرات کے نئے دور سے باہر رکھا ہے اور اسکی معقول وجو ہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے جاری ضرب غصب اپریشن میں پاک فوج نے افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں سے ان گروپوں کو نکال دیا ہے جنکو امریکہ یہاں رکھنا چاہتا تھا دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغان سرحد کو بند کردیا افغانستان کی طرف سے آنے والے دہشت گرد وں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی گئی ہے دونوں اقدامات سے امریکہ خوش نہیں ہے امریکہ کی افغانستان پالیسی کے کئی راز اس طرح فاش ہوگئے ہیں قول و فعل میں تضاد سامنے آگیا ہے امریکہ میڈیا کے ذریعے پاکستان پر وزیر ستان اپریشن اور حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے اندر سے وزیر ستان میں دہشت گردی کو مکمل سپورٹ کرتا تھا میڈیا میں شور مچا رہا ہے کہ دہشت گر د پاکستان سے آرہے ہیں حقیقت یہ بھی تھی کہ دہشت گر دوں کو افغانستان سے بھیجا جا رہا تھا ضر ب غصب اپریشن نے اس دوغلی پالیسی کا پردہ چاک کیا اور پاکستان کی بقاو سلامتی کے لئے اس کی ضرورت تھی امریکی حکومت اور خصوصاًبارک اوبامہ کی انتظامیہ کو اس پر گہری تشویش ہے اس تشویش کے لئے وہ لوگ ”کنسرن“کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس کنسرن نے امریکہ کو اس بات پر امادہ کیا ہے کہ اشرف غنی حکومت کو افغان خانہ جنگی کے دوران منظم ہونے والے متحارب گروہوں کے ساتھ با مقصد مذاکرات پر آمادہ کر کے ان گروہوں کو حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کے قابل عمل فارمولے پر راضی کر لیا جائے تاکہ امریکی انتخابات کو بعد نئی حکومت وجود میں آئے تو اس کو افغانستان میں ایک مستحکم سیاسی نظام دکھائی دے امریکی فوج افغانستان میں خانہ جنگی سے نمٹنے کی جگہ روس،تاجکستان،وسطی ایشیا اور پاکستان کے حوالے سے امریکی مفادات کا تحفظ کرنے پر توجہ دے جو اس کا اصل کام ہے پاکستان کے لئے پڑوسی ملک کے اندر خانہ جنگی کا ختم ہونا خوش آئند ہوگا ہمسایے میں خانہ جنگی ہمارے مفاد نہیں ماضی میں ہماری حکومتوں نے باربا ر کوشش کی کہ کابل حکومت اسلام اباد کے لئے نیک جذبات رکھنے والی ہو نرم گوشہ رکھنے والی ہو مگریہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی استاد برہان الدین ربانی،استاد صبعت اللہ مجدودی اور حامد کر زی سے لیکر ڈاکٹر اشرف غنی تک جتنے بھی حکمرا ن آئے ان میں سے کسی نے بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کیا یہ تجربہ ناکام ہوگیا ہے نیا منصوبہ یہ ہے کہ بھارت کی طرح افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بند رکھا جائے افغانستان میں دوست تلاش کرنے کی مزید کوشش نہ کی جائے افغانستان میں ہم دوست پیدا کر بھی نہیں سکینگے یہ محال ہے اس لئے طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے معاہدے کی کوششوں کا خیر مقدم کرکے ان کوششوں کی کامیابی کے لئے دعا مانگنی چاہئے جس طرح بھارت کے اندرونی حالات پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوتے اس طرح افغانستان کے اندرونی حالات بھی پاکستان پر اثر انداز نہیں ہونگے شر ط یہ ہے کہ ہماری حکومت، ہماری وزارت داخلہ،ہماری وزارت خارجہ کو افغانستان میں دوست ڈھونڈنے کی ناکام کوشش نہ کریں اس میں قیمتی وقت پہلے طرح ضائع ہوگا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا قطر مذاکرات کے نئے دور سے ہمیں الگ رکھنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی پارٹی ہماری ہمدرد نہیں ہے اس وجہ سے پاکستان کو وہ لوگ امریکہ اور بھارت کی طرح وقعت نہیں دیتے سابق ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ اقتدار کے آخری دنوں میں اُس کے لئے بڑا مسئلہ ایران کے امریکی سفارتخانے میں محصور امریکیوں کو نکا لنا اور بحفاظت وطن پہنچانا تھا اس طرح صدر بارک اوبامہ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ ہے وہ جاتے ہوئے ایسا افغانستان نئے امریکی صدر کو حوالہ کرنا چاہتے ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو اور سارے گروہ اقتدار میں شریک ہوں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button