کالمز

گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا مستقبل 

تحیر یر ۔۔۔۔محمد عیسیٰ حلیم

شنید ہے کہ پیپلز پارٹی گلگت بلتستان اب حق حاکمیت اور حق ملکیت سمیت سی پیک میں حق کیلئے احتجاج کا سلسلہ دنیور سے نکا لکر گلگت بلتستان کے کونے کونے تک پھیلا نے کا ارادہ رکھتی ہے اور یوں سردیوں میں مختلف حقوق کے حوالے سے سیاسی درجہ حرارت کو گرم رکھنے کی ٹھان لی ہے پی پی پی نے ماضی میں غیر آئینی صوبائی سیٹ اپ لانے کے بعد اب آئینی سیٹ اپ مسلم لیگ ن سے دلواناچاہتی ہے یعنی جو کام خود نہ کرسکی وہ اب مسلم لیگ ن سے حل کروانے پر تلی نظر آرہی ہے وہ چاہتی ہے کہ اگر پی پی پی نے ماضی میں اصلا حات کے لے K2 پہاڑ سرکرلیاہے تو اب مسلم لیگ ن کو ہر صورت میں ماؤنٹ ایوریسٹ کو سر کرنا پڑے گا پی پی پی سمیت دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کا یہ مطالبہ اور امید اس لئے بھی جائز اور حقیقت پر مبنی نظر آرہی ہے کہ ملک میں پیپلز پارٹی کا ماضی میں جو مقام تھا وہ اب عوام نے ن لیگ کو عطا کیا ہے جسے ہر صورت چھیننے کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان گھات لگائے بیٹھا ہواہے جسے نواز شریف انھیں اسلام آباد سے جبکہ مولانا فضل الرحمن اسلام سے خارج کرنے کیلئے تیاریوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف نظر آرہے ہیں تا ھم معاملات اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت آچکے ہیں اس لیے پوری قوم کو اس اہم فیصلے کا شدت سے انتظار ہے

پی پی پی کے قائدین گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت پر جو الزامات لگارہے ہیں وہی الزامات ماضی میں عوام کی عدالت میں ثابت ہونے پر جی بی کے عوام 8جون 2015کوپی پی پی حکومت کے خلاف تاریخی فیصلہ صادر کر چکے ہیں اور اگرآج ن لیگ حکومت کے مخالفین کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات درست ثابت ہوگئے تو موجودہ حکومت کو بھی عوام یعنی انہی کے ووٹرز گھر کا راستہ دکھاسکتے ہیں مگر موجودہ حکومت کو لوگوں کی مشکلات کا بھرپور ادراک ہونے کے ساتھ ان مشکلات پر قابو پانے سے متعلق کاوشیں بھی قابل تحسین ضرور ہیں تاہم ان کاوشوں کو حکومت مزید منظم اور موثر بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روز گار دینے سمیت صحت کی بہتر سہولیات ِ ، پینے کا صاف پانی ،معیاری تعلیم اور بجلی کی فراوانی کے ساتھ ماحول کو ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک اور صاف رکھنے کیلئے حکومتی ارو انتظامی ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے مخلص اور باصلاحیت لوگوں کو بھی اپنی ٹیم کا حصہ بناکر اپنی سیاسی بصیرت کا مضاہرہ کر تے ہوے حکومتی قد کاٹھ کو بڑھا سکتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے بدترین سیاسی مخالفین بھی ان میں پائی جانے والی بعض خوبیوں اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے دکھائی دے رہے ہیں چھوٹے درجے کا ادنیٰ لکھاری کی حیثیت سے حکومت کو یہ تجویز دی جاتی ہے کہ وقتا فوقتا اصلاح احوال کیلئے کام آنے والے مختلف سٹیک ہولڑزکے ساتھ چنار باغ یا کسی اور مقام پر ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر مشاورتی نشستیں رکھی جائیں تو مناسب ہوگا اور اان نشستوں میں درپیش ایشوز پر ہونے والی گفتاً شنیدن میں سے کام کی باتیں ا ور عملدرآمد کے طریقے تلاش کئے جاسکتے ہیں جس کے بعد بعض موٹے موٹے اور مشکل ترین ایشوز کی الجھی ہوئی کھتیوں کو بھی سلجھانے میں مدد مل سکے گی ۔ وزیر اعلیٰ کو صدر پی پی پی امجد حسین ایڈوکیٹ کی طرح جناب آغا راحت الحیسنی اور جناب مولانا قاضی نثا راحمدسمیت کسی بھی مذہبی یا سیاسی اور قوم پرست راہنماء سے وقتا فوقتا نشست کا ضرور اہتمام کرنا چاہئے اس سے دلوں میں موجود کدورتوں سمیت باہمی گلے شکوے بھی کم یا ختم ہو سکتے ہیں اور یوں دینی ،اخلاقی ،سیاسی اور حکومتی زمہ داریوں کی بہتر انجام دہی بھی حقیقی طورپر ممکن ہو سکے گی

گلگت شہر کتنا خوش نصیب ہے کہ جہاں کے حلقہ 1 میں پی پی پی کاصوبائی صدامجد حسین ایڈوکیٹ ر ہائش پزیر ہے تو حلقہ 2 میں مسلم لیگ ن کا صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن جلوہ افروز ہیں دونوں نوجوان سیاستدان باصلاحیت اور بابصیرت ہیں نوجون وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن نے اپنی پوشیدہ اور ظاہری صلاحیتوں سے کام لے کر پی پی پی کے دور حکومت میں بہترین اپوزیشن کی مگر پی پی پی کے سابق حکمران فائدہ اٹھاکر اپنے قد کاٹھ کو بلند نہ کرسکے اس سلسلے میں نوجوان دانشور ،سیاستدان اور شعلہ بیان مقرر حافظ حفیظ الرحمن سے تعمیری تنقید کودشمنی قرار دینے کی حماقت کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے وہ بنتی بگڑتی سیاسی اور علاقائی صورت حال کی حقیقت تک پہنچنے کی بھر پور صلاحیت اور ادراک بھی رکھتے ہیں

پی پی پی گلگت بلتستان کیلئے وفاق میں حکومت میں رہ کر صوبائی سیٹ اپ لانے کے باوجود 8جون 2015کے الیکشن میں ناقابل فراموش اور تاریخی شکست کھانے کے اسباب یقیناً جان چکی ہو گی اور پھر امجد حسین کی قیادت میں پارٹی کے کسی بھی ذمہ دار کو اب مزید کسی قسم کی غلطی کرنے یا کسی غلط فہمی میں رہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے نئے صدر نے پارٹی کے نیم مردہ جسم میں ہمت اور حوصلہ سمیت منتشر کارکنان کو اکٹھا کرنے کیلئے اپنی سیاسی بصیرت کے جلوے دکھانا شروع کر دیاہے۔اگر پی پی پی کے قائدین و کارکنان وقت اور درپیش حالات سمیت عوام کی ترقی ، خوشحالی اور استحکام پاکستان کیلئے تعمیری اور سیاسی داؤبیچ لگاتے رہیں گے تو جہاں خطے میں سیاسی ،سماجی اور معاشی سر گرمیوں کو فروغ ملے گا وہاں مسلم لیگ ن اور پی پی پی تمام لوگوں کیلئے قابل قبول ہونے کے ساتھ خطے کو ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک کرنا بھی ممکن ہو سکے گا

موجودہ وقت کی آواز سننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے اہل فکر و دانش جانتے ہیں کہ وقت یہاں کے ایک ایک سٹیک ہولڑر سے بھر پور توانائی اور نیک نیتی کے ساتھ کردار ادا کرنے کا تقاضاکررہا ہے اگر موجودہ حکومت تعمیری تنقید سے فائدہ اٹھا نے کاموقع ضائع نہ کرے تو اگلے الیکشن میں بھی مخالف جماعتوں کو مجبور اور لاچار بناسکتی ہے

موجودہ صوبائی حکومت کے اس ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں پیپلز پارٹی کے نہ صرف صوبائی قائدین نے بلکہ دیگر قائدین نے بھی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں تو دوسری جانب حزب اقتدار جماعت کے رہنماؤں نے بھی اپوزیشن کو سیاسی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ضرور کوشش کی ہے اور عوام جس کسی کے بھی حامی ہیں صورت حال کو انجوائی کرتے ہوئے لطف اندوز بھی ہو نے کیساتھ اپنے اپنے سیاسی قائدین کی بصیرت و دانثمندی کا اندازہ بھی لگارہے ہیں ا ور یہ بھی دیکھا اور محسوس کیا جارہاہے کہ جو مطالبہ کسی مجبوری کی وجہ سے حکومت نہ کرسکی یا جلسے کرکے اپنی ہی وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانا مناسب نہیں سمجھا وہ کام اب امجد حسین ایڈووکیٹ اور اسکے ساتھی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن اس مقصد کیلئے جوش کے ساتھ ہوش بھی لازمی ہونا چاہئے جو یقیناًایک بابصیرت سیاستدان اور ماہر قانون میں ہونا شر ط اول ہے۔

میری طرح کئی اور لوگوں کی خواہش کے مطابق اگر اسمبلی میں قائد حزب اقتدار حافظ حفیظ الرحمن اور قائد حز ب اختلاف امجد حسین ایڈووکیٹ ہوتے تو اسمبلی اور حکومت ملکر اس خطے کو کم عرصے میں اچھا مقام دلا سکتے تھے مگر کاش کہ کئی لوگوں کی خواہش اور کوشش کے باوجود 8جون 2015کو حلقہ نمبر 1 گلگت میں امجد حسین ایڈووکیٹ کو مسلم لیگ ن کے امید وار جعفر اللہ خان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے نامزد امید وار کو وہ پزیرائی نہ مل سکی۔ عوام کا موجودہ حکمرانوں ا ور ارکین اسمبلی پر اعتماد حق بجانب ہونے اور ووٹر کے فیصلے درست ہو نے پر سرتسلیم خم ،مگر اے کاش امجد حسین ایڈووکیٹ کو اسمبلی میں جناب حاجی شاہ بیگ کی نشست پر بیٹھنے کا موقع ملتا تو مسلم لیگ ن گلگت بلتستان آج ڈیڑھ سال میں اڑھائی سال کے برابر تعمیری سفر طے کرسکتی تھی کیو نکہ اچھی اور تگڑی اپوزیشن کے بغیر مثا لی حکومت کا خواب شرمند ہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے اور پھر توانہ آ و از میں تعمیر تنقید ہی عو ام کو اپنی طرف متو جہ کر سکتی ہے مسلم لیگ (ن)گلگت بلتستان کو اقتدار ملنے کی ایک بڑ ی وجہ یہی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button