صحت

گلگت پریس کلب میں مردوں کے عالمی دن کی مناسبت سے تقریب منعقد

گلگت(ارسلان علی)سیکریٹری ہیلتھ گلگت بلتستان سعیداللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ این جی اوز اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والوں سے گلہ ہے جنہوں نے مرد اور عوات کے درمیان خوتین کے حقوق کے نام پر فاصلہ بڑھا دیئے ہیں جس کی وجہ سے آئے روز مسائل میں اضافہ ہورہاہے ۔

ہفتہ کے روز انہوں نے گلگت پریس کلب میں مردوں کے عالمی دن کے مناسبت سے آغاخان ہیلتھ سروس پاکستان گلگت بلتستان اور محکمہ صحت گلگت بلتستان کے تعاون سے ’’ مردوں میں خود کشیاں کیسے روکا جاسکتا ہے کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خاندانی نظام کے خاتمے سے یہ مسائل جنم لے رہے ہیں اور لوگوں کا مذہبی عقائد سے دور ہونا بھی خدکشیوں کے شرح میں اضافہ ہونے ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے میڈیا اور ڈراموں میں بھی اس قسم کے دیکھائے جاتے ہیں جس سے خود کشیوں کا یہ روایت بڑھتا جارہاہے اور اس سے گھروں میں خواتین اور مردوں کے درمیان جگڑے میں اضافہ ہوگیا ہے ، ہماری پرانی قبائلی اور خاندانی نظام جس میں مرد کی ایک اہم حیثیت ہوتی تھی جس کی وجہ سے خودکشیاں اور دیگر مسائل کم ہوا کرتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ مغرب کی نسب اسلامی ممالک میں پھر بھی یہ مردوں میں خود کشیوں کا ریشو کم کے کیوں کہ اسلامی ممالک میں آج بھی خاندانی نظام کافی حد تک اچھی طرح سے چل رہاہے ۔

تقریب کے دوران سیکریٹری ہیلتھ سعید اللہ خان نیازی نے گروپ کیپٹن شاہ خان کی وفات پر ان کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کروائی اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ایسے بہادر مرد نہ ہوتے تو آج گورنر گھنساراسنگھ اور سیکریٹری بھگوان داس کے نام سے ہوتے ۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میڈیکل سپیشلسٹ و ماہر نفسیات آغاخان ہیلتھ سروس پاکستان گلگت بلتستان ڈاکٹرعادل نے اپنا ماہرانہ رائے دیتے ہوئے کہا کہ مردوں میں خود کشیوں کا شرح اسلامی ممالک سے مغربی ممالک میں زیادہ ہے اور اس حوالے سے عالمی سروز کے مطابق وہ لوگ زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں جن کی آمد نی کم ہو ،حد سے زیادہ مایوسی ،شدید زہنی دباو ،شراب نویشی اور نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینئر محقق ،کالم نگار و ہومن رائٹ کمیشن آف پاکستان گلگت بلتستان کے کورڈینیٹر اسرار الدین اسران نے اس حوالے سے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا کہ ہمارا سماج ماڈرن اور روایتی کلچر میں فنسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگ روایات اور مارڈرن دور میں کشمکش کا شکارہیں۔انہوں نے کہا گلگت بلتستان میں 2015ء کے دوران غیرت کے نام پر 40لوگ قتل ہوئے جس میں قتل کرنے والے بھی مرد تھے اور قتل ہونے والے بھی مرد تھے ۔

انہوں نے کہا کہ 2016سے اب تک آپر ہنزہ کے علاقہ گوجال میں صرف 15کے قریب خودکشیاں ہوئی جن میں 7سے 12کے درمیان مرد تھے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں مردوں میں خودکشیاں خواتین کی نسبت زیادہ ہوا ہے جس کی مین وجہ غصہ پر کنٹرول نہ کرنا ،معاشی اور گھریلوں مسائل ہیں۔

آغاخان ہیلتھ سروس کے پرجیکٹ کاز کے ڈائریکٹر فیاض کریم نے کہا کہ گلگت بلتستان میں خواتین کے حقو ق پر بہت کام ہوا ہے لیکن مردوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا ہے،ہارٹ اٹیک جیسے مہلک بیماری کی شراح بھی خواتین کے نسبت مردوں میں زیادہ ہے ۔انہوں نے کہا آغاخان فاونڈیشن اور کینڈین حکومت کے تعاون سے چلنے والا یہ پراجیکٹ گلگت بلتستان کے عوام میں صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے اور انہیں بتا نا ہے کہ اپنی صحت کا کیسے خیال رکھا جائے ۔

ڈائریکٹر پی پی ایچ آئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیابھر میں خواتین کے مقابلہ میں مردوں میں خوکشیاں کا شراح بہت زیادہ ہے اس کی وجہ معاشی مسائل مرد پربہت زیادہ ذمہ داریان ڈالنا اور دیگر وجوہات ہیں۔انہوں نے کہا مردوں میں خودکشیوں کی عمر 20سے 40سال کے درمیان ہے ،نوجوانی اور شادی سے قبل اس کا رجحان زیادہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کے بڑی بڑی تعلیمی اداروں میں مردوں کے مقابلہ میں خواتین زیادہ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بڑی بڑی یونیورسٹی میں70فیصد خواتین اور مرد 40فیصد تعلیم حاصل کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس جینڈر بیلنس کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔اس تقریب میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبہ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button