کالمز

اقبال مرشد مااست

تحریر : محمد خان طورمکی

آیت اللہ خمینی فرماتے ہیں کہ ٌ جو قومیں اپنی دفاع خود نہیں کر سکتی اسے جینے کا کوئی حق نہیں ٌ اسی نظریے نے ایران کوعالمی طاقتوں کے صف میں کھڑا کیااس کے پیچھے بھی دوجوہات کارفرما تھے پہلا رہبریت اور دوسرا اس کے افکارو نظریہ پر عمل وہ لوگ آج بھی اس کی شخصیت اور نظریے کو اپنے لئے را ہ نجات سمجھتے ہوئے اس پرعمل پیراہے۔ اس ضمن میں اگر مملکت پاکستان کی طرف بھی دیکھیں تو یہ سر زمیں بھی کسی سے کم نظرنہیں آتا۔ ایک سے بڑھ کر ایک ادیب ، مفکر اور دانشوار اس قوم کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں یہ انیسویں صدی تھا جب ہر طرف گوروں کا بول بلا تھا اور متحدہ ہنددستان آزادی سے مکمل طور پر نا امید ہو چکے تھے ایک ایسے وقت میں ایک مرد مومن نے برصغیر کی سر زمیں پر قدم رکھاجسکی بے داغ شخصیت اور روشن دلیلوں سے نجات کے شعایں پھوٹیں اورگوروں کی ظالمانہ حکومت کی تختہ الٹ گئی جسکو برصغیر پاک و ہند کے علاوہ پوری دنیا نے اقبال کے نام پہچانا یقیناًآپ کی شخصیت کسی معجزے سے کم نہیں جس نے تاریخ کے بوسیدہ اوراق کودفن کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی جسے آج بھی دنیا حیران نظر آتے ہیں آ پ سے پہلے جتنے بھی مفکریں اور دانشوار آئے تھے سب نے اپنے اپنے نظریات سے دنیا کو خاص طور پر برصغیر کو مسخر کرنے کی کوشش کی چند ایک کامیاب بھی ہوئے لیکن آپ کے قرآن و سننت پر مبنی عقلی دلائل سے سابقہ نظریا ت ریت کے دیوار ثابت ہوئے، وقت کے بے رحم موجوں نے انہیں کہیں کا رہنے نہیں دیااور تنکے کی طرح بہا کر لے گئے جس میں پہلا نظریہ نظریہ خودی تھا ۔دوسرے دانشواروں اور مفکروں نے خود ی کو انسان کے ظاہر کو بنانے اور سنوانے والے سامان قراردیا جبکہ آپ نے نظریہ خودی کو خودشناسی اورخدا شناسی کہہ کر دوسرے نظریات کو رد کیا۔صرف یہی نہیں بلکہ اقبال نے اشعار کی صورت میں برصغیر میں بسنے والوں کو انکی اہمیت سے آگاہ کرایااور یہ بتایا کہ اللہ نے انسانوں کوآزاد پیدا کیا ہے اس لئے کسی کو اسے غلام بنانے کا حق نہیں پہنچتا۔یہ سچ بات ہے کہ جب خدا کسی قوم کورسوائی سے نکالنا چاہتا ہے تو اس معاشرے اندر ایسے شخصیات کو پیدا کرتے ہیں جو انکے ماتھے پر لگے ناامیدی کے لکیروں کو مٹاکر نئے جوش و ولولے کی روح پھونکتے ہیں ،اقبال بھی انہی میں سے ایک تھا آپ کی شخصیت کا یہ کمال تھاکہ دشمن وجود اقبال سے نفرت تو کرتے تھے لیکن فکر اقبال کو داد دینے پر مجبورہو جاتے ۔جس جس نے بھی آپکی شخصیت سے رہنمائی حاصل کی وہ محروم نہیں رہے بلکہ ایک طاقت بن کر ابھرنے لگے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا تحریک پاکستان ھند وستان اس کے واضح ثبوت ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ہم وہ واحد بدقسمت قوم ہیں جس نے یکدم علم و دانش کے منبع سے منہ موڑ لیا ،ہم ہی وہ قوم ہے جو آج بھی دوسروں کی نظریات اور شخصیت سے متا ثر ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں بظاہر تو اقبال ہمارا ہے لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارے اجسام روح اقبال سے خالی نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے اقبال کو صرف اور صرف شاعر مشرق اور مفکر اسلام کے ناموں تک محدود کر رکھا ہے ہم ٰ وہ قوم ہے جو آج اقبال کی روح کواذیت دے رہے ہیں ۔ ہمارے گھروں سے لیکر ایوانوں تک سب کے سب اقبال کو میر کاروان تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے مقاصد سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں،یہاں چند ایک تقریبات کے علاوہ اقبال پر بحث ہی نہیں ہوتا ،ہم نے اقبال کو چند تقریبات کے لئے مختص کیا ہے تو اس کی شخصیت کیسے ہمارے سمجھ میں آسکتا ہے آج اقبال کی شخصیت کو اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے معا ملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ کوئی اقبال کا نام سن کر منہ موڑ لیتا ہے تو کوئی اسے عام انسان سمجھتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج اگر ہم ان ممالک پر نظرکریں جو اقبال کی دور اندیشی کاثبوت دے رہاہے نے اقبال کو ترقی اور اپنے وجود کے راز کا ذریعہ قرار دے رہاہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال ایران کو دیکھ لیجئے جسکے بارے میں آپ نے تیس چالیس برس پہلے پیشن گوئی کی تھی جوبعدمیں سچ ثابت ہوا اسی دن سے آج تک ایرانی قوم نے اقبال کو اپنی زندگیوں میں حصہ دیا ہواہے ان کے نام پر بڑے بڑے جامعات بنائے ہیں اور وہ لوگ نئی نسلوں کو ابتدا ھی سے اس کی شخصیت اور اس کے افکارکے بارے میں آگاہ کراتے ہیں آج انہوں نے ہم سے زیادہ اقبال کو سمجھا ہے یہی وجہ ہے وہ لوگ آ ج دنیا کے بڑے بڑے سے طاقتوں کے مقابلے میں نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی آزاد ہ ہوے وقت گزرے ہیں لیکن وہ آج ہم سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور بن رہے ہیں ان کے پاس نہ ایٹم بم ہے اورنہ ہی ہمارے جیسا تجربہ کار اور بہادر فوج ،پھر بھی دنیا ان کی طاقت سے بوکھلاہٹ کا شکار نظرآتے ہیں وہ اس لئے کہ انہوں نے قرآن وسنت کے بعد اقبال کو زریعہ نجات سمجھا اور مرشد تک کہہ دیا اس کا ذکر بانی انقلاب اسلامی آیت اللہ خمینی کچھ یوں کرتے ہیں کہ ٌ اقبال مرشد ما است ،ٌ یعنی اقبا ل میرا مرشد ہے اور میں مرید ۔آخر وجہ کیا ہے کہ بڑی سی بڑی شخصیات خود کو اقبال کے مرید سمجھتے ہیں بلا شبہ ہم نے اس پہلو کی طرف دیکھنے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ ہم آج اقبال کے مرید بن سکتے ہیں اور اس ملک کو قائد اعظم کے خوابوں کا پاکستان بنا سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ ہم انہیں اپنی عملی زندگی میں لے آئے۔ اس کا آغاز وہ لوگ احسن طریقے سے کر سکتے ہیں جومعاشرے پر اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں بنیادی کردار آج کے میڈیا کا بھی ہے جو اس سے بہتر انداز سے یہ کام سر انجام دے سکتا ہے۔ میڈیا حضرات اگر فکر اقبال کی آبیاری کے لئے نشرو اشاعت کا سلسلہ شروع کرے توہمارا معاشرہ بھی ایک فلاحی معاشرہ بن سکتا ہے کیونکہ آجکل لوگ میڈیا کے تقلید کرنے میں سب سے آگے ہیں اس کے علاوہ کسی سے خیر کی توقع رکھنا بے معنی ہے اس حوالے سے سب سے زیادہ زمہ داری حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اقبال کی فکر اور اس کی شخصیت کو اس قوم کے سامنے اجاگر کرنے کے لئے خود عملی میدان میں آئے، سرکاری چینل کے علاوہ نجی چینل کو بھی اس حوالے سے متحرک کرے اور ملک کی مختلف اداروں میں بھی پروگرام کریں تاکہ اس قوم کے اندر شعور پیدا ہو اور مزید ذلیل و رسوا ہونے سے بچ جائے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اقبال شناسی کو نرسری سے ہی ہمارے نصاب کا لازمی حصہ بناتے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ اقبال سے آشنا ہو سکیں اس لئے حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اقبال شناسی کو عام کرنے کے لئے حکمت عملی مرتب کر لیں تاکہ ایک بار پھر سے ٌ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ٌ کا سلسلہ شروع ہو سک

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button