Uncategorized

ڈیم متاثرین کی حالت زار ،اور آبادکاری

بڑی بڑی لگژری گاڑیاں نان کسٹم پیڈ یا رجسٹرڈ کوئی فرق نہیں پڑتا ہے بس گاڑی ہونی چاہیے وہ بھی زرا اونچی نسل کی ،،بھائی کی گاڑی سے ماڈل میں لیٹسٹ، بلکل پڑوسی کی فراری کی طرح ایک دم لگژری ۔۔۔۔دس لاکھ میں خریدا تو کیا ہوا اسٹامپ پیپر بیس لاکھ کا بنوا دیا اور اوپر سے یک مشت ادائیگی بھی لکھوا دی اب ثبوت کے طور پر کاغذپرچند سطور موجود ہیں تو قسمیں کھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک دوسروں پر سبقت کے چکر میں نتیجہ یہ نکلا کہ بارگین والوں نے موقع غنیمت جان کر، ایک دم سے گاڑیوں کی ریٹ پچاس فیصد بڑھا دی۔ اب گاڑی تو لینی ہی لینی ہے۔  بہاؤ دس کا پندرا ہو یا بیس کا چالیس کوئی بات نہیں ہے۔ کم سرمایہ والے تو اس طرح دیوالیہ ہو گئے کہ کچھ صوبہ کے دوسرے اضلاع میں جائدادکے خرید و فروخت میں لٹ گئے ۔ادہر اپنے ہرے بھرے لہلہاتے زمینوں کو ملک کے محبت میں آٹھ سے دس لاکھ میں پٹوار برادری کے حوا لہ کردیا، وہ بھی ،،تو اور تیرے خدا ،،کے حساب سے ،،وہ پھر بھی کم گھا ٹھے میں رہے مگر جن کو ڈبل کی سوجھی ان کا حشر تو اللہ معاف کرے اصل سے بھی محروم رہے۔جب کہ گلگت میں ،،بے آب و بنجر قدیم ،، اراضی کو چالیس سے ساٹھ لاکھ میں فی کنال کے حساب سے خریدا گیا کمر شل کی تو بات ہی نہ کریں جو ریٹس ادھر دیا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں او ر اب جو گلگت میں کمرشل زمین کا ریٹ ہے وہ بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے،
حالا نکہ جس وقت دیامر کے اراضیات کا ریٹس وفاق کی جانب سے آٹھ سے دس لاکھ مقرر کیے گئے تھے اس وقت گلگت کے ان زمینوں کی قیمت دو سے تین لاکھ فی کنال تھی ۔جو ں ہی یہاں پر متاثرین کومعاوضہ کی ادائے گی شروع ہوئی گلگت کے زمینوں کی قیمت چالیس سے ساٹھ لاکھ فی کنال تک پہنچ گئی دیامرکے زمینوں کی قیمت میں سن دو ہزار سات سے لیکر تا حال محض پچیس فیصد ازافہ ہوا ہے اور بیشتر لوگ اس پچیس فیصد سے بھی محروم کیئے جا چکے ہیں۔

جس وقت دیامر کے زمینوں کی قیمت لگائی جا رہی تھی، اس وقت ڈالر ساٹھ روپے کا تھا اب سو کراس ہو گیا ہے اشیائے خورد نوش کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے مگر دیامر کے زمین کی اہمیت وہی کہ وہی ہے اتنے سالوں میں تو جنگ زدہ علاقوں کے زمین کی بھی قیمت بڑھ جاتا ہے بیشتر لوگ تو اس مخمصے کا شکار ہیں کہ اتنے رقم میں جو زمین انہوں نے دی دیامر کا زمین تھا یا افریقہ کے خانہ جنگی والا ریاست کا زمین تھا، جو سات سال تک جمود کا شکار رہا؟ حالا نکہ سورج بھی برابر پڑتی آرہی ہے دن رات بھی وہی حساب سے آتے جاتے رہے ہیں۔ خیر میدانی زمینیں تو آٹھ سے دس لاکھ میں چلے گئے اب سر چھپانے کیلے پہاڑ کے دامن میں چلاس سے شہر سے چار کوس کے فاصلے پر بیس سے پچیس لاکھ میں بھی ایک قطعہ اراضی ناپید ہے۔اب تک جن لو گوں کو معاوضات ادا کر دی گئی ہے ان میں سے نوئے فیصد لوگ دیوالیہ ہو چکے ہیں ان متا ثرین میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو مقامی سر مایہ داروں کے ہتھے چڑھ گئے جن کو پہلے معاوضہ ملا اس نے سود پر دوسروں کو پیسہ دیا اور بعد میں سود در سود وصولی کی جس سے کچھ لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ معا وضہ کی رقم ملنے سے پہلے ہی مفلس ہو گئے اور کچھ تو مذید مقروض بھی ہو چکے ہیں مکان بھی گیا زمین بھی نہ رہااور قرضوں کی بوجھ تلے دب کر کچھ لوگ علاقے سے فرار بھی ہو چکے ہیں ۔

لینڈ ما فیا مقامی سودخوروں اور دوسرے لغویات کے علاوہ متاثرین کی ایک بڑی تعدادمضاربہ سیکنڈل کی زد میں بھی آئی ہے۔کروڑوں کے حساب سے متاثرین کو مضاربہ با با نے بھی چونا لگا یا ہے ۔کچھ لو گوں کے املاک کو معا و ضہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے یا ان کی املاک کے ہیت تبدیل کر دی گئی ہے جن کے ہزاروں درخواستیں متعلقہ ادارے کو موصول ہوئی ہیں مگر تا حال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی حالا نکہ واپڈا اور انتظامیہ کے مشترکہ شکایات سیل کا ڈھونگ بھی رچا یا گیا جو وقت کے ساتھ ساتھ بے معنی ہوتادکھائی دے رہاہے۔زمینیں تو لٹ گئیں، اب لوگوں کو حق روزگار سے بھی محروم رکھا ہوا ہے حالانکہ محکمہ واپڈا متاثرین کو ترجیحاتی بنیادوں پر روزگار فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن اب تک متاثرین کو کسی قسم کے روزگار کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا۔لگتا ایسا ہے کہ حکومت متاثرین کو مکمل دیوار سے لگانے کی روش پر گامزن ہے اور اوپر سے غضب کی بات یہ ہے کہ محکمہ واپڈا آبادکاری کی زمہ داری محکمہ پی ڈبلیو ڈی اور لوکل گورنمنٹ کو سونپنے والی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب متا ثرین کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔پی ڈبلیو ڈی جس سے ایک کلوٹ تک ڈھنگ سے نہیں بن پاتا روڈ کو میٹل کرنے کے نام پر ناہموار زمین پر کالا رنگ پھینکتے ہیں یا تارکول جو دس دن میں اکھڑ جا تا ہے بلڈنگ بناتے ہیں ایک سال میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں پل بناتے ہیں تویہی حال ہے ناقص میٹریل کا استعمال اس ادارے کی پہچان ہے۔اور لوکل گورنمٹ کی تو بات ہی کچھ اور ہے ان کے کتا بوں میں دہی علاقوں میں تو دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں دیامر کے دہی علاقے کے عوام تو بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہیں واٹر سپلائی سے لیکر رابطہ پلوں تک میسر نہیں ہیں کچھ علاقوں میں سڑکیں تو بہت دورکی بات ہیں مویشیوں کا راستہ بھی عوام اپنے مدد آپ کے تحت بناتے ہیں ایسے اداروں کو اتنی بڑی زمداری سوپنے کاکیا جواز بنتا ہے؟یقیناًً دیامر کے عوام نے حب الوطنی کا ثبوت دیاہے اس کا صلہ یوں دینا مناسب نہیں ہے۔آبادکاری سے لیکر روزگار کی فراہمی اور خاص کر جن لوگوں کے ساتھ معاوضات کی ادائے گی میں زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ از حد ضروری ہے چو نکہ لوگ دیوالیہ ہو چکے ہیں جو کچھ ملا تھا تھا وہ تو پانی کی طرح بہہ چکا ہے اب آخری امید آبادکاری کی صورت میں باقی ہے اس میں بھی روایتی مکرو فریب کا سلسلہ جاری رہا تو حالات بگڑ سکتے ہیں ماڈل ولیج کی صورت میں آبادکاری کا سلسلہ فورًً شروع ہو نا چاہیے تا کہ متاثرین کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی میں کمی واقع ہو سکے اور تمام متا ثرین کی آبادکاری چلاس شہر میں ہونی چاہیے اگر شہر میں آباد کرنا ممکن نہیں ہے زمین کی کمی ہے تومتا ثرین کی مشاورت سے متبادل جگہ کی تعین کرنا چاہے اور آباد کاری کیلے طے شدہ معاہدہ چلاس ڈولپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لانا بے حد ضروری ہے تا کہ متاثرین مطمئن رہے اور پیسہ کا استعمال بھی درست انداز میں ہو گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button