کالمز

سی پیک منصوبے میں گلگت بلتستان نظرانداز کیوں؟

تحریر : عارف نواز
طالب علم: بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان

چائنا پاکستان میں اتنی بڑی انوسٹمنٹ کیوں کر رہا ہے ۔اس سے چائنا کو کیا فائدہ ہوگا؟ اور پاکستان کو اس راہداری سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ خاص کر انڈیا اس منصوبے سے خائف کیوں ہے؟ اس منصوبے میں گلگت بلتستان کی کیا اہمیت ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر پاکستانی کے زہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی حکمران اور تجزیہ نگار ان سوالوں کے جوابات اپنے اپنے انداز میں دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن آج میں ان سوالوں کے جواب اپنے انداز میں دینے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو یہ منصوبہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

دراصل سی پیک بلوچستان کے گوادر بندرگاہ کو گلگت بلتستان کے راستے چائنا سے ملائے جانے کے منصوبے کا نام ہے جس پر تقریبا چھیالیس ارب ڈالرز کی لاگت آئے گی۔ان چھیالیس ارب ڈالرز کا ایک خطیر حصہ صرف پاکستان میں بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جائیگا جس سے ملک میں بجلی کی کمی دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت چائنا کے کاشغر شہر سے لے کر گوادر بندرگاہ تک جدید طرز کی سڑکیں بھی بنائی جائیں گی۔اس منصوبے میں بجلی اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ ریلوئے ٹریک ،ترقیاتی سکیمیں اور گیس پائپ لائنز ، آپٹیکل فائبر بچھانا وغیرہ بھی شامل ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں چائنا کسی دوسرے ملک میں اتنی بڑی انوسٹمنٹ کر رہی ہے، اس سے چائنا کو کیا فائدہ ہوگا؟ اگر آپ دنیا کے نقشے کو اٹھا کے دیکھیں تو آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔کیونکہ چائنا ہر سال ان ممالک سے بے شمار تیل وغیرہ خریدتاہے جن میں میں سعودی عرب ، ایران ، عراق اور افغانستان سرفہرست ہیں ۔اس مقصد کے لئے چین کو بہت لمبے راستے سے گزرنا پڑتا ہے جس پر بے تحاشہ اخراجات آجاتے ہیں۔ پہلے پہل چائنا کو میڈل ایسٹ مملک سے تیل خرید نے کے بعد strait of Hormoz سے گزرنا پڑتا ہے اس کے بعد بحرہ عرب ہوتے ہوئے strait of Malacca اور پھر اس کے بعد ساوتھ چائنا سی سے ہوتے ہوئے شنگائی یا ہانگ کانگ پہنچتے ہیں۔

اگر چائنا پاکستان کے راستے سفر کرتا ہے تو تقریبا ۰۰۰۲۱ کلومیڑ کا سفر کم پڑتا ہے۔ یہ جو ساوتھ چائنا سی ہے اس کے اوپر کئی سالوں سے مختالف مملک کے درمیان تنازعہ چل رہا ہے لیکن چائنا اسے اپنا کہتا ہے اور اس لئے بھی کیونکہ یہ راستہ اب World trade door کی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اس لئے بھی دوسرے مملک کی اس میں انڑسٹ بڑھ گئی ہے۔اس لئے بھی چائنا کو یہ ڈر لاحق ہے کہ کہیں یہ راستہ ہاتھ سے چلا جائے تو مستقبل میں اسے کافی مسلہ ہوسکتا ہے۔اس لئے چائنا ابھی سے اس مسلے کا حل تلاش کر رہا ہے۔اور چائنا کو اس مسلے کاحل پاکستان کی صورت میں مل گیا ہے۔ اس لئے وہ کسی بھی صورت میں اس پروجیکٹ کو مکمل کر نے کا خواہاں ہے۔اس طرح چائنا اپنی زیگینگ صوبے کو بھی ترقی کرسکے گی کیونکہ ابھی چائنا کی کل اأبادی کا ۶۹ فیصد ایسڑن والی سائیڈ میں اأباد ہیں اور صرف ۴ فیصد اأبادی کاشغر شہر والی سائیڈ میں اأباد ہیں اس منصوبے اس وہ یہ والی علاقے کو بھی ڈولپ کر سکے گی۔

اس منصوبے سے پاکستان کا مستقبل ایک اور سمت کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ اگر دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو پاکستان کا ساوتھ ائشین ٹائیگر بننے کا خواب پورا ہو جائے گا، کیونکہ اس طرح پاکستان والڈ ٹریٹ سنڑبن جائے گا۔اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے وہ علاقے جو ابھی تک ترقی یافتہ نہیں ہیں وہ بھی اس منصوبے سے ترقی کی راہ پر چل پڑے گے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ۱۴ مختالف منصوبوں کا علان کیا گیا تھا اس سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان کے سارے صوبے بھی ساتھ ساتھ ترقی کی نئی منازل طے کرنے والے ہیں ۔ان ۱۴ منصوبوں میں ۵۲ پنجاب، ۲۱ سندھ ، ۲۱ کے پی کے، اور ۸ بلوچستان میں مکمل کئے جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ بھارت اس منصوبے سے اس قدر پریشان کیوں ہے؟ اس کا جواب اسان ہے کیونکہ بھارت کو ڈر ہے اس منصوبے سے پاکستان کا ساوتھ ائشیں ٹائیگر بننے کا ادھورا خواب پورا ہو جائے گا۔اور اس سے پاکستان اتنا مظبوط ہو جائے گا اور پاکستان کو ہرانا مشکل ہو جائے گا۔اس لئے وہ آئے روز اس منصوبے کو کبھی بلوچستان تو کبھی گلگت بلتستان کے ایشو کو لے کے ناکام کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو ایک خطرہ یہاں بھی لاحق ہے ۔یہ جو strait of hormoz ہے اس کے قریب بھارت ایران میں بہت بڑی انوسٹمنٹ کر رہا ہے اور یہاں ایران کے ساتھ مل کے چھبار نام کا ایک بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ اس پر ایک اندازے کے مطابق ۰۰۳ ملین ڈالرز کی لاگت اأئے گی۔بھارت کو ڈر ہے کہ اس طرح چائنا گوادر بندرگاہ پر اپنی فوجیوں کو لا کے بھارت کے اس منصوبے کو ناکام کر سکتی ہے۔انڈیا یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی اتنی بڑی انوسٹمنٹ خراب ہو اس لئے وہ سی پیک منصوبے کو ناکام کرنے کی ہر طرح سے کوشش کر رہا ہے۔

پاکستانی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ سی پیک منصوبے سے پاکستان کے ہر صوبے کوبہت سے فوائدمل رہے ہیں ۔لیکن ان میں گلگت بلتستان کا نام کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے ؟ کیا یہاں کے عوام پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے؟ کیا یہاں کے عوام نے اپنے ملک کی دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان نہیں کیں؟

تاریخ گواہ ہے ، یہاں کے عوام نے پاکستان کی دفاع کے لئے وہ سب کچھ کیا جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ کیا کوئی لالک جان شہید نشان حیدر کی بہادری کو بھول سکتا ہے۔کون حسن سدپارہ (مرحوم ) کو بھول سکتا ہے، جس نے بغیر اکسیجن کے دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی ماونٹ اویرسٹ کو سر کر کے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ کیا کوئی ثمینہ بیگ کی بہادری سے انکار کر سکتا ہے، جو وہ واحد پاکستانی خاتون ہے جس نے پاکستان کا سبز پرچم دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماونٹ ائرسٹ پے لہرادیا ۔اور بھی بہت سے ایسے ہیروز ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور بہادری کے زریعے پاکستان کا نام روشن کردیا ۔

اس قدر خدمات کے باوجود چائنا پاکستان اقتصادی رہداری میں گلگت بلتستان کو نظرانداز کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ لہذامیری حکومت سے التجا ہے کہ خدا را یہ غریب عوام بھی پاکستانی ہیں۔ ان کو بھی ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کے برابر کے حقوق دیکر عوامی محرومیوں کا ازلہ کیا جائے تاکہ یہ علاقہ بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button