کالمز

گدھا بھی پاک فوڈمیں شامل ہوامگر۔۔۔۔

 گزشتہ برس قومی میڈیا پر پنجاب میں گدھے کاگوشت فروخت کرنے اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کی خبریں ایک ساتھ گردش کرنے پرگلگت بلتستان کے معروف شاعر جمشید دکھی نے موضوع کی مناسبت سے ایک خوبصورت قطعہ قلمبندکیا۔ اس قطعے کو سوشل میڈیا پرنہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں کے لوگوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی ۔ فیس بک پر جب یہ قطعہ پوسٹ کیا گیا تو ہزاروں کی تعداد میں صارفین نے اس پوسٹ کو لائیک، کومنٹس اور شیئرزکیا۔ اب جب گزشتہ دنوں پاکستان کے ایوان بالا میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر پھر سے بحث چھیڑ گئی تو مجھے برملا طور پر دکھی صاحب کا وہ قطعہ یاد آگیا۔

دکھی صاحب کا قطعہ کالم کے آخری سطور میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن فی الوقت خبریہ ہے کہ سینیٹ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کی تیسری عبوری رپورٹ کثرت رائے سے منظور کرلی۔ رپورٹ سے متعلق رائے دیتے ہوئے ارکان سینیٹ کا کہا تھا کہ گلگت بلتستان سی پیک کا دروازہ ہے لیکن سی پیک کے تحت اس علاقے کے لئے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا ہے۔ جس سے خطے کے عوام میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔

عبوری رپورٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ سی پیک کی خصوصی کمیٹی نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور وہاں کے عوام سے اس منصوبے سے متعلق رائے بھی لی۔ سی پیک کے تحت گلگت بلتستان میں 31ارب ڈالرسے ایک ڈالرکی بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی ہے۔ اسی لئے وہاں کے عوام میں بہت ناامیدی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے سی پیک سے متعلق گلگت بلتستان کے عوام کی تجاویز بیان کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک خصوصی کمیٹی کے دورے کے موقع پر خطے کے عوام کی جانب سے قراقرم ہائی وے کے متبادل کے طورپرشندورپاس کے راستے چترال اور استور تا مظفرآبادسڑک کی تعمیر اور گلگت میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ بنانے کے علاوہ سیاحت کے فروغ، قدرتی آفات کے خطرات سے نمٹنے، بجلی کے پیداوار میں اضافے کے حوالے سے منصوبے شروع کرنے کی تجاویز بھی دی گئیں۔ مزیدبراں سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر کریم خواجہ، سینیٹر عثمان کاکڑ ودیگر نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام خطے کی آئینی حیثیت کا تعین کرکے پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حق بھی مانگتے ہیں۔ جس پر چیئرمین سینیٹ سینیٹرمیاں رضا ربانی نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ گلگت بلتستان کوآئینی درجہ دینے کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ آئین میں ترمیم کرکے فوری طورپر خطے کو آئینی حیثیت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ معاملہ مسئلہ کشمیرکے ساتھ منسلک ہے۔

سی پیک کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کی تجاویز ومطالبات سے ایوان بالا کو اگاہ کرنے اور چیئرمین سینیٹ کے ریمارکس کے پیچھے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اول یہ کہ اگر گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت کا معاملہ اس قدر پیچیدہ اور سنگین ہے تو پھر ملک کا ہر حکمران حقائق جاننے بغیریہ دعویٰ کیوں کررہا ہے کہ ان کی جماعت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کرکے وہاں کے عوام میں پائی جانے والی محرومیوں کا آزالہ کریگی؟

کیا ان حکمرانوں کو برصغیرپاک وہندکی تقسیم کے ستربرس گزرنے کے بعدبھی گلگت بلتستان کی حیثیت کا کوئی علم نہیں؟ کیا گلگت بلتستان واقعی میں مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے؟ اگر مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے تو وہاں کے عوام کو کنٹرول لائن کی دونوں جانب کشمیریوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں؟ کیا کسی حکمران نے ابھی تک اس بات پر غورکیا ہے کہ آخر گلگت بلتستان کے عوام میں کیونکر محرومیاں اور ناامیدی پائی جاتی ہے؟ کیا آج تک کسی نے گلگت بلتستان سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مطالعہ کیا ہے؟ کیا کسی کو گلگت بلتستان کی دفاعی وجغرافیائی اہمیت کا اندازہ ہے؟ اگرملک کے حکمرانوں کو گلگت بلتستان سے متعلق تمام تر تاریخی حقائق اور خطے کی آئینی حیثیت کے تعین میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ ہے تو پھران حقائق سے انکھیں چراکرخطے کے عوام کو کیونکر جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں کہ ہماری جماعت آپ کے لئے یہ بھی کریگی وہ بھی کریگی وغیرہ۔۔وغیرہ۔

اگر گلگت بلتستان کو آئینی درجہ دینے کا معاملہ اس قدر پیچیدہ تھا تو پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو خطے کی آئینی حیثیت کے تعین کے لئے مشیرخارجہ سرتاج عزیزکی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر یہ معاملہ کسی طورپربھی پیچیدہ نہیں تو سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی کودوسال تک رپورٹ مرتب کرنے میں ناکامی کا سامنا کیونکر ہے؟ اگر اس خطے کی کوئی اہمیت نہیں تو پھرسی پیک کی خصوصی کمیٹیاں بناکر کروڑوں روپے خرچ کرکے گلگت بلتستان جاکر وہاں کے عوام سے رائے لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

یہ تمام تر سوالات اپنی جگہ طلب جواب ہیں، مگر آفرین اس مردآہن رضاربانی کو جنہوں نے ایک ذمہ دار عہدے پر رہتے ہوئے کم ازکم یہ جھوٹ تو نہیں بولا کہ جی ہاں ہم گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے کا حل تلاش کرکے عوامی محرومیوں کا ازالہ کرینگے۔ اگرچہ رضاربانی کے یہ الفاظ اپوزیشن اور حکومتی خیرخواہوں پر ناگوار گزے بھی ہونگے لیکن اس حقیقت سے انکاری ممکن نہیں کہ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔

رہی بات چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں گلگت بلتستان کو نظراندازکرنے کی تو یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ یہ مسئلہ تو تب سے ہے جب سے ملک میں سی پیک کا ایشو چھیڑگیا ۔ ابتدا میں تو سی پیک پرپنجاب کے علاوہ تمام صوبوں کے تحفظات تھے مگروہاں کے نمائندے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا فائدہ اٹھاکراس اہم منصوبے میں اپنا شیئرحاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے سبب یہ علاقہ سی پیک کے ثمرات سے محروم رہ گیا۔

اس محرومی کے خلاف جب مقامی لوگوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی تو انہیں ملک دشمن طاقتوں کے اہلکار قرار دیکران کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کاروائی کرنے کی دھمکیاں دیکر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ پھریہ ایشو بین الاقوامی سطح پر ابھرکرسامنے آنے پر کبھی گلگت بلتستان کے لئے فرضی منصوبوں کا اعلان کیا گیا تو کبھی ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹیاں بناکرعالمی دباؤ کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر حقیقت میں سی پیک میں گلگت بلتستان کے لئے کوئی منصوبہ ابھی تک زیرغورنہیں۔ یہ بات میں نہیں کہتا بلکہ ارکان پارلیمنٹ اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب سی پیک کے زیلی منصوبوں کی تفصیلات بتاتی ہیں۔

ان تمام تر ناانصافیوں کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائی اور ملک کی ترقی وخوشحالی کی خاطرسیپیک کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہارکیا۔ حالانکہ اپنا سینا چیرکردوسروں کو فائدہ پہنچانے کا یہ کوئی آسان کام بھی نہیں۔ ’’سینا چیر‘‘ کا لفظ یہاں اس لئے استعمال کیا جارہا کیونکہ خنجراب کے مقام پر چینی حدود کے اختتام سے لیکر دیامر کے آخرتک سی پیک کا مغربی روٹ گلگت بلتستان کے حدود سے گزررہا ہے۔ جس پر دونوں جانب سے روزانہ سینکڑوں کی تعدادمیں مال بردار کنٹینرز اسی دھرتی کا سینا چیرکرسفرکرینگے ۔ بدلے میں یہاں کے عوام کو گردوغبار اور ماحولیاتی آلودگی سے پھیلی جانے والی مہلک بیماریوں کا تحفہ دینگے۔ ایسے میں عوام میں ناامیدی اور محرومیاں پیدا ہونا بھی کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔

لہذا حالات اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین میں پیچیدگیاں ہی سہی مگر سی پیک میں اس علاقے کے شیئر کا تعین تو کیا جائے تاکہ عوامی محرومیوں کا کچھ تو ازالہ کیا جاسکیں۔ آخرمیں جمشید دکھی صاحب کا قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔

آئین کا یہ پھل ہمیں حاصل نہ ہوسکا

شاید یہ کام تھا بڑا مشکل نہ ہوسکا

گدھا بھی پاک فوڈمیں شامل ہوا مگر

جی بی یہ ارضِ پاک میں شامل نہ ہوسک

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button