کالمز

قائد اعظم محمد علی جناح

امجد بیگ
جب بھی ہم تاریخ کی اوراق سے پردہ اٹھاتے ہیں تو1857 ؁ء کے جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی جو حالت زار تھی وہ کسی سے پنہاں نہیں۔اس جنگ میں شکست کے بعد برضغیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی نئی داستان رقم ہوئی۔انگریز حکومت نے بدلے کی آڑ میں نہ صرف مسلمانوں کو ان کے مال و دولت سے بے دخل کر دیا بلکہ مشرق کی باحیا بیٹیوں کی عزتیں بی سر بازار نیلام کردیا۔کئی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کے اپنے ہی آنکھوں کے سامنے کٹتے دیکھا تو کئی بچوں نے اپنے ماں باپ کی زندگیوں کو گل ہوتے دیکھا۔ان حالات میں ہندؤں نے بھی اکثریت کے بل بوتے پر مظلوم مسلمانوں کونقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔لیکن ان سنگین حالات میں قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے لئے ایک امید کی کرن بن کے سامنے آئے۔آپ میں بچپن ہی سے قوم کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔اور جب آپ نے دیکھا کہ برصغیر کے مسلمان انگریزوں اور ہندؤں کی غلامی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں تو آپ نے مسلمانوں کو اس غلامی سے نجات دلانے کے لئے تگ و دوں شروع کیا۔

جب آپ نے مسلمانوں کی قیادت سنبھالا تو برصغیر کے مسلمانوں کا شیرازہ بری طرح بکھرچکا تھا۔اس صورت میں آپ نے اپنے ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اورآزادی کے حصول کے لئے مسلمانوں کو متحرک ہونے پر مجبور کیا۔مسلمانوں نے بھی آپ کے پیچھے ہاتھ باندھ کر آپ ہیی کو اپنا امام تسلیم کیا۔آپ انگریزوں اور ہندؤں کے ناپاک عزائم سے پہلے ہی بخوبی واقف تھے اور مسلمانوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لئے ہندؤں اور فرنگیوں کے تمام حربوں کو خاک میں ملا دیا۔ اور آخر کار ہندوستان کا سینہ چیر کر اس میں سے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک پاکستان بنایا جہاں وہ اپنے نظریات کے مطابق ایک آزادانہ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔لیکن موجودہ حالات میں ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہیکہ ہم قائد کے بنائے ہوئے اس ملک کے ساتھ کتنا مخلص ہیں۔کیا آج ہم قائد کے ان خوابوں کی تکمیل کے کئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں جو آپ نے آج سے قریباََ ستر سال پہلے دیکھا تھا؟ اس بات کو جاننے کے کئے ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات کا ہی احتساب کرنا ہوگا نہ کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے۔اگر ہم ایک دوسرے پر الفاظ کستے رہے تو مسائل ختم ہونے کی بجائے مزید پیدا ہوتے رہیں گے۔اگر ہم کو آج ان مسائل کی دلدل سے باہر آنا ہے تو ہمیں اپنے صفوں میں ایک بار پھر وہ اتفاق اور اتحاد پیدا کرنا ہوگا جو ہمارے بزرگوں نے قائد ملت کی سرپرستی میں پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے کیا تھا۔ اگر ہم آپس میں اتحاد اور اتفاق کی فضاء قائم کرکے یک جان ہوکر اپنے وطن کی ترقی کے لئے محنت اور لگن سے کام کریں تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم ایک دن اقوام عالم میں ایک عالیٰ درجے پر فائز ہونگے۔اور ایک بار پھر اپنے اباو اجداد کی تاریخ دہرانے میں کامیاب ہوجائنگے۔
فطرت افراد سے آغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
مملکت خداد پاکستان کا معرض وجود میں آنا مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں۔مسلمانان ہند کے لئے الگ ملک کا قیام دشمنان کے لئے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں تھا۔اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے آج دشمن عناصر ہمارے صفوں میں گھس آئے ہیں اور ہمارے اندر فرقہ واریت، علااقیات اور قومیت کا زہر کھولنا چاہتے ہیں۔لیکن ہمیں ان کی ناپاک ہتھکنڈوں سے محتاط رہنا ہوگا۔اگر اس کے برعکس ہم ایک دوسرے کی خون کے پیاسے بنے رہے تو وہ دن دور نہیں جب قائد کا بنایایہ پاکستان ٹکڑوں میں بٹ چکا ہوگا اور ہمیں ایک بار پھر غلامی کی زندگی بسر کرنا پڑیگا اور روز قیامت ہم ان لوگوں کے لئے بھی جواب دہ ہونگے جنہوں نے اس ملک کو پانے کیلئے اپنے جانوں کا نظرانہ دیا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button