شعر و ادبکہانیاں

زیتون جھیل  – چینی کہانی

سبطِ حسن

ہزاروں سال پہلے کا قصہ ہے کہ ایک جھیل کے کنارے ایک گاؤں آباد تھا۔ گاؤں میں غریب کسان رہتے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام فرزند تھا اور وہ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ جھونپڑی جھیل کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر تھی۔ جھیل کے ساتھ ساتھ چاروں طرف ایک اونچے پہاڑ کی چوٹیاں تھیں۔ اس پہاڑ کو کوہ زیتون کہا جاتاتھا۔ چونکہ جھیل اسی پہاڑ کی گود میں تھی، اس لیے جھیل کو ’’زیتون جھیل‘‘ کہا جاتا تھا۔

فرزند کی اماں اس قدر بوڑھی تھیں کہ وہ جسمانی مشقت کا کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ سارا دن جھونپڑی کے سامنے بیٹھی رہتیں۔ آتے جاتے لوگ ان کے پاس آجاتے اور گاؤں میں ہونے والے واقعات سناتے رہتے۔ اس طرح اماں کا دن گزر جاتا تھا اور وہ گاؤں میں ہونے والے تمام معاملات سے باخبر رہتیں۔ اگر لوگوں سے فرصت مل جاتی تو وہ سن یابان کی رسی بناکر اسے ایک چرخی پر لپیٹتی رہتیں۔

فرزند نے چند ایکڑ زمین بٹائی پر زمیندار سے لے رکھی تھی۔ وہ زمین پر بڑی محنت سے کام کرتا مگر جب فصل تیار ہو جاتی تو اس کے پاس اتنا اناج بھی نہ بچتا کہ جس سے وہ سال بھر دو وقت کی روٹی کھا سکے۔ زمیندار فصل کا ایک بڑ احصہ لے جاتا اور فرزند کے پاس جو حصہ بچتا وہ اخراجات میں چلا جاتا۔ دونوں ، ماں بیٹے کو نہ تو کبھی پیٹ بھر روٹی ملتی اور نہ ہی کپڑے۔

ایک دن فرزند جھیل کے کنارے بیٹھا تھا۔ وہ جھیل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے جھیل کے کناروں کے ساتھ ساتھ اپنی نظر دوڑائی۔ اسے لگا کہ جھیل کس قدر خوبصورت ہے، بالکل ایک پیالے جیسی۔ جھیل کے ارد گرد اونچے پہاڑ، پہاڑوں پر برف اور سبزہ۔ یہ سب مل کر ایک خوبصورت منظر بنا رہے تھے۔ اس کا دھیان جھیل کے پانی کی طرف گیا۔ جھیل کا پانی گدلا تھا۔ اسے جھیل کے اردگرد اتنے خوبصورت ماحول میں گدلا پانی بہت عجیب سا لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ جھیل کا پانی ہولے ہولے بہتا ہوا، نیچے دریا میں چلا جاتا ہے۔ پانی چلتا تو ہے مگر یہ صاف کیوں نہیں ہوتا؟ یہی سوچتے ہوئے اس کا دھیان اپنی زندگی کی طرف چلا گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ اتنی محنت کرتا ہے مگر پھر بھی اسے پیٹ بھرنے کے لیے کافی اناج نہیں ملتا۔ اس نے کئی سال محنت مشقت میں گزارے۔ وہ ہر سال سوچتا کہ شاید اس کی قسمت بدل جائے مگر کچھ بھی نہ بدلا۔

یہ سب سوچتے ہوئے فرزند کا دل بوجھل سا ہو گیا۔ وہ جھیل سے اٹھا اور گاؤں کے بازار میں چلا آیا۔ وہاں بہت سے بزرگ اور جوان دوکانوں کے باہر بیٹھے تھے۔ فرزند نے ان سے سوال کئے۔ پہلا یہ کہ جھیل کا پانی چلنے کے باوجود کیونکر گدلا ہے اور دوسرا یہ کہ اتنی محنت مشقت کے باوجود اس کی غربت کیونکر کم نہیں ہوتی؟

لوگوں نے اپنی سمجھ سو چ کے مطابق اسے جوابات دیے۔ مگر کسی کا جواب تسلی بخش نہ تھا۔ آخر ایک بزرگ نے بتایا کہ اگر اسے ان سوالات کے درست جواب چاہئیں تو وہ مغرب کی طرف جائے۔وہاں ایک دانا بزرگ رہتے ہیں۔ وہی اس کے سوالوں کے جواب دے سکیں گے۔ فرزند نے پہلے تو سوچا کہ اکیلی بوڑھی ماں کو چھوڑ کر دانا بزرگ کے پاس جانا اچھی بات نہ ہو گی۔ مگر اس کی بے چینی نے اسے اکسایا اور اس نے سفر پر جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے ارد گرد کے لوگوں کی مدد سے گھر میں ضروریات کی سب چیزیں ماں کے لیے ذخیرہ کیں اور خود سفر پر روانہ ہو گیا۔

چلتے چلتے فرزند کو کئی دن گزر گئے۔ ایک روز دن بھر کے سفر کے بعد اسے سخت پیاس محسوس ہوئی۔ اس کے پاس چمڑے کی چھاگل میں پانی ختم ہو گیا۔ اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ اسے دور، درختوں کے بیچ میں ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ جھونپڑی کے پاس پہنچا۔ جھونپڑی کے باہر ایک بکری بندھی تھی اور دو میمنے اپنی ماں کے ارد گرد اچھل کود رہے تھے۔ وہ کچھ دیر جھونپڑی سے ہٹ کر کھڑا رہا کہ شاید کوئی شخص اسے نظر آئے اور وہ اس سے پانی مانگ لے۔ اتنے میں جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور ایک بوڑھی اماں، کمر جھکائے باہر نکلی۔ بوڑھی اماں کو دیکھ کر بکری ہولے سے ممیائی۔ اماں نے اپنی ہتھیلی بکری کے منہ کے پاس کی اور بکری بڑی تیزی سے منہ مارتی ہتھیلی پر رکھی چیز کھا گئی اور ہاتھ چاٹنے لگی۔ اماں نے اسی ہاتھ سے بکری کے منہ پر پیار سے ہلکی سی چپت لگائی اور جھونپڑی میں جانے کے لیے مڑی۔ مڑتے وقت اس کا دھیان فرزند کی طرف گیا۔ فرزند جس جگہ پر کھڑا تھا، وہاں سے ایک قدم آگے بڑھا۔

اماں نے پوچھا: ’’بیٹا، کیا چاہئے؟‘‘

’’مجھے سخت پیاس لگی ہے۔۔۔اگر تھوڑا سا پانی مل جائے تو۔۔۔‘‘ فرزند نے کہا۔

اماں نے فرزند کے چہرے پر تھکاوٹ دیکھی تو اسے جھونپڑی کے سامنے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ جھونپڑی سے پانی لے کر آئی۔ فرزند کو پانی دیا اور پھر واپس جھونپڑی میں چلی گئی۔ اس نے جھونپڑی کے دروازے کے پاس بنے چولہے پر کھانا تیار کیا اور فرزند کو دیا۔ گرم گرم کھانا دیکھ کر فرزند بہت خوش ہوا۔ کھانا کھانے کے بعد اماں فرزند سے پوچھنے لگی:

’’بیٹا، لگتا ہے تم کہیں دُور سے آئے ہو!‘‘

’’ہاں جی، میں مغرب میں ایک دانا بزرگ کے پاس جا رہا ہوں تاکہ اس سے دو سوالوں کے جواب دریافت کر سکوں۔‘‘ فرزند نے کہا۔

’’بھلا وہ کون سے سوال ہیں، جن کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے تم اتنی مشقت اٹھارہے ہو؟‘‘ اماں نے پوچھا۔

’’میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ زیتون جھیل کا پانی گدلا کیوں ہے اور یہ کہ دن رات محنت کرنے کے باوجود میرے دن کیوں نہیں پھرتے؟‘‘ فرزند نے کہا۔

اماں نے جب یہ سب سنا تو وہ ایک دم خوش ہوگئیں۔ انہوں نے فرزند کی آستین کو پکڑ لیا اور کہنے لگیں:

’’بیٹے، میرا بھی ایک کام کردو، میری ایک بیٹی ہے۔وہ اٹھارہ سال کی ہونے والی ہے، بے حد خوبصورت اور سگھڑ۔ مگر افسوس کہ وہ گونگی ہے۔ کیا تم دانا بزرگ سے یہ پوچھ سکتے ہو کہ وہ بولتی کیوں نہیں؟‘‘

’’میں ضرور پوچھوں گا، بڑی اماں!‘‘ فرزند نے وعدہ کیا۔

فرزند اس رات ادھر ہی رہا اور اگلی صبح اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ کئی دن چلتا رہا۔ جہاں رات آتی، وہیں بسر کر لیتا۔ ایک شام وہ ایک جھونپڑی تک پہنچا۔ اس نے سوچا، رات وہیں بسر کرلی جائے۔ جھونپڑے کے سامنے ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کی سفید داڑھی تھی اور وہ جھونپڑے کے پاس ایک کنویں کے چبوترے پر چپ چاپ بیٹھے تھے۔ فرزند ان کے قریب آیا اور ا ن سے بڑے ادب سے کہنے لگا:

’’میں کئی دنوں سے سفر کر رہا ہوں تاکہ مغرب میں دانا بزرگ تک پہنچ سکوں۔ مجھے ان سے کچھ سوالات کے جوابات پوچھنے ہیں۔اگر آپ اجازت دیں تو میں ادھر آپ کے پاس رات بسر کر لوں۔ کل صبح چلا جاؤں گا۔‘‘

’’کیوں نہیں، آپ شوق سے ادھر رہیں۔۔۔ جو رُوکھی سوکھی ہے ، وہ حاضر ہے۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا اور انہوں نے فرزند سے سوالوں کے بارے میں پوچھا اور فرزند نے اپنے سوال دہرائے۔ یہ سن کر بزرگ نے فرزند سے فرمائش کی کہ وہ ان کے ایک سوال کا جواب بھی دانا بزرگ سے لیتا آئے۔ انہوں نے سوال بتایا:

’’میرے باغ میں سنگترے کا ہرا بھرا پیڑ ہے، لیکن عرصہ گزر گیا اس پر پھل کیوں نہیں لگتا؟‘‘

اگلی صبح فرزند سفر کے لیے پھر چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ ایک دریا کے کنارے جا پہنچا۔ دریا بہت چوڑا تھا اور اس میں بڑی بڑی موجیں اٹھ رہی تھیں۔ آس پاس کوئی کشتی بھی نہ تھی۔ فرزند پریشان ہو گیا کہ دریا کس طرح پار کرے گا۔ وہ اسی پریشانی میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور دریا پار کرنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ اتنے میں خوفناک آندھی چلنے لگی۔ آسما ن پر سیاہ بادل چھا گئے۔ ہوا اس قدر تیز تھی کہ اس سے دریا کی لہریں اور بھی غضبناک ہو گئیں۔ کچھ دیر کے بعد آندھی کی رفتار کم ہونا شروع ہو گئی۔ بادل چھٹ گئے۔ آسمان پر خوبصورت رنگ برنگے بادلوں کی ٹکڑیاں تیرنے لگیں۔ دریا کی پُرشور موجیں سکون سے بہنے لگیں۔ فرزند نے سکھ کا سانس لیا۔ اس نے دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنی آنکھوں اور چہرے کو دھونا شروع کر دیا۔ وہ پانی لینے کے لیے دریا پر جھکا۔ اسے ایک اژدھے کا عکس پانی میں نظر آیا۔ فرزند نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ دریا کے دوسرے کنارے تک پھیلا ایک ہیبت ناک اژدھا فرزند کو دیکھ رہا تھا۔ فرزند کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ اس نے سوچا کہ اب وہ بچے گا نہیں۔ اتنے میں اسے ایک آواز سنائی دی۔

’’نوجوان، اس قدر کیوں پریشا ن ہو۔۔۔ تم کدھر جا رہے ہو؟‘‘ فرزند کا حلق خشک ہو رہا تھا اور اس کا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ پھر آواز آئی:

’’میاں، گھبراؤ نہیں، میں تمہارا دوست ہوں اور تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میری بات کا جواب دو!‘‘ فرزند میں تھوڑی سی ہمت پیدا ہوئی۔ اس نے منمناتے ہوئے جواب دیا:

’’میں مغرب کی طرف ایک دانا بزرگ کے پاس جا رہا ہوں۔ اس سے کچھ سوالوں کے جوابات پوچھنے ہیں۔‘‘ فرزند نے ایک سانس میں ساری بات کہہ دی اور ڈری ڈری آنکھوں سے اژدھے کو دیکھنے لگا۔ اژدھے نے فرزند سے فرمائش کی وہ اس کے سوال کا جواب دانا بزرگ سے ضرور پوچھتا آئے۔ سوال یہ تھا:

’’میں نے کبھی کسی انسان یا جانور کو تکلیف نہیں دی۔ میں ایک ہزار سال سے اتنا بڑا اژدھا بنا، اس دنیا میں رہ رہا ہوں۔ اژدھا بن کر رہنا سزا سے کم نہیں۔ آپ دانا بزرگ سے پوچھنا کہ میری یہ سزا کب ختم ہو گی ؟‘‘

’’میں آپ کے سوال کا جواب ضرور پوچھ کر آؤں گا۔‘‘ فرزند نے اژدھے کو کہا۔ اژدھا بہت خوش ہوا اور فرزند کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر دریا کے پار لے گیا۔

فرزند نے دریا کے اس پار پھر سے سفر شروع کر دیا۔ وہ کئی دن کی مزید مسافت کے بعد اس جگہ پہنچا جہاں دانا بزرگ رہتے تھے۔ وہ ابھی گاؤں کے باہر تھا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں دانا بزرگ کی جھونپڑی کی طرف جاتے دیکھا۔ فرزند جھونپڑی کے قریب پہنچا۔ جھونپڑی کے سامنے ایک چبوترے پر ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کی داڑھی اور سر کے بال برف کی طرح سفید تھے۔ ان کے چہرے میں عجیب طرح کی کشش تھی۔ وہ ہر ایک سے مسکرا کر بات کر رہے تھے۔ جب وہ مسکراتے تو ان کے چہرے پر پھول سی شگفتگی آجاتی۔ چبوترے کے ارد گرد بہت سے لوگ بیٹھے تھے اور وہ اپنی باری پر دانا بزرگ سے ملنے کے لیے چبوترے پر ان کے سامنے بیٹھ جاتے اور اپنے سوال کا جواب پوچھتے۔ دانا بزرگ جواب دینے سے پہلے کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیتے اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے۔

فرزند کی بھی باری آگئی۔ وہ اٹھا اور دانا بزرگ کے سامنے جا بیٹھا۔ دانا بزرگ نے اسے دیکھتے ہی کہا:

’’لگتا ہے آپ بہت دور سے آئے ہو، آپ آج ادھر رک جانا، آرام کر لینا اور پھر واپسی کا سوچنا۔۔۔‘‘

’’جی شکریہ، میرے پانچ سوال ہیں۔۔۔!‘‘ فرزند نے بڑے ادب سے کہا:

’’میں آپ کے سوالوں کا جواب دوں گا۔ مگر ان کی تعداد تین سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

فرزند یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ وہ کون سا سوال چھوڑدے۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سوال نہیں پوچھے گا۔ دوسرے لوگوں کے سوالات کو اس نے اہم سمجھا۔ اور یہ بھی کہ اگر اس نے ان کے سوالات کے جواب نہ پوچھے تو وہ لوگ بڑے مایوس ہوں گے۔ آخر اس نے بوڑھی عورت، بزرگ اور اژدھے کے سوالات دانا بزرگ کے سامنے رکھے۔

دانا بزرگ نے تینوں سوالات کے تسلی بخش جوا ب دیے۔ رات کو فرزند نے وہیں قیام کیا اور صبح سویرے دانا بزرگ کی دعائیں لے کر واپس سفر کے لیے چل پڑا۔

فرزنددریا پر پہنچا۔ اژدھا اس کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی کہنے لگا۔

’’بزرگ نے میرے سوال کا کیا جواب دیا؟ کیا میری مصیبت ختم ہو جائے گی؟‘‘

’’تم، اگر نیکی کے دو کام کر دوتو تمہاری مصیبت ختم ہو جائے ۔‘‘ فرزند نے کہا۔

’’کون سے دوکام۔۔۔!‘‘ اژدھے نے بڑی بے چینی سے پوچھا ’’پہلا کام یہ کہ تم مجھے دریا کے اس پار پہنچا دو اور دوسرا یہ کہ رات کو تمہارے ماتھے پر جو منکا چمکتا ہے ، اسے گرا دو۔۔۔ ‘‘ اژدھے نے فوراً اسے دریا کے اس پار پہنچا دیا اور پھر اپنے سر پر لگے منکے کو جھٹک دیا۔ منکا جونہی زمین پر گرا، اژدھے کے سر پر دو سینگ نمودار ہوگئے۔ اس کے سفید رنگ کے بڑے بڑے دوپر نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ بلندی کی طرف اٹھنے لگا۔ وہ اب آسمان کی طرف جا رہا تھا اور بہت خوش تھا۔ اس نے بادلوں کی طرف بڑھتے ہوئے فرزند سے کہا۔

’’میرا منکا اٹھا لو، یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔‘‘

فرزند نے منکا اٹھا لیا اور دن رات سفر کرتا ہوا بزرگ کے جھونپڑے تک جا پہنچا۔ بزرگ کنویں کے چبوترے پر بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ بزرگ نے فرزند کو دیکھتے ہی ایک سانس میں اس سے پوچھا: ’’کیا تمہیں، تمہارے سوالوں کے جواب مل گئے۔۔۔ میرے سوال کا کیا بنا؟‘‘

’’میں نے اپنے سوالات پوچھے ہی نہیں، البتہ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے باغ میں جو تالاب ہے، اس کی تہہ میں سونے اور چاندی سے بھرے ہوئے نو مرتبان دفن ہیں۔ اگر آپ تالاب کھود کر یہ مرتبان نکال لیں اور اس کے بعد سنگترے کے درخت کو تالاب کے پانی سے سیراب کر لیں تو درخت پھل دینے لگے گا۔۔۔‘‘

بزرگ نے فوراً اپنے بیٹوں کو بلوایا اور سب نے مل کر تالاب کی کھدائی شروع کر دی۔ وہ کھودتے گئے۔ کھودتے کھودتے تنگ آگئے مگر مرتبان کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ بہرحال انہیں دانا بزرگ کی بات پر یقین تھا اور انہوں نے ہمت نہ ہاری اور کام جاری رکھا۔ آخر کار، بہت زیادہ گہرائی پر مرتبان مل گئے۔ مرتبان واقعی سونے اور چاندی سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جونہی مرتبان تالاب سے باہر نکالے، زمین سے صاف پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے تالاب پانی سے بھر گیا۔

بزرگ نے دانا بزرگ کی ہدایت کے مطابق سنگترے کے درخت کو چشمے کا پانی دیا۔ آن ہی آن میں ساری شاخیں سنگتروں سے لدگئیں۔ بزرگ اور ان کے بیٹے بہت خوش ہوگئے۔

انہوں نے فرزند کو بہت سا سونا اور چاندی دی اور کئی دن اپنے پاس مہمان کے طور پر رکھا۔ اس کی خوب خاطر مدارت کی۔

بزرگ سے رخصت ہونے کے بعد فرزند سفر کرتا ہوا کئی دن کے بعد بوڑھی اماں کے پاس پہنچا۔ بوڑھی اماں، اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور پوچھنے لگیں۔

’’بیٹے، آخر تم لوٹ آئے۔ بھلا، بزرگ نے میرے سوال کا کیا جواب دیا۔۔۔؟‘‘

’’انہوں نے کہا کہ جس دن آپ کی بیٹی کو کوئی نوجوان اچھا لگے گا ، وہ اسی دن سے بولنا شروع کر دے گی۔‘‘ فرزند نے کہا:

عین اسی وقت بوڑھی اماں کی بیٹی وہاں آئی اور شرما کر پوچھنے لگی:

’’اماں، یہ نوجوان کون ہے؟‘‘

ماں نے اپنی بیٹی کو بولتے سنا تو وہ خوشی سے دیوانی ہو گئی۔ اس نے اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا۔

فرزند چند روز بوڑھی اماں کے پاس ٹھہرا۔ اماں نے اپنی بیٹی کی شادی فرزند سے کر دی۔ جب وہ یہاں سے رخصت ہوا تو خوش تھا۔ اس کے پاس بہت سا سونا چاندی، اژدھے کا منکا اور خوبصورت بیوی تھی۔

طویل سفر کے بعد فرزند اپنے گھر پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں اس کی جدائی میں رو رو کر اندھی ہو چکی تھی۔ اسے اپنی ماں کی یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا۔ وہ تو راستے میں سوچ رہا تھا کہ اس کی ماں، چاند سی دلہن کو دیکھ کر کس قدر خوش ہو گی۔ اور یہ کہ وہ سارا سونا چاندی ماں کے قدموں میں ڈال دے گا اور اس سے کہے گا کہ اماں اب ان کے دن پھر گئے ہیں۔ مگر ماں کی یہ حالت دیکھ کر فرزند سخت مایوس ہو گیا۔ اچانک اسے اژدھے کے منکے کا خیال آیا۔ اس نے منکا نکالا اور اپنی ماں کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ اس کی ماں کی بینائی واپس آگئی۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اسے خیال آیا کہ ہو نہ ہو، منکے میں ایسی طاقت ہے کہ اس کو ہاتھ میں لے کر جو بھی خواہش کی جائے وہ پوری ہو جائے گی۔ فرزند نے فوراً دوسری خواہش کے بارے میں سوچا:

’’اگر اس گاؤں میں تو کیا، پوری دنیا میں غریب کسانوں پر ظلم کرنے والے امیروں کا خاتمہ ہو جائے تو غریبوں کی زندگیاں اچھی ہو جائیں گی۔‘‘ اسی وقت معلوم ہوا کہ گاؤں کا ظالم زمیندار مر گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا دنیا کے باقی ظالموں کا خاتمہ ہوا کہ نہیں۔۔۔!

اس دن کے بعد زیتون جھیل کا پانی صاف ستھرا رہنے لگا اور گاؤں کے سب لوگ خوشیوں بھری زندگی گزارنے لگے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button