کالمز

دیامر میں درسگاہوں کے قیام کی ضرورت

 تحریر۔اسلم چلاسی

عمل کیلے علم ضروری ہے ۔جب تک کامل علم نہ ہو بہتر عمل ممکن نہیں ہے۔ اچھائی اور برائی کی تمیز اپنے اور دوسروں کے حقوق و فرائض کا ادراک علم کی کرنوں سے ہی ہوتا ہے ۔ تمام علمی دروازے بند کر کے اپر سے جہالت کے طعنے بھی دیے جائے اور ساتھ ہی بڑے نیک نیتی سے مفید مشہورے بھی اہم ترین شخصیات کی طرف سے ملتے رہے تو معاشرے میں تبدیلی کیا خاک آئے گی ۔ ان ہی رویوں کی وجہ سے دیامرپتھر کے زمانے میں دب کر رہ گیا ہے۔ آس پڑوس کے درجنوں گاؤ ں دھاتوں میں پرائمری سکول تک نہیں ہے ۔کئی کئی کلومیٹر کے فاصلے پر اکا دکہ خستہ حال عمارتیں سکولوں کے نام پر دوکھہ دہی کیلے موجود ہیں ۔جہاں بچے ہیں وہاں استاد نہیں ہے کہے استاد ہے تو بچے نہیں ہیںیہی وجہ ہے کہ والدین نے سکول کے چکر میں پڑنا ہی چھوڑ دیا ہے دس سال تک بچے کو پالتے ہیں گیارھویں سال میں داخل ہوتے ہی بندوق ہاتھ میں تھما کر بکریوں کے ریوڑ ان کے حوالہ کرتے ہیں جو آس پڑوس کے دنیاں سے غافل ابتدائی حصول علم کے طور پر چرواہی کو قبول کرتا ہے آٹھ دس سال تک اس فرض کو نبھاتاہے جب بیس بائیس سال کے عمر کو پہنچتا ہے تو پیشہ سے بغاوت شروع کرتا ہے ماں باپ سے لڑ پڑتا ہے اور یہ لڑائی گھر سے نکل کر گلی محلوں سے ہوتے ہوئے پورے معاشرے تک پھیل جاتی ہے بات بات پر گالم گلوچ لڑائی جگڑہ حتی کہ نوبت بندوق کی نوک تک آجاتی ہے ۔میرے پندرا بیس سال کے مشاہدے میں جتنے بھی قاتل نظروں سے گزرے ہیں سب کی ابتدائی تعلیم و تربیت بکریوں کے ریوڑ میں ہی ہوئی ہے کوئی ایک بھی تعلیم یا فتہ قاتل کومیں نے نہیں دیکھا اور نہ ہی آج تک کسی سے سنا ہے۔ تعلیم یا فتہ تو بہت دور کی بات ہے یہاں پرائمری پاس بھی منفی سر گرمیوں میں شامل نہیں ہوتے ہیں چونکہ یہ بھی نسبتاً ایک ڈگری ہی ہے کیو نکہ یہاں پر زہنی طور پر لوگ بالکل تندرست ہیں جتنا پڑھتے ہیں اس تک محدود نہیں رہتے بلکہ تحقیق و جستجو کے عمل کو جاری رکھتے ہیں جو ز ہنی کثرت استعداد کی وجہ سے بڑے بڑے ڈگری ہولڈروں کو مات دیتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ تمام صلا حیتیں ضائع ہو رہی ہیں چند مراعات یافتہ لوگ زاتی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے اپنے بچوں کو بہتر مستقبل تو دے سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کی رسائی حصول علم تک نہیں ہے چو نکہ دیامر میں اسی فیصد لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب رہے بیس فیصد میں بھی دس فیصد وہ ہے جوگزر بسر کے لیے معمولی وسائل رکھتے ہیں اب کثرت اولاد کی وجہ سے آٹھ سے دس بچوں کی دیکھ بحال اور بہترتعلیم تو ممکن ہی نہیں کتنے لوگوں کو میں جانتا ہوں جواپنے بچوں کو سکول یونیفارم کتا بیں اور دیگر لوازمات مہیا نہیں کر سکتے ہیں اور ایسی لیے وہ سکول سے نکل کر مٹی گھارے کا کام کرتے ہیں دیامر کے دہاتوں میں اسی فیصد بچے مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے علم سے محروم ہیں یا پھر علمی درسگا ہوں کی کمی یا مسافت کی وجہ سے ان کیلے روشنی کے دروازے بند ہیں بیس فیصد میں سے بھی دس فیصد کی رسائی سکول تک ہے باقی دس فیصد دور دراز کے مدرسوں خانقاہوں میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اب یہ جو دس فیصد عصری علم کیلے سر گرداں ہیں ان میں سے پچاس فیصد میٹرک تک بڑی مشکل سے پہنچ جا تے ہیں بقیہ پچاس فیصد میں سے تیس فیصد انٹر کلیٹ یا انڈر گریجویٹ تک ہی تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکتے ہیں اور لیے دے کر بیس فیصد بے تحا شا وسائل کی بدولت اعلی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اب خاص کر داریل تا نگیرجو بہت بڑے علاقے ہیں بلخصوص داریل پھوگچ کو تو بد ھ مت کے دور میں ایشیاء کی پہلی یو نیورسٹی کا شرف بھی حاصل ہے مگر آج اس جدید دور میں ایک انٹر کالج وہ بھی مردہ منصوبے کی شکل میں پڑا ہے ابھی تک کلاسز کا اجرا نہیں ہے ۔ اور جو سکولز ہیں ان میں اساتزہ کی کمی ہے آبادی کے تناسب سے نہ تو تعلیمی ادارے ہیں اور نہ اساتذہ ۔ایک مضمون کا استاد ہے تو چار مضامین ہوا میں ہیں ساتھ میں اساتذہ بھی تربیت یافتہ نہیں ہیں۔فیمیل ایجوکیشن تو ہے ہی نہیں گنے چنے علاقوں میں ایک دو سکولیں برائے نام بنائے گئے ہیں بیشتر علاقوں میں گرل سکولوں کے نام ونشان ہی نہیں اپر سے طعنہ بھی دیا جارہا ہے کہ دیامر والے فیمیل ایجوکیشن کے مخالف ہیں کوئی سکول ہی نہیں تو مخالفت کیسے ہوگی پہلے سکول بنائے ٹیچر ہائر کریں تعلیم کے مواقع فراہم کریں پھر جاکے مخالفت یا حمایت کا فتوا دیا جا سکتا ہے۔اس طرح ترقیاتی منصوبوں کی طرح تعلیمی سہولیات کے دروازے بھی بند رہے تو احساس محرومی مذید بڑھ جائے گی جو کسی بھی صورت میں اس خطے کے حق میں نہیں ہو گا اب ضرورت اس امر کا ہے کہ دیامر میں آبادی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے علمی درسگاہوں کے قیام کی ضرورت ہے خاص کر قراقرم یو نیورسٹی کی کیمپس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جہاں مدرسوں کی ضرورت ہے وہاں پر عصری تعلیم بھی ضروری ہے یقیناً حکمرانوں کو دل پر پتھر رکھ کر محض ایک قراقرم یو نیورسٹی کیمپس کو برداشت کرنا چاہیے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button