سیاحت

وادی سلگان 

جاوید احمد ساجد

سلگان شاید لفظ چھیل گا ن سے نکلاہے جس کا مطلب ہے پانی کے بیچ میں سے جو کہ بروشاسکی لفظ چھل (پانی) سے نکلا ہے کسی جگہ پہنچنے کے لئے پانی کے درمیان سے گذرنا ہو تو کہا جاتاہے چھل گان یا سل گان یعنی پانی سے گذرنا ۔ چونکہ قدیم زمانے میں یاسین تین حصوں میں تقسیم تھا یاسین یا یسن دوسر ا سلگان اور تیسرا تھوئی ، سلگان پہنچنے کے لئے ہویلتی سے جاکر برانداس تک دریا کا پانی کراس کرنا پڑتا تھا شاید اس لئے اس کو چھل گان کہا جاتا تھا اور بعد میں سلگان بن گیا ، یا ہو سکتا ہے کسی نے پانی کی فراوانی کو دیکھ کر بروشاسکی میں کہا ہو کہ چھل غان یعنی پانی کو دیکھو جو بعد میں ہییت تبدیل کر کے سلگان بن گیا ہو ، واللہ عالم بالصواب، اس کی حد بندی نو سلوغ یعنی دریا نازبر یا نازبر کے ندی سے اور دریا پار ،حل غش سے شروع ہو کر درکوت تک کے علاقے اس میں شامل تھے اور اس علاقے میں دریا اور ندی نالوں کی کثرت ہے شاید اس وجہ سے بھی اس کو سلگان کہا گیا ہو، اور اُس وقت اِس حلقے میں طاوس، غوجلتی، ہویلتی ( سلطان آباد) سندی ، قرقلتی، برکولتی ہندور، املثت اور درکوت شامل تھے لیکن موجودہ حالات میں اِس حلقے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور حلقہ نمبر دو یا حلقہ سلطان آباد، جس میں طاوس، سلطان آباد ، غوجلتی، سندی اور قرقلتی کو ملا کر حلقہ سلطان آباد یا حلقہ نمبر د و بنایاگیا ہے اوربرکولتی ہندور، املثت اور درکوت کو ملا کر حلقہ نمبر تین یا سلگان کا نام دیا گیا ہے۔

سلگان کے گاوں: تھما رائے، پار برکولتی، برانداس، برکولتی ، سلپے، شیخے تن، پرپٹنگ ، ہندور، بروکوت، ترثت، سوپٹنگ داس، اُملثت ، دیر یارے، منا ہر، مورونگ، درکوت ، گر تنج اور غصوینگ پر مشتمل ہیں

سلگان میں بسنے والی قومیں:: ٹھلے، قرابیگے،لگاشرے،خوشوقتے،شکرتے،متیلے، قلد ینگے، ھلبی تنگے،غلبہ شیرے،بلیسے ،شکربیگے ، بیگلے ، قشقونے،بردوقے،خلیفہ تنگ)برگہے) شمونے،سیدذادہ، گوہی چو،گوجر، نصیرے،تاجی تنگ،قمبرے، بدالے ، وزیرے ، دشمنے، بولوقے ، کناوے اور ترکی۔ممو شینگے، ممونے، ذرگرے، وزیرے اور مشوقے، وغیرہ

سلگان بڑا مردم خیز علاقہ ہے یہاں بڑے نامور لوگ پیدا ہوے ہیں جن میں حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر ، موجودہ دورکا ہیرو سر فرست ہیں لالیک جان نے کارگل کے معرکے میں بہادری کے جوہر دیکھا کر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی عزاز نشان حیدر بعد از شہادت حاصل کیا تھا۔ ان کے علاوہ مشہور زمانہ تلوار باز دو سگے بھائی بڈول اور بدنگ جو کہ بر کولتی کے نامور قوم ہلبی تنگے اور غلبہ شیرے کے جد امجد ہیں ۔ ان دونوں بھائیوں نے راجہ گوہر آمان کے دور میں بہت سے معرکوں میں حصہ لیا اور نام کمایا اور خاص کر بیارچی کے معرکے میں ان دو بہادروں نے راجہ گوہر آمان کے میدان جنگ میں پہنچنے سے پہلے ہی ڈوگروں اور سکھوں کے پشتوں سے پشتے لگا کر ایک حیرت انگیز بہادری کا مظا ہرہ کیا تھا ۔ اسکے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ بد نگ نے اپنے بھائی بڈول کو دوران تیراکی تلوار کی وار سے بازو کاٹ کر دریا برد کر کے مار دیا تھا اور اسکی والدہ نے اس کی یاد میں گیت بھی گایا ہے جو بڑا مشہور ہے

یاسین کی مشہور بزرگ شخصیت سید کریم حیدر المعروف سید جلال کا تعلق بھی اسی علاقے کے ایک چھوٹے سے گاوں برانداس سے تھا۔ جنھوں نے ایک دیو اور اس کی بہن کو قابو کر کے لوگوں کو ان بلاہوں سے نجات دلایاتھا، کہتے ہیں کہ یہ بلائیں برانداس کے مقام پر رہتے تھے اور یہاں سے گذرنے والے لوگوں کو کھاتے تھے جب یہ بزرگ یہاں تشریف لائے اور لوگوں کی زبانی سنا تو اس مرد آہن نے مقابلہ کر کے دیو کو جب گرایا اور تلوار کی وار سے اس کا کام تمام کر نے ہی والے تھے تو اس دیو نے عرض کیا کہ مجھے مت مارے میں زندگی بھر آ پ کا غلام رہوں گا تو بزرگ نے اس شرط پر کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرے گا اور یہ کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور یہ جن کئی پشتوں تک ان کی خاندان کی خدمت کرتا رہا اس کا نام میرزہ کچٹ تھا اور پیر صاحب اس کو میرزہ پکارتے تھے اور سوائے اس خاندان کے گدی نشین کے کسی کو نظر نہیںآتا تھا اور اسکی بہن کو بل پھری کے نزدیک بد دعا دینے پر کہتے ہیں کہ پتھر بن گئی تھی اور باقلہ کے اناج کا کالے پتھر بننے کا بھی ذکر ہے ۔ ان بزرگ کی زندگی کے بارے میں مشہور لکھاری اور بروشاکی کے محقق میجر ڈاکٹر (ریٹا ئیرڈ) فیض آ مان کی تحریروں میں قاریئن کرام نے پڑھا ہو گا ۔ ان بزرگ کی اولاد میں سے دو بہت مشہور سیاسی شخصیت پیر کرم علی شاہ جو کے ایک عرصے تک گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر رہے اور پہلا چیف ایگزیکٹیو اور پہلاگورنر گلگت بلتستان رہ چکے ہیں اور دوسری ایک مشہور اور بزرگ بلکہ فقیر شخصیت سید فضل حسن شاہ المعروف شہزادہ بلبل جو کہ یاسین کے ایک ناقابل شکست سیاسی نمائندہ رہ چکے تھے جو کہ اب ، وفات پا چکے ہیں۔جوانی میں پولو بھی کھیلتے رہے ہیں اور کئی سال تک سکول میں پر ھاتے بھی رہے تھے، یہاں پیر سید جلال صاحب کے پوتے سیدخورشید شاہ کے الفاظ کوڈ کرنا چاہونگا جو کہ انھوں نے حال ہی میں فیس بک میں شیر کیا تھا ۔ (Vershgoom ki kahani(BARANDAS.)

Barandas is very old and hitorical place and being a residence of Pirs family. It is said that a saint Pir Syed Karim Hyder came here from Badakhshan in about 1550. The Pir also conquered a jin known as Mirza Kachat. The jin cut all jangles and brought apricot trees from the garden of Mir of Hunza at Altit. All these trees are rounded. It is said that the jin turn the plants by holding his hand and pulled out from garden.therefore these tries are turning shape. Yet these trees are safe and healthy and give fruit)

ان کے علاوہ اس علاقے کی مشہور شخصیت استادوں کا استاد جناب دادو خان صاحب جو کہ محتاج تعرف نہیں ۔ جنھوں نے ساٹھ کی دہائی میں گریجوشن کیا اور بی ایڈ کر کے شعبہ تدریس کو اختیار کیااور گلگت کا اکلوتا سکول گورنمنٹ ہائی سکول گلگت میں بطور مدرس مقرر ہوے آپ کے ہزاروں شاگرد بڑ ے بڑے عہدوں پر مقرر ہیں جن میں ڈاکٹر، انجینیرز، پروفیسرز، سکریٹیری، مدرس زندگی کے ہر شعبے میں آپ کے شاگرد ہیں اور آپ کا ایک لڑکا بھی ڈاکٹر ہیں ۔ البتہ سلگان سے دیکھا جائے تو میجر ڈاکٹر فیض آمان، جو کہ ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہو نے کے ساتھ ایک بہترین لکھاری اور تاریخی شخصیت ہیں اور بروشاسکی کو بری شاسکی ثا بت کر نے کے لئے اور بروشاسکی کے الفاظ اور بروشاسکی کو زوال پزیری سے روکنے کے لئے عرق ریزی کر رہے ہیں، معلومات کا ایک خزانہ ہیں بلکہ ایک انسائکلو پیڈیا ہیں اور آرمی سے پنشن آنے کے بعد آ غاخان ہلتھ سروسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور یاسین سے آنے والے مریضوں کی خصوصی طور پر خدمت کر تے ہیں،

ان کو یہ عزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی تین صاحبزادیاں بھی ڈاکٹر ہیں اور ملک پاکستان کی خدمات میں مصروف عمل ہیں ، ڈاکٹر محمد نذیر خان انھوں نے میٹر ک پاس کر نے کے بعد بطور یو ڈی سی، اے سی دفتر اشکومن سے اپنے کیریر کا آغاز کیا لیکن جلد ہی اصطفیٰ دے کر ملتان چلے گئے اور اعلیٰ نمبرات میں ایف ایس سی پاس کر کے نشتر میڈیکل کالج میں میڈیکل کی سیٹ پر داخلہ لیا اور ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کیا اور سول ہسپتال یاسین سے اپنا پیشہ ورانہ زندگی کا دوبارہ آغاز کیا اورکئی سال بعد آغا خان ہلتھ سروس میں شمولیت اختیار کیا اور بہت عرصہ مختلف مقامات پر مختلف عہدوں پر کام کیا اور پنشن آنے کے بعد فیملی ہلتھ جوٹیال گلگت میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، ڈاکٹر گل سمبر خان نے بھی نشتر میڈیکل کالج سے ہی ایم بی بی ایس کیا اور آج کل بیرون ملک مقیم ہیں، ماسٹر افضل، سید ولی، شفیع محمد، فرید خان، انجینیر مہتر جان جو کہ ایک سوشل ورکر بھی ہیں اور یاسین سوسائیٹی بنانے میں اہم کردار رہا ہے اور ان کو بھی یہ عزاز حاصل ہے کہ ان کی صاحب زادی یاسین کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہیں، ڈائریکٹر ایجو کیشن شہباز خان، ڈاکٹر عنایت باز اور بہت سے لوگ دادو خان صاحب کے شاگرد ہیں، درکوت کے مشہور زمانہ پہلوان باردم برادران ، نعمت اور لنڈا ہور بہت مشہور پہلوان رہ چکے ہیں ۔ جن کے بارے میں حال ہی میں فیض آمان صاحب نے ایک چھوٹا سا پیراگراف لکھا تھا۔، لفٹننٹ (ریٹائرڈ) آدینہ خان سلپے، جو کہ ایک سوشل ورکر بھی ہیں اور یاسین ( پرنس سوسائیٹی) بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یا سین سوسائٹی کے بانیوں میں سے ہیں اور ان کو یہ عزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے پاکستان آرمی میں بطور سپاہی کلرک اپنی کیریر کا آغاز کیا اور اپنی قابلیت محنت اور دیانت داری کی بدولت تمغہ خدمت پایا اور آنریری لفٹننٹ کے عہدے تک پہنچ کر اپنی پیش وارانہ زندگی سے پنشن حاصل کیا جو کہ یاسین کاپہلا آنریری لفٹننٹ ہیں ، اس کے علاوہ ان کو یہ بھی عزاز حاصل ہے کہ ان کے دو بچیاں ڈاکٹر اور ایک بچہ آرمی میں کمیشن افیسر ہیں اور ایک بھائی ڈاکٹر شیر باز خان ہیں اور آغا خان ہسپتال کراچی میں بطور ارتھو پیڈک ا ( ہڈیو ں کا ) اسپشلیسٹ خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایک بھائی بینکر ہیں ، ،صوبیدار مطا ئب شاہ،ا لعروف ایوب ، جو کہ ایک خاموش سیاسی شخصیت او ر سیاسی جوڑتوڑ کے بھی ماہر ہیں اور معروف سوشل ورکر ہیں یہ بھی پرنس سوسائٹی کے بانی ہیں ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یاسین کی پہلی ایم ایس سی خاتون ان کی صاحب زادی ہیں ان کا ایک بیٹا تحصیلدار ، ایک بینکر اور ایک پاکستان ایر فورس میں کمشن افیسر ہیں جو کہ انجینیر ہیں۔ سول انجینیر فرمان علی خان جو کہ تھوئی سے ہجرت کر کے پار برکولتی میں آباد ہے ایک بہترین خدمت گذار اور ملنسار اور پر خلوص شخصیت کے مالک ہیں اور اپنی قابلیت ، محنت اور دیانت داری کی وجہ سے ترقی کر تے ہوے چیف انجینیر کے عہدے تک پہنچے ہیں اور انکی اہلیہ ثروت حفیظ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں ا ور اسسٹنٹ ڈائر یکٹر ایجوکیشن ہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال ایک قابل اور نہایت محنتی اور سوشل ورکر بھی ہیں انھوں نے انیمل ہسبنڈری میں ڈ گری حاصل کیا پھر AKRSP میں کئی سال تک خدمات انجام دیتے رہے اور آج کل بھی کسی این جی او میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، وکیل وزیر شفیع جو کہ ایک معروف سیاست دان بھی ہیں اور بروشاسکی کے بنیادی حروف تہجی پر ایک کتاب بھی لکھا ہے اور بروشاسکی کے بارے میں اہم کام کر رہے ہیں اور یاسین کے تاریخ پر گہرا نظر رکھتے ہیں، بشارت شفیع بروشاسکی کے معروف شاعر ہیں، سکریٹری رحیم پناہ جو کہ خلیفہ بھی تھے، جنھوں نے اسماعیلی کونسل میں بطور سیکریٹری بہت خدمات انجام دیئے اور شاہ کریم ہاسٹل بنانے والوں میں یاسین کی نمائندگی کیا، سوشل ورکر اور مدرس، رشید جو کہ سلپے کا رہنے والے ہیں اور اسماعیلی کونسل کا صدر بھی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ایک نہایت شریف اور دیانتدار شخصیت ہیں اسماعیلی کونسل میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں، بہادر علی آف سلپے جو کہ ایک ماہر تعلیم ہیں اور اعلیٰ تعلیمیافتہ ہیں اور اپنی قابلیت اور دیانت داری کے ساتھ ساتھ آغاخان ایجو کیشن کے ساتھ مخلصی کی وجہ سے آغاخا ایجو کیشن سروس کے جنر ل منیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ مشہور عالم دین اخوند سید الفت شاہ جو کہ پاکستان بننے سے پہلے بدخشان سے ہجرت کر کے یاسین برکولتی میں آباد ہو ا اور عوام کی بڑی خدمت کیا ان کے تین بچے نصرت خان، عارف خان، بطور عالم خدمات دے رہیں ہیں اور غالب شاہ جو کہ لیکچرار ہیں، ماسٹر نیاز، ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں اور آغا خان یونیو ر سٹی سے ایم ایٖڈ کر چکے ہیں، ماسٹر رحمت جان بھی ایک نہایت شریف اور قابل ٹیچر ہیں او ر ا نھوں نے بھی آغا خان یونیور سٹی سے ایم ایڈ کیا ہے، ، تحصیلدار شفقت اور نیت جان ، کاکا جان ایک ماہر تعلیم بھی ہیں اور ایک قابل اور دیانتدار شخصیت ہیں ، نیت بھادر بھی ایک ماہر تعلیم ہیں۔ ڈسپنسر سلطان حاضر خان المعروف ڈاکٹر سلطان حاضر جو کہ ایک مشہور ڈسپنسر ہیں انھوں نے بھی فیض اللہ المعروف ورکر کی طرح یاسین کے لوگوں کی بڑی خدمت کیا ہے اور ایک بہترین معالج ہیں ۔

برکولتی سے درکوت تک بڑے مشہور لوگ جن میں سے کچھ کا تو اوپرذکر آگیا اور کچھ یہ ہیں، حاکم ہدایت خان ہلبی جو کہ دادو خان صاحب کا دادا تھا، دادوصاحب کے والد جہاندار خان جو میچو کے نام سے مشہور تھے ، نمبر دار ایماندار خان المعروف خان حوالدار ، ماسٹر میر اعظم ایک مشہور مدرس اور سیاسی شخصیت تھے اور پولو بھی کھیلتے تھے ، تتی خان ایک زیرک سیاسی اور سوشل ورکر ، اور ایک فیصلہ ساز شخصیت تھے ، سوشل ورکر حاضر شاہ المعروف بلبل ماموں جو ایک مشہور شخصیت ہیں انھوں نے کواپرٹیو سوسائٹیاں کئی بار قائم کیا جن کو ولجیٹ کہا جاتا تھا جو شاید ، ولیج ایڈ سے میر ے خیال میں بگڑ کر ولجیٹ بن گیا تھا اسکے علاو آغا خان رورل سپورٹس پروگرم کے اشتراک سے تنظمیں قائم کیا جاکر لوگوں کی معیار زندگی کو بلند کرنے اور مختلف پرگراموں کے ذریعے علا قائی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یاسین کے عوام کو تجارتی فصلیں اگانے ،فرانسیسی سیب اور ان کو مارکیٹ تک پہنچانے کا طریقہ کار بھی حاظر شاہ المعروف بلبل ماموں نے دیا ، ان کویہ بھی عزاز حاصل ہے کہ ان کی محنت ا ور حکمت عملی کی وجہ سے بر کولتی کے عوام کی ایک بڑی تعداد ، ایک بہت بڑا علاقہ آباد کر کے بہت ساری زمین کے مالک بن گئے ہیں، نمبردار خدا مدد خان جو کے غلبہ شیرے قوم کا یک مشہور شخصیت تھے، اتالیق غفران غلبہ شیرے، جس نے ایک سال یاسین میں بطور راجہ حکومت بھی کیا، ان کا بیٹا بڈول بھی ایک مشہور شخصیت ہیں اور ایک بیٹا دسرو خان جو کہ سوشل ور کر اور ایک بہترین مدرس ہیں ، نمبردار دادا، مشہور پولو کھلاڑی حاضر شاہ، اسکیم نصیرے ، نائب صوبیداردور عالم، نمبر دار گل مدد ہندور، میکی شیلی خان بر کولتی ، رجب خلیفہ جو کہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ پولو کا بھی کھلاڑی تھا، خود ساختہ جلاو طن سیاسی شخصیت عبدل حمید، حوالدار بلبل نظر خان، سابقہ چیر مین یونین کونسل سلگا ن دوستان شاہ المعروف موتی ، ممبر رحیم داد المعروف تاتولی خان، ماسٹر شاہ محمد ناصر خان، عبد ل مراد جو کہ چٹ راسن کے نام سے مشہور ہیںِ ، مو کھی شاہ محمد، خلیفہ نذیر ، غلام جان قرا بیگے ، مقصود جان، دینار بیگ ،جا نو پولو کھلاڑی ، ،سوشل ورکر سناور خان سلپے سے تعلق رکھتے تھے ان کا بھی بلبل ماموں کے ساتھ ولیج ایڈزکے قیام میں ایک اہم کردار رہا ہے اس کے علاوہ ایک منجے ہوے سیاست دان بھی تھے اور یونین کونسل کے ممبر کی حثیت سے خدمات انجام دیتا رہا ہے اور اسماعیلی کونسل کے بھی ممبر بہت عرصے تک رہا ہے ، محمد رسول خان المعروف بیوغ ولد نمبردار خدا مدد جس نے ولجیٹ میں بہت عرصہ عوام کی خدمت کرتا رہا، حوالدار گل سمبر خان جو کہ حوالدار شہید نشان حیدر کے بھائی ہیں اور ایک مخلص انسان اور بہترین سوشل ور کر بھی ہیں ، مستری خان بر کولتی، ترک خلیفہ بھی ایک عالم دین تھے، مشہور عالم حسن مشنری کا تعلق پر پٹنگ سے تھا، جانو کا تعلق شیخے تن سے تھا،کاروباری شخصیت ایوب المعروف تایو، سابقہ چیرمین یونین کونسل سلگان شکرت علی ، چیرمین ہمت امان، سوشل ورکر ماسٹر نیت امان، سابقہ کونسلر امین بیگ، ماسٹر ایوب آف درکوت،میرزہ امان شاہ، نمبردار جان محمد، نمبردار جہاندار شاہ، برق بوئی، سوپٹنگ داس کا سید ، قبول بیگ ، حوالدار رستم بیگ جو کہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور یہ بھی پرنس سوسائٹی کے بانیوں میں شمار ہو تے ہیں اور مشہور کاروباری شخصیت اور سوشل ورکر سلیمان آف درکوت جو کہ پرنس سو سایٹی کے بانی ممبران میں سے ہیں، دوکاندار مراد جان جو کہ ایک سوشل ورکر بھی ہے اور یہ بھی پرنس سو سائیٹی کے بانی ممبران میں شمار ہو تاہے، صوبیدار عسےٰ امان،مدرس محمدعسٰے، ،ا، خلیفہ وزیر سلپے ، صوبیدار تھنت شاہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور یہ بھی پرنس سو سایٗٹی کے بانیوں میں ہیں ، ڈرائیور پنین اور بیگ، ڈرائیور سنگین خان جو کہ ایک ٹریکٹر کی کنڈکٹری اور پھر ڈ رائیونگ سے اپنا پیشے کا آغاز کیا اور اب اپنی ویگن ٹرانسپورٹ سروس شروع کیا ہو اہے اور کاروباری لوگوں میں شمار ہو تاہے علاقے میں ہر شخص ان کو جانتاہے ، حوالدار سرفراز بھی ایک سیاسی اور سوشل ورکر ہے اور یہ بھی پرنس سوسائیٹی کے بانیوں میں شامل ہیں، مایون المعروف ڈکوال جو کہ ایک معروف شخصیت ہیں اور پورے وادی میں ڈاکوال کے نام سے مشہور ہیں، دالو خان ولد نمبر دار خدا مدد خان ایک نہایت سادہ اور فقیر شخص ہیں۔ جن کو تمام لوگ نمبردار کہتے ہیںِ ،

یہاں ایک بات جو کہ صرف سلگان کے حصے میں آتا ہے کہ وادی یاسین کا پہلا گریجویٹ ماہر تعلیم ، دادو خان صاحب ہیں ، پہلا ایم ایس سی خاتون قمر بی بی ہندور اور پہلا ڈاکٹر اور کمیشن ٓفیسر فیض امان برکولتی کا تعلق بھی علاقہ سلگان سے ہے اور پہلی خاتون ڈاکٹر ملکہ صباء کاتعلق بھی سلگان سے ہے۔ اسی طرح پہلی خاتون پی ایچ ڈی نسرین بی بی بھی سلگان کی ہیں۔ اور ان کا تعلق بھی ہلبی تنگے قوم کی معروف اور اعلیٰ تعلیم  یافتہ خاندان سے ہیں ، ان کے والد قوت خان ایک معروف شخصیت تھے اور خوش قسمت بھی کیو نکہ ان کے گھر سے تین نامور ڈاکٹر اور ایک یاسین کا پہلا پی ایچ ڈی خاتون یا سین کے نام کو روشن کر رہے ہیں اور ایک نرسنگ ( ڈسپنسر) بھی اسی گھر انے سے تعلق رکھتا ہے اور یاسین کا پہلا بنک منیجر محمد ناصر خان کا تعلق بھی برکولتی سلگان سے ہے جو کہ ایک مشہور شخصیت ہیں اور ایک انتہائی دیانت دار اور مخلص انسان ہیں ان کے والد جوہر علی خان ایک مشہور اور ایک شریف اور دیانت دار کاروباری شخصیت تھے۔ جہانی حوالدار ، جن کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھوں نے اروندو کی لڑائی میں حصہ لیا تھا جو کہ ۱۹۳۹ء ؁ میں افغانستان کے ساتھ لڑی گئی تھی واللہ عالم ابصواب ، کہا جاتا ہے کہ یاسین کا شاید پہلاحوالدار تھے، سلگان کے جن سپو توں نے ۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی گلگت بلتستان میں حصہ لیا تھا یہ ہیں حوالدار میرزہ محمد جو کہ مشہور ڈاکٹر فیض امان کے والد تھے، دنیار خان سلپے جو کہ لفٹننٹ �آدینہ خان ( ریٹائرڈ) کے والد تھے، نیت خان المعروف ڈو ڈو، سمندر خان، نمہ کی اور بلاور خان، جوہر بیگ ماسٹر افضل کاوالد، دور نیاب ، داد المعروف دت بپ جو کہ تھوئی سے ہجرت کر کے ہندور میں آباد تھے ، وغیرہ، ان جیسے ہیرووں کی قربانی سے گلگت بلتستان کو آزادی نصیب ہوئی

سلگان میں سکول جانے والے بچوں کی تعلیم کا تناسب ۷۶ فیصد اور ملازمت کا تناسب ۲۱ فی صد ہے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی شرح ملازمت اس طرح ہے۔ سلگان کی کل آبادی ۱۴۴۶۹ اور کل گھرانے ۱۴۹۰ ہیں، کل مدرس (ٹیچر) ۱۶۲ ، آرمی پر سنل ۵۸۶ ، پنشنر کی تعداد ۶۴۳ اور کمشن افیسر کی تعداد ۵ ہے،اس طرح پرائیویٹ سیکٹر میں ۸۳۹ لوگ ملازم ہیں اور سرکاری ملازموں کی تعداد ۵۳۵ ہے ایم اے ایم ایس سی ۱۳۵، بی اے بی ایس سی ۱۴۳ ، ایف اے ایف ایس سی ۲۳۴اور میٹرک پاس ۱۳۶۲ ، ڈاکٹر ۱۳ ، انجینیر ۸ ہیں۔

سلگان کے لوگوں کا بھی گذر اوقات زیادہ تر کھیتی باڑی پرہے ،لیکن آج کل کھیتی باڑی کے علاوہ ملازمتوں کے ذریعے زندگی کے بلند معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اور بہت سے لوگ کاروبار سے بھی منسلک ہیں اور اسی طرح ایک بڑی تعداد بیرون ملک بھی بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔

درکوت کا گرم چشمہ اور سلپے بر کا کڑوا پانی کا چشمہ بھی اسی علاقے میں ہیں ، دونوں چشمے اپنی علاج معالجے کی سہو لتیں اس وقت بھی لوگوں کو بہم پہنچاتی ہیں یعنی آ ج بھی ان دونوں چشموں سے بیمار استفادہ کر تے ہیں اور شفا یاب بھی ہو تے ہیں ۔ درکوت کے گرم چشمہ کے بارے میں میرا ایک مضمون پہلے ہی شائع ہو چکا ہے

علاج معالجے کی سہولت کاپورے وادی یاسین کی طرح یہاں بھی فقدان ہے اور ایمر جنسی کی صورت میں ڈاکٹر ہی میسر نہیں ہوتے اور پورے علاقے میں صرف تین ڈسپنسریاں ، ایک برکولتی میں ، دوسرا اُملثت گاوں میں، اور تیسرا درکوت میں ہے ، جہاں دوائی مشکل سے ہی ملتاہے اورعلاج بھی ڈسپنسر یا نرسنگ کر تے ہیں اور یہی ان علاقوں کے ڈاکٹر اور مسیحا ہیں۔ ایک آغا خان ہلتھ سنٹر ہندور میں ہے جو ،زچہ بچہ کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کے لئے بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور بچوں اور ماوں کو حفاظتی ٹیکوں کابھی مرکز ہے ۔

ہندور میں ایک ہسپتال لالیک جان شہید کے نام سے قائم کیا گیا ہے جہاں ایک میڈیکل آفیسر بھی تعینات کیا گیا ہے۔

سکول : گورنمنٹ کی پانچ سکول اس وادی میں کام کرتے ہیں جن کی ترتیب یوں ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول ہندور، گورنمنٹ پرائمری سکول برکولتی بالا، گورنمنٹ پرائمری سکول برکولتی پائین، گورنمنٹ پرائمری سکول درکوت، گورنمنٹ پرائمری سکول اُملثت، اسی طرح ڈی جے سکولوں کی تعداد چھ ہیں جو بالترتیب ، ڈی جے پرائمری سکول برکولتی ، ڈی جے پرائمری سکول املثت ، ڈی جے مڈل سکول درکوت، ڈی جے پرائمری سکول گرتنج، ڈی جے ہائی سکول ہندور، اور ڈی جے لرننگ ریسورس ہائی سکول برکولتی، ۔ ایک آرمی پبلک سکول لالیک جان شہید نشان حیدر کے گاوں میں قایم کیا گیا ہے اور ایک پرائیویٹ ورلڈ روف ہائی سکول ہندور میں ہے اور ایک بروشال پبلک سکول برکولتی کے علاوہ نیشنل ایجوکیشن فونڈیشن کے ۷ سکول اس طرح سے ہیں جن کو ( سوشل سکول ) بھی کہتے ہیں اور جن کو شاید SAP سکول بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سکول برکولتی پائین، امین آ باد، شیغے تن،ہندور، اُملثت، ترست، اور غسوینگ درکوت میں قائم کئے گئے ہیں ۔

سکول جانے والے ۵۵ فیصد بچے ڈی جے سکولوں میں پڑھتے ہیں، اور ۴۵ فیصد بچے گورنمنٹ ، نیشنل ایجوکیشن فونڈیشن سکول اور پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں اور فقد عشاریہ صفر ایک فی صد بچے جو کسی معزوری یا والدین کی عدم توجہی کی وجہ سے سکول تک رسائی نہیں پا سکتے ۔

مشہور مقاما ت :

مزار لالیک جان شہید نشان حیدر ہندور :

لالیک جان شہید نشان حیدر کارگل کی لڑائی میں بہادری کے کارنامے کی وجہ سے نشان حیدر کا عزاز بعد شہادت پایا اور ان کا مقبرہ انتہائی خوبصورت طرز پر تعمیر کیا گیا ہے اور ہزاروں سیاح اور زائیرین ان کی مزار پر حاظری دیتے ہیں اور خرا ج عقیدت پیش کرتے ہیں

بل پھری :

یہ سلگان کا احاطہ اور سلطان آباد کے حلقے کی حدبندی پر ایک میٹھا پانی کا چشمہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دریا ئے سلگانوغ پر ٹراوٹ مچھلی کا شکار کھیلنے بھی لوگ آتے ہیں

تھما رائے:

اس جگہ اس راجہ یا بادشاہ کا قلعہ تھا جو آدم خور بلکہ شیر خواربچوں کو کھانے کی وجہ سے مشہور تھا اور اس کو یہاں کی عوام نے اس کی اپنی کھدوائی ہوئی خندق میں زندہ در گور کر کے مارا تھا تھمے رائے کا مطلب راجے کی مرضی سے اس جگے کا نام تھما رائے پڑ گیا ہے۔

کھنے بش:

اس جگہ راجہ میر ولی کا قلعہ تھا، کھن بروشاسکی میں قلعے کو کہا جاتاہے اور بش پل کا کہا جاتاہے چو نکہ اس جگہ میر ولی کے قلعے کی کھنڈرات تھیں اور آج کل یہاں سکو ل بھی ہے اور دریا پر پل ہے اس لئے کھنے بش کہا جاتا ہے یعنی قلعے والا پل۔

شواران ( ڈوڈول تھمے کھن) اس جگہ ڈوڈول راجے کا قلعہ تھا اب کھنڈرات بھی نا پید ہیں البتہ یہاں ایک پولو گراونڈ ہے جس کو بروشاسکی میں شوارن کہا جاتا ہے

قر غیضے کھن ( ہلبی تنگے دھ) برکولتی: اس جگہ اب بھی ایک برجی ہے ، کہا جاتا ہے کہ یہا ں قر غز کی فوج نے قبضہ کر کے ایک قلعہ بنایا تھا جو اب صرف برجی کی صورت میں یاد گارباقی ہے۔

سو ملکے کھن ہندور : کہا جاتا ہے ہندور میں سو ملک کا قلعہ تھا اور اب کچھ کھنڈرات کے نشانات باقی ہیں

دربند درکوت: اس جگہ فوجی نقطہ نظر سے ایک اہم جگہ تھا جو کہ دیوار یں اونچی کیا جاکر دفاع کیا گیا تھا اور فوجی چوکی ہو تااتھا اب گری ہوئی دیواروں کی نشانات باقی ہیں۔

درکوت کا گرم چشمہ: یہ گرم پانی کا چشمہ ہے جو سالانہ ہزاروں لوگوں کی مختلف جلدی ، اور جسمانی بیماروں کی شفا یابی کا باعث ہے ۔ اور یاسین کے علاوہ گوپس، پونیال اور اشکومن سے لوگ جون سے ستمبر تک قطار اندر قطار آتے رہتے ہیں۔

سلپے بر کا کڑوا چشمہ جو کہ موسمی بخار کا اکثیر ہے ہزارو لوگ سالانہ اس چشمے سے استفادہ حاصل کر تے ہیں جو کہ یاسین کے علاوہ گوپس ، پونیال اور اشکومن کے علاوہ دور دراز سے لوگ اس چشمے کے پانی کو پینے کے لےء گرمیوں کے موسم میں آتے رہتے ہیں

برانداس: یہ وہ مقام ہے جہا ں ایک بزرگ پیر سید جلال نے ایک دیو اور اس کی بہن کو قابو کر کے یہا ں سے گذرنے والے راہگیروں کو ان بلاہوں کی خوراک بننے سے بچایا تھا اور اس جن جس کا نام میرزہ کچٹ تھا سے صدیوں تک اس خاندان کے غلامی میں رہا تھا ۔ اور اس بزرگ اور ان کی اولاد جائے سکونت کے علاوہ ان بزرگوں کی زیارتیں بھی ہیں ،

گرمش بر: برکولتی والوں کا گرمائی چراگاہ ہے اور اونچی اونچی چو ٹیوں اور جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے سینکڑوں کوہ پیما ادھر رخ کر تے ہیں

غمو بر درکوت: غمو بروشاسکی میں غمو ککر ( سخت برف) یا گلیشیر کو کہا جاتا ہے یہ بھی گرمائی چراگاہ ہے لیکن اپنی میلوں پر پھیلی ہوئی گلیشیر کی وجہ سے مشہور ہے اور سینکڑوں لوگ اس گلیشیر کو سر کر نے آتے ہیں،

درہ درکوت:ا سے درہ بروغل، درہ ویخان بھی کہا جاتاہے جو کہ یاسین کو بروغل کے زریعے وخان سے ملاتا ہے

درہ درکوت اشکومن ، یہ درہ یاسین کو اشکومن سے ملاتی ہے ، درہ درکوت دسپر جوکہ درکو ت کو تھوئی سے اور چترال سے ملاتی ہے ۔

ذرایع آمد و رفت: گلگت سے پرائیویٹ ویگن، جیب اور کاروں کے ذریعے براستہ پونیال گاہکوچ، گوپس یاسین سلطان آباد ، سلگا ن کے

آخری گاوں درکوت تک رسائی حاصل ہے ، ہندور تک ایک پکی سڑک ضرور ہے لیکن اس کی حالت زار قابل رحم ہے لیکن ہندور سے درکوت تک کچی سڑک ہے لہٰذا حکومت اور یاسین کے سیاسی لوگوں کو چاہئے کہ اس علاقے کی پسماندگی کو دور کر نے کے لئے سڑکوں کی حالت کو درست کر نے کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کے لئے ہسپتال اور ڈاکٹروں کا بھی بندوبست کرے ۔ فوجی فونڈیشن کے حکام بھی تھوڑا، اس علاقے کی طرف توجہ دیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی عزاز نشان حیدر بھی اس سر زمین کے ایک سپو ت نے حاصل کیا ہے اسلئے فوجی فونڈیشن والے بھی کوئی سکول اور کم از کم ایک ڈسپنسری اور ڈاکٹر کی تعینات اس علاقے میں کریں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button