کالمز

غذر کی موجودہ صورتحال میں صحافیوں پر تنقید کیوں؟؟

تحریر: نعیم انور

سیکورٹی اداروں کی طرف سے ضلع غذر میں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کے حوالے سے بار بار الرٹس جاری ہونے اور آئی جی گلگت بلتستان کی طرف سے بی این ایف (حمید گروپ ) پر لگائے گئے الزامات اور گرفتار ملزمان کی تفتیش میں اہم انکشافات کے دعویٰ کے بعد ملک بھر اور بیرون ملک مقیم ضلع غذر کے نوجوان گہری تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ برسوں سے امن کا گہوارہ سمجھنے والی شہیدوں کی سرزمین ضلع غذر پر اب نقص امن میں خلل ڈالنے کے مبینہ طور پر مرتکب افراد کے باعث مختلف قسم کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔حالیہ دنوں ضلع غذر کے امن کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال پیدا ہونے اور سیکورٹی اداروں کی طرف سے ضلع غذر میں تخریب کاری کے واقعات رونما ہونے کے پہ در پہ اطلاعات اور خدشات کے بعد ضلع کے پڑھے لکھے نوجوان طبقے نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے سو شل میڈیا پر دلچسپ کمنٹس،تجزیوں ،تبصروں اور خبروں کی دھوم مچائی دی ہے۔

سوشل میڈیا پر بحث ومباحثہ کرنے والے ضلع غذر کے مختلف گروپس نے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر شدید تنقید کی ہے وہی پر ضلع غذر میں سیکورٹی کے ناکافی اقدامات اور ریزرو فورس کی گلگت واپسی پر بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف ضلع غذر کی صحافی برداری پر بھی کڑی تنقید کرتے ہو ئے صحافت پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جانب داری کے القابات سے بھی نواز ا جا رہا ہے جبکہ انتظامیہ کی طرف داری کرنے کے بھی خوب الزامات لگا ئے جارہے ہیں۔غذر کی صحافی برداری کے کردار اور فرائض منصبی پر تنقید نوجوانوں کا بلا شبہ حق ہے۔ اگر کو ئی ایکآدھ صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی میں غفلت کا مظاہرہ کررہا ہے یا کسی حوالے سے خوف زدہ ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ پوری صحافت یا ضلع غذر کے تمام صحافی برداری اس میں برابر کے شریک ہیں ۔ کیونکہ ضلع غذر میں خدمات سر انجام دینے والے صحافی برداری کی اکثریت محدود وسائل اور بے شمار مشکلات کے باوجود ملک کے دیگر صحافیوں سے بڑھ کر اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ سو شل میڈیا پر گلگت بلتستان کی صحافت پرتنقید کرنے والے نام نہاد تبصرہ نگار وں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بالخصوص ضلع غذر اور بالعموم گلگت بلتستان کا میڈیا ابھی اتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوا کہ وہ معاشرے میں ہونے والے تمام تر مسائل اور خرابیوں کا اکیلا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے۔ البتہ اتنا کمزور اور بے حس بھی نہیں کہ عوام کی ترجمانی میں کو ئی کسر باقی رہ جائے یا کسی کا آلہ کار بنیں۔ صحافت اور خاص کر ضلع غذر کے صحافی برداری کی خدمات کو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا اور صحافیوں کی کمزوری،کوتاہی اور غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ کی نشاندہی اور رہنمائی بھی ہو نی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم ضلع غذر کا پڑھا لکھا طبقہ جو اپنے آپکو کریم اور ذہین سمجھتے ہیں وہ بھی ضلع میں پائیدار امن ،بھائی چارگی اور ضلع میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خاتمے کیلئے اپنے حصہ کی زمہ دار ی نبھانے کی کوشش کریں۔ اس کی بجائے لاکھوں میل دور صرف اپنی ذات کی حد تک روزگار کمانے والے افراد کی زبان سے بغیر تحقیق اور ثبوت کے سوشل میڈیا پر صحافیوں کی کردار کشی اور کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ یہاں پر ختم جانی چاہیے۔ تیسری طرف بی این ایف ( حمید گروپ)کے حوالے سے چلنے والی خبروں نے بھی ضلع غذر کے عوام کو سخت زہنی ازیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ضلع غذر میں۹۹ فیصد لوگ ریاست کے وفادار ہیں اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے غذر کے عوام کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ شہداء کی سر زمین سے لیکر لالک جان (نشان حیدر ) تک کی داستان سے ملک کا بچہ بچہ اگاہ ہے۔ مزید قربانیوں کی داستاں کا ذکر کرنا اپنی منہ میاں میٹھو بننے کا مترادف ہو گا۔ حمید گروپ انڈیا کا آلہ کار ہے یا نہیں تبصرے میں نہیں پڑناچاہتا ہوں البتہ ریاستی مختلف اداروں کا کام ریاست کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو بے نقاب کرنا اور اصل حقائق کو عوام کے سامنے لا نا ہے مگر اس آڈ میں ضلع غذر کے عوام کو پریشان کرنا اور فرد واحد کے قول وفعل کو پورے ضلع سے منسوب کرکے منفی پر وپیگنڈہ کرنا اورعوام غذر کو ریاست مخالف سمجھنا اور نیشنل میڈیا پہ ضلع غذر پر ریاست مخالف ہونے کا تصور دینا ہماری ستر سالہ عظیم قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہوگا۔

ضلع غذر کے عوام سی پیک منصوبے کو کامیاب کر کے ملک کے دیگر لوگوں کی طرح اس کے ثمرات سے مستفید ہو نا چاہتے ہیں مگر گزشتہ کچھ مہینوں سے سیکورٹی اداروں کی طرف سے بار بار سیکورٹی الرٹس جاری کرنا ،ضلع غذر کے عبادت خانوں میں تخریب کاری کے خطرات کے خدشات کا اظہار اور حمید گروپ کے انڈیا کے ساتھ روابط جیسے سنگین معاملات اور صوبائی حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی اور سیکورٹی اداروں کی طرف سے سیکورٹی کی ناکافی اقدامات جیسے مسائل نے عوام الناس کو خوف وہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ محکمہ داخلہ کی طرف سے الرٹس جاری کرنے کے بعد سیکورٹی اداروں کو ضلع غذر میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے جس طرح کے غیر معمولی اقدامات اُٹھائے جانے چاہیے تھے وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ الرٹس جاری ہونے کے ساتھ ہی غذر کے داخلی و خارجی راستوں پر جی بی سکاوٹس کی تعیناتی عمل میں لاتی مگر حکومت نے ریزرو فورس کے چند پولیس جوانوں کو دیکھاوے کی حد تک ضلع غذر بھیج کر خود کو بری الزمہ ٹھہرانے کی کوشش کی ہے جو تازہ ترین اطلات کے مطابق چند ہفتے غذر میں قیام کے بعد واپس گلگت بلوائے گئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے عبادت خانوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کیلئے لوکل رضاکاروں کی خدمات تو حاصل کی ہیں مگر بغیر اسلحہ اور پر اپر ٹرینگ کے رضاکاروں کی سیکورٹی بے سود اور خانہ پوری کے سوا کچھ نہیں۔ ۔ہم صوبائی حکومت اور سیکورٹی اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ضلع غذر کو ملنی والی دھمکیوں اور تخریب کاری کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف الرٹس جاری کرنے کی بجائے فول پروف سیکورٹی کے انتظامات کیے جائے اور ضلعی انتظامیہ کو درکار وسائل کی فراہمی میں لیت و لعل سے کام لینے کی بجائے انھیں تمام تر وسائل فراہم کیے جائے اور سب سے بڑھ کر ضلع غذر میں خفیہ ادروں کے نیٹ ورک کو مذید متحرک کرے تاکہ تخریب کاروں اور ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر ضلع کے مثالی امن برقرار رکھا جا سکے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button