کالمز

تارگٹڈسبسڈی اور وزیر اعلی کا ویژن

تحریر: فیض اللہ فراق۔

گلگت بلتستان کو گندم پر دی جانے والی سبسڈی کی تاریخ کا آغاز 1970کی دہائی سے ہوتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے خطے کی متنازعہ حثیت اورعوامی مطالبے پر اشیائے خوردونوش کے کچھ اشیاء سمیت گندم پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔1970کی دہائی سے پہلے گلگت بلتستان کے کسانوں اور مکینوں کے پاس مقامی سطح پر گندم اور مکئی پیدا کرنے کی صلاحیت اور اہلیت موجود تھی۔ اُس زمانے میں ضلع غذر کو سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ضلع غذر سے دیگر اضلاع میں گندم سپلائی ہوتی تھی۔ چونکہ نہ تو اُس زمانے میں قراقرم ہائی وے کا کوئی وجود تھا اور نہ ہی پنجاب سے رعایتی نرخوں پر گندم لانا ممکن تھا، نہ کوئی حکومتی جانب سے کسی قسم کی سبسڈی کا تصور تھا۔ایسے عالم میں بھی گلگت بلتستان کے عوام ذرعی خود کفالت سے بھرپور تھے۔ لوگوں کے پاس زرعی اجناس اور پیداواری اشیاء کا دوسرا کوئی متبادل نہیں تھا اس لیئے مقامی آبادی محنت کش تھے اور آج سے پینتالیس برس قبل ہمارے آباواجداداپنی محنت سے خود کفیل تھے اور خودانحصاری کے بہترین دور سے گزررہے تھے ۔ بدقسمتی سے جب گلگت بلتستان کے عوام کیلئے وفاقی حکومتوں نے گندم کی ٹرانسپورٹیشن پر سبسڈی دیا تب سے گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام گندم کے غلام بن کر رہ گئے اور محنت سے جی چُراتے ہوئے ایک خودانحصار قوم گندم کی محتاج بن گئی ۔2000کی دہائی میں اُس زمانے کی حکومت نے ٹرانسپورٹیشن کی مد میں وفاق کی جانب سے پاسکو کو ادائیگی نہ ہوئی جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی حکومت گزشتہ 15برسوں میں تیس ارب پاسکو کا مقروض ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے پاسکو گزشتہ سالوں تک جب جی چاہے قرضے کی آڑ میں گلگت بلتستان کیلئے گندم کی ترسیل وقتا فوقتا بند کرتا رہا ۔

گزشتہ سال وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے پرزور مطالبے پر وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کیلئے گندم سبسڈی کی مد میں وفاقی سطح پر سالانہ تقریبا6ارب سے زائد کا مستقل بجٹ مختص کیا گیا ہے جو ایک تاریخی کامیابی ہے۔ یہ امر بھی قابل تشویش رہا ہے کہ پنجاب اور کوہستان میں 6ہزار کی دستیاب فی گندم بوری گلگت بلتستان کے حدود میں داخل ہوکر 1200سو روپے کی بن جاتی ہے جس کی وجہ سے سبسڈی کی کوکھ سے ایک مافیا نے جنم لیا اور یہ کاروبار ہیروئن سے بھی مہنگا اور سود مند ثابت ہوا۔ سبسڈی کی آڑ میں محکمہ سول سپلائی کے بعض ذمہ دار گندم مافیا کے ساتھ مل کر ایک نئے کاروبار کا آغاز کیا اور سبسڈی کے مستحق افراد گندم سے محروم رہے۔ سبسڈی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ایک طاقتور مافیا کو ملا جبکہ اصل ٖغریب اور مستحق سبسڈی سے کلی طور پر محروم رہے۔ سابقہ ادوار میں حکومتوں نے اس اہم معاملے پر کبھی نہ غور کیا اور نہ ہی قوم کو خودانحصاری کا درس دیا بلکہ بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس حساس ایشو کی تہہ میں جاکر قوم کو اپنے پاوں پر کھڑی کرنے کی بجائے گندم پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوشیش کیا ۔2015میں گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعلی گلگت بلتستان نے تارگٹڈ سبسڈی کے نئے تصور کو فروغ دے کر مستحق اور اصل غریبوں کی رسائی سبسڈی کی گندم تک بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

بنیادی طور پر عوام کو یہ بات سمجھ میں آنی چاہے کہ تارگٹڈ سبسڈی کا مفہوم ہی غریبوں کی دہلیز تک رعایتی گندم پہنچانا ہے اور تارگٹڈ سبسڈی کے آغاز سے جہاں کاروباری مافیا کی دکانیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہونگی وہاں اعلی طبقہ کو بھی گندم نہیں ملے گی ۔تارگٹڈ سبسڈی کے تصور کو کامیاب بنانے کیلئے ازسرنو سروے کیا جائیگا جس کے بعد عوام کو مختلف کیٹگریزمیں تقسیم کیا جائیگا ۔گریڈ 17کے آس پاس تمام ملازمین اور آفسران کو گندم سبسڈی نہیں ملے گی اورنہ ہی کسی وزیر اور مشیر کو رعایتی گندم ملے گی ۔تمام بڑے بڑے ہوٹلوں اور نان بائی کو رعایتی گندم نہیں ملے گی ۔وزیر اعلی کے وژن کے مطابق رعایتی گندم کے مستحقین کے اکاونٹ میں پیسے جمع کئے جائیں گے، مارکیٹ میں گندم پنجاب کے نرخ پر دستیاب ہوگی ،جبکہ مستحق افراد کو ان کے اکاونٹ میں پیسے آجائیں گے۔اگر مارکیٹ میں فی گندم کی بوری 6 ہزار میں دستیاب ہوگی تو تقریبا ساڑھے چار ہزار روپے ہر ماہ سبسڈی کے مستحق افراد کے اکاونٹ میں آئینگے۔ صوبائی حکومت پنجاب کی بجائے سبسڈی کی گندم مقامی کسانوں سے خریدنے کی حکمت عملی مرتب کرے گی اور اس عمل کو مزید مربوط بنانے کیلئے مقامی کسانوں کو گندم اُگانے کیلئے بیج بھی فراہم کرے گی۔ تارگٹڈ سبسڈی کو فعال بنانے سے گلگت بلتستان کا کوئی بھی غریب اور مستحق سبسڈی کی گندم سے دور نہیں رہے گا۔ بعض ناعاقبت اندیش تارگٹڈ سبسڈی کے خودانحصاراور شفاف تصور کو بھی سیاسی عینک لگا کر دیکھنے میں مگن ہیں حالانکہ انھیں تارگٹڈ سبسڈی کی روح سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے جس دن یہ منفی سوچ کے حامل افراد تارگٹڈ سبسڈی پر وزیر اعلی کے ویژن اور بصیرت کا اندازہ لگائیں گے اُس دن اُن کو ضرور ندامت ہوگی۔ یہ بات اہم ہے کہ تارگٹڈ سبسڈی کے حوالے سے سروے کسی قابل اعتبار اچھے ادارے سے کرایا جائے تاکہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی مستحق اس رعایتی عمل سے محروم نہ ہو۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button