کالمز

لفظوں کی پہلوانی۔۔۔۔۔۔

تحریر۔اسلم چلاسی

آج کل سوشل میڈیا پر انڈے ٹما ٹر پھو ڑے جا رہے ہیں کچھ با توں کے پہلوان قلم قبیلہ کے پیچھے ہا تھ دھو کر پڑے ہیں ۔ معا شرے میں مو جود تمام خرا فات کی بنیاد ایسے درویشوں کو قرار دیا جا رہا ہے جن کے پاس سوائے قلم قر طاس کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ کسی کے اچھے عمل کی تعریف کریں تو خو شامدی ہے ابن الوقت ہے اگر تنقید کریں تو ترقی کا دشمن ہے ہر شخص کی خواہش ہو تی ہے کہ ان کے حق میں ہی قصیدے گڑا جائے ۔چھو ٹے سے بڑے تک سبھی خد نما ئی میں لگے ہو ئے ہیں کہے کیچڑ اچھال کر تو کہے اپنا فلسفہ جہاڑ کر ۔۔حالانکہ بحیثیت شہری بچارے کو اپنے فرائض دوسروں کے حقو ق اخلاقیات اسلوب گفتگو کا زرا برابر بھی ادراک نہیں ہے اس کو معاشرے میں مو جود آدم خور مگر مچھوں کے بارے میں ایک جملہ کہنے کی تو فیق نہیں ہوتاان کے نظر میں وہ ھٹیکدار نہیں آتا جو پی ڈبلیو ڈی سے ملکر ناقص میٹریل کا استعمال کر کے عوامی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے ان کو وہ سرکاری آفیسر دیکھائی نہیں دیتا جو سر کار کے خزانے سے بھی مراعات لیتا ہے اور عوام کے جیبوں پر بھی ڈاکہ ڈالتا ہے ان کو وہ سیاستدان نظر نہیں آتا جوبھائی اور خادم کا نعرہ لگا کر آقائے اعظم بنتا ہے وہ سود خور جس کی شر سے قبیلوں کے قبیلے متا ثر ہوئے وہ تا جر جو زخیرہ اندوزی کرتا ہے نا جائز منا فع خوری اورناپ تول میں ڈنڈی مارتا ہے وہ قاتل جو قتل و غارت کرتا ہے وہ چور جو چوریاں کرتا ہے کوئی نظر نہیں آتا ان کے نذدیک ایک ہی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے پا نچ سے دس ہزار میں اپنے زندگی کے بہترین دن ضائع کرنے والے وہ صحافی ان تمام خرافات کے زمہ دار ہیں ۔ عوام بھی خا موش ہے اپوزیشن مو جود ہے اس کا کام تعمیری تنقید ہے مگر ان حضرات کے نزدیک صرف صحافی برادری کو ہی کمر کسنا ہے اچھے برے ہر کام پر تنقید ہی کرنا ہے با با یہ کیسی زمہ داری ہے بحثیت شہری زرا ا پنے گریبان کو بھی جھانکیں آپ بحثیت مسلمان بحیثیت پا کستانی آپ نے کیا تیر مارا ہے؟آپ ٹھیکدار ہیں تو ناقص میٹریل کا استعمال کرتے ہیں ادارے سے ملکر قوم کی خون پسینے کی کمائی کو اپنے حرام کے ذخیرہ میں جمع کرتے ہیں آپ کو کسی ادارے میں زمہ داری دی جائے تو آپ کام چوری کرتے ہیں اختیارات کا نا جا ئز استعمال کرتے ہیں اقربا پروری جھوٹ فریب مکاری دغا بازی میں عا فیت سمجھتے ہیں سود خوری کو فیشن بنا رکھا ہے قاتل ظالم بدتمیز کو آپ معزز و معتبر سمجھتے ہیں شریف ایماندار فرض شناس محب و طن کو رزیل زلیل اور بزدل تصو ر کرتے ہیں۔ اپنے فرائض کے ادراک کسی کو نہیں ہے مگرریاستی وسائل میں اپنا حصہ ہر کوئی تلاش کرتا ہے ۔آپ کا بھائی عزیز رشتہ دار سیاستدان ہے تو وہ جا ئز نا جائز نہیں دیکھتا صرف ما ل بنا نے کی کوشش کرتا ہے ووٹر ہے تو ممبر کے زریعے اپنے عزیز و اقارب کو روزگار دلانے کے تگ و دو میں ہیں چا ہیے اس سے کسی کا حق ضائع ہو میرٹ کی دہجیاں بکھرے کوئی فرق نہیں پڑتا پڑوسی بھوکا ہے اندھیرے میں ہے آپ کے کتے بھی مٹن نوش فرمائے سپیشل بجلی لا ئین کو انجوئی کر یں آپ کے نزدیک ان سب کی زمہ داری بھی صحا فیوں پر عائید ہوتی ہے ۔

سیاسی سماجی زاتی یا مفاداتی جلسہ جلوسوں میں دو درجن کے مجمع کو سینکڑوں ظاہر کرنے کی کوشش کرنے والے میرے معتبر ہم وطن پا کستانی بھا ئیواچھے برے لوگ ہر شعبے میں مو جود ہوتے ہیں سب کو مورد الزام ٹھہرانا جا ئز نہیں ہے تمام صحا فی وکلاء اسا تزہ و دیگر شعبہ جات میں کام کرنے والے لوگ ایک ہی کٹگری کے نہیں ہو تے ہیں ۔برائی مجھ میں ہو سکتی ہے ۔کسی ایک فرد میں ہو سکتی ہے ۔مگر ایک فرد کی وجہ سے پورے صحا فیوں کو قصیدہ گو کہنا یا درباری کہنا تمام خرا فات کے مجموعہ گرداننا مناسب نہیں ہے۔صحافی کا کام تنقید بھی ہے اور تعریف بھی ہے بشر طیکہ بے جا نہ ہو اب دیا مر میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ہیں صحت اور تعلیم کے شعبے میں جمود تاری ہے سڑکیں کھنڈرات بن چکے ہیں رابطہ پل ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں داریل تانگیر کو ضلع کا درجہ نہیں مل رہا ہے پانی بجلی صٖفائی کا نظام نہیں ہے ان میں سے کسی بھی مسلہ سے کسی صحافی نے منہ نہیں موڑا وقتاً فوقتاً ہر مسلہ پر توجہ دلانے کی کوشش کی مگر کوئی سنتا ہی نہیں ہے تو صحافی کیا کرینگے۔

صحافی ہر مسلے کی نشا ندہی کرتے ہیں صوبہ اور مر کز میں ایک ہی پا رٹی کی حکو مت ہے بقول حکو مت فنڈز کی کمی بھی نہیں ہے پھر بھی ضلع بھر میں ما یوسی ہے گلہ شکوہ ہے آخر کیا وجہ ہے جب سب کچھ ہے تو بہت کچھ ٹھیک کیو نہیں ہو رہا ہے؟دوست کہتے ہیں وزیر اعلی کیا کرے گا جب آپ کے منتخب ممبران کوئی مطا لبہ ہی نہیں کرتے ہیں اگر ایسا ہے تو با لکل ٹھیک ہی کرتے ہیں کیو نکہ میں جا نتا ہوں بحیثیت قوم آج تک کوئی گروہ طبقہ یا جما عت اجتماعی مسائل کا ایک بھی مطا لبہ لیکر دیا مر سے منتخب کسی بھی نما ئندے کے پاس نہیں گئے۔ جو بھی جاتا ہے اپنے زاتی معا ملہ لیکر جا تا ہے ممبران اس پر کوشش کرتے ہیں ۔اب عوام کا کوئی مطا لبہ ہی نہیں ہے کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے تو ممبران کو کیا پڑی ہے؟سب سے پہلے آپ ایک قوم بن جا ئے پھر اپنے مسائل کی نشا ندہی کریں ان مسائل کو اپنے منتخب ممبروں تک پہنچا ئے پھر آگے وہ کا م نہیں کرینگے اور صحافی خا موش رہینگے تو آپ الزام بھی لگا ئیں کوئی بھی مسائل کی بات نہیں کرتا ہے ہر کوئی تنقید پر تلا ہوا ہے ایسے تو کچھ نہیں بنے گا ہر کوئی اپنے بھا ئی بھا نجے کی فا ئل بغل میں دبا کر پھرتا ہے میر ا حدف کوئی ایک شخص گروہ یا جما عت ہر گز نہیں ہے بحیثیت قوم ہم سب کا یہی حال ہے اجتماعی سوچ کسی کی نہیں ہے انفرادیت کو اجتما عیت پر قربان کرو پھر اچھا ئی اور برائی کا موازنہ کرو درست نتیجہ سامنے آئے گا ۔ دیامر مسائلوں کا مجموعہ ہے یہاں الفاظ کی پہلوانی سے کچھ نہیں بنے گا اکھا ڑہ میں اتر کر داؤ لگا و تو پھر پہلوانی کا پتہ چلتا ہے۔میں صحا فیوں کو بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں سمجھتا ہوں جہاں بہت زیادہ کمی کو تاہی صحافی برادری کی ہے وہاں برابر کی کا ہلی تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شہری کی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button