کالمز

غذر میں پیپلزپارٹی کا جلسہ اور حکمران جماعت

صفدرعلی صفدر

گزشتہ دنوں غذرمیں مختصرقیام کے دوران ضلعی ہیڈکوارٹرگاہکوچ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے جلسے میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ جلسہ غذر کے ابھرتے ہوئے سیاسی رہنماء نذیراحمد ایڈووکیٹ، اشکومن سے تعلق رکھنے والے سابق صحافی دوست ظفرمحمدشادم خیل اوراپنا لنگوٹیا یاراسلام الدین ایڈووکیٹ سمیت دیگر سیاسی شخصیات کی پی پی پی میں شمولیت کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا۔

دن کی مناسبت سے غذرکا سیاسی ماحول بہت گرم مگر موسم کے اعتبارسے سخت سردی کے ساتھ تیزبارش کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ گاہکوچ بازارمیں صحافی دوست یعقوب طائی کے دفترمیں ایک کپ چائے پینے کے بعد ہم بھی جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ دیکھا تومیونسپل کمیٹی ہال غذرکے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں بھرگیاتھا۔

کچھ ہی دیربعد تقریب کا آغاز ہوا اور پی پی پی کے ضلعی جنرل سکریٹری وتقریب کے میزبان بدرالدین بدر نے اسٹیج سے پارٹی میں شمولیت اختیارکرنے والی شخصیات کا تعارف شروع کردیاجبکہ پارٹی کے صوبائی صدرامجدحسین ایڈووکیٹ اور ضلعی صدرمحمدایوب شاہ نے نئے شامل ہونے والوں کوہار پہناکرخیرمقدم کیا۔

تقریب میں انوکھی بات یہ تھی کہ نذیراحمد ایڈووکیٹ کے حوالے سے نہ صرف غذ ربلکہ پورے گلگت بلتستان کے لوگوں میں یہ تاثرعام تھا کہ وہ قوم پرستوں کی کشتی میں سوار ہیں۔ بعض لوگ تو انہیں نواز خان ناجی کی سیاسی پارٹی کا حصہ بھی سمجھتے تھے۔ عوام میں یہ تاثر اس لئے پایا جاتا تھا کہ نذیر ایڈووکیٹ ایک عرصے سے ضلعی ہیڈکوارٹرگاہکوچ میں غذرکے علاقائی ایشوز کے حل اور عوامی حقوق کی جدوجہدمیں خاصے سرگرم ہیں۔ اس بناپرعوامی حقوق کے لئے تلخ اندازمیں بات کرنے پرمخالف حلقوں میں وہ قوم پرست گردانا جاتا تھا۔ لیکن نذیرایڈووکیٹ کے قریبی ساتھیوں کے بقول وہ ایک دن کے لئے بھی کسی قوم پرست تنظیم کا رکن نہیں رہے ہیں۔

تاہم بات اس وقت واضح ہوگئی جب نذیرایڈووکیٹ نے خوداپنی تقریرمیں ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ وہ شروع سے ہی پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں اور پی پی پی میں شمولیت ان کے لئے کوئی انہونی بات نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2009کے عام انتخابات کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت وجودمیں آنے کے بعدپارٹی اور حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پرانہوں نے گوشہ نشینی اختیارکررکھی تھی۔ اب پارٹی کے صوبائی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کے بعدوہ پھر سے متحرک ہونا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت کو یہ انتباہ بھی کیا کہ پارٹی قیادت کی جانب سے حسب سابق کارکنوں اور عوامی حقوق کے تحفظ میں کمزوری دکھانے کی صورت میں وہ باغی ہی رہیں گے اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔

بعدازاں ظفرمحمدشادم خیل نے بھی اپنی تقریرمیں یہ دعویٰ کیا کہ وہ شروع سے ہی بھی پی پی پی کا حصہ رہے ہیں اور ان کے آبا واجدادنے اس پارٹی کے تواسط سے غذرکے عوامی حقوق کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ حالانکہ موصوف نے ایک گمنام سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر غذر کے حلقہ ون سے سال2015کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ خیر پاکستانی سیاست میں وقت کے ساتھ ساتھ وفاداریاں تبدیل کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں مگر یہ بات ماننی پڑے گی کہ ظفرشادم خیل نے گزشتہ انتخابات میں اپنے حلقے کے کامیاب امیدوار نواز خان ناجی کو بہت ٹف ٹائم دیا تھا۔

جلسے کے مہمان خصوصی پی پی پی کے صوبائی صدرامجدحسین ایڈووکیٹ نے نہایت جارہانہ اندازمیں خطاب کیا۔ لیکن ان کی تقریرمیں زیادہ تروہی باتیں شامل تھیں جوپاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما وموجودہ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اقتدار میں آنے سے قبل کیا کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں حافظ حفیظ الرحمن صوبائی حکومت پر کرپشن، اقربا پروری، رشوت ستانی، ٹھیکوں اور نوکریوں کی بندربانٹ، لاقانونیت، فرقہ واریت اور تعصبات کو فروغ دینے کے الزامات لگارہے تھے جو کہ اب امجدحسین ایڈووکیٹ موجودہ حکومت اور خاص طورپر وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن پر عائد کررہے ہیں۔

تاہم امجدایڈووکیٹ کی حق ملکیت وحق حاکمیت تحریک کا اعلان منفرد تھا۔ جو کہ انہوں نے جلسے کے شرکا کو آسان الفاظ میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خالصہ سرکارکے نام پر عوام کی ملکیتی اراضی پر قبضے کا قانون گلگت بلتستان کے سوا نہ پاکستان میں کہیں موجود ہے نہ ہی بین الاقوامی سطح پر۔ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں کوئی خالصہ سرکاراراضی نہیں بلکہ تمام زمینیں متعلقہ علاقوں کے پشتنی باشندوں کی ملکیت ہے۔ اگر حکومت کو کسی ترقیاتی منصوبے کی تعمیرکے سلسلے میں زمین درکارہوتو وہ زمین مالکان کواس کا معاوضہ اداکرکے متعلقہ اراضی اٹھاسکتی ہے۔

حق ملکیت وحق حاکمیت تحریک کے حوالے امجدحسین ایڈووکیٹ کے اس موقف کی وزیراعلیٰ صاحب یہ کہتے ہوئے مخالفت کرتے ہیں کہ حکومت عوامی فلاح وبہبودکے منصوبوں کی خاطرزمینوں پر قبضے کا حق رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امجد حسین ایڈووکیٹ قانونی راستے کے زریعے یہ واضح کرپاسکتے کہ گلگت بلتستان میں کوئی خالصہ سرکارکاقانون نہیں؟ اور یہاں پرخالصہ سرکار کے نام پر زمینوں کی بندبانٹ خلاف قانون ہے۔یا حفظ الرحمن قانونی کے تحت یہ واضح کرسکتے ہیں کہ نہیں جی گلگت بلتستان میں اب بھی خالصہ سرکار کا قانون رائج ہے جس کے تحت حکومت کوئی بھی اراضی سرکاری مقصد کے لئے استعمال کرسکتی ہے؟

اگر خالصہ سرکار کا قانون واقعتاً کوئی انوکھا قانون ہے ، جس کا بقول امجدایڈووکیٹ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی وجودنہیں، پاکستان کے کسی بھی صوبے میں نہیں، ہمارے پڑوسی علاقے چترال اور کوہستان میں نہیں توپھر گلگت بلتستان میں یہ کیونکر نافذ ہے؟کیا یہ گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدارمیں آکرخالصہ سرکار کے نام پر زمینیں الاٹ کرتی رہے اور عوام خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں؟ خالصہ سرکار کے نام پر زمینوں کی بندبانٹ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں بھی ہوتی رہی اور سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے بھی جی بھر الاٹمنٹس کئے اور اب موجودہ حکومت نے بھی اسی سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔

لہذا وقت کا تقاضاہے کہ حکومت اور اپوزیشن چاہے امجد ہو یا حفیظ دھرتی کا سپوت بن کر اس مسئلے پرسنجیدگی سے غور کریں اور اس کے تمام تر تاریخی وقانونی پہلوؤں کا جائزہ لیکر کوئی مستقل حل نکالا جائے۔ کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومتیں خالصہ سرکار کے نام پر زمینیں الاٹ کرتی رہیں اورکل کو دھرتی کے باسیوں کو اصل حقیقت کا علم ہونے تک قبرستان کے لئے بھی زمین کا ٹکڑا نہ بچ جائے۔

اب زکر پھرپیپلزپارٹی کی سیاسی گہماگہمی کی کرلیتے ہیں کیونکہ کافی عرصے سے ضلع غذرمیں کوئی سیاسی سرگرمی نہ ہونے اور اوپر سے ایک نام نہاد قوم پرست تنظیم کے کارکنوں کی پے درپے گرفتاریوں کے باعث غذر کا سیاسی ماحول کافی ٹھنڈا پڑگیا تھا۔ اسی اثناء پیپلزپارٹی کے جلسے میں عوام کا ہجوم اس بات کی گواہی ہے کہ غذر جیسے شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین میں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث محرکات کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہی بات پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجدحسین ایڈووکیٹ اور ضلعی صدرمحمدایوب شاہ نے بھی اپنی تقریرمیں کہی کہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ چندگندی مچھلیوں کی آڑمیں پورے ضلع کے عوام کی پاکستان سے وفاداری کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھے۔

ضلع غذر سے نذیرایڈووکیٹ اور ظفرشادم خیل سمیت اہم سیاسی شخصیات کی پیپلزپارٹی میں شمولیت پارٹی کے صوبائی صدرامجدحسین ایڈووکیٹ کی ایک اہم کامیابی ہے۔ کیونکہ یہ دونوں شخصیات اپنے حلقوں کے عوام کے اندررہ کرسیاست کرنے کے قائل ہیں اور دونوں کے پاس عوام کا اچھا خاصا مینڈیٹ ہے۔ جس کا ثبوت گزشتہ انتخابات کے نتائج کی صورت میں موجودہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس پی پی پی کی اس حکمت عملی کا ردعمل ہوسکتا ہے ۔

اس کے لئے میری ناقص رائے کے مطابق حکمران جماعت کے پاس دو ہی آپشنزہیں۔ پہلا یہ کہ وہ بھی آئندہ انتخابات کے لئے غذرمیں پیپلزپارٹی کے ان امیدواروں کے مقابلے میں نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدوار پیدا کرے اور انہی کے تواسط سے علاقے میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرے۔ یا پھر اپنے دوراقتدار میں موقع کو غنیمت جان کرغذرمیں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھاکر حکومتی کارکردگی پر عوام کا اعتماد بحال کرے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اسی صورت میں آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پہلے سے چلے ہوئے کارتوس دوبارہ نہیں چل پائیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button