کالمز

مردم شماری اور مقامی زبانوں کے ساتھ ظلم

تحریر: فہیم اختر

’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ‘ کے مصداق مملکت پاکستان میں 1998کے بعد اب مردم شمار ی 2017میں ہونے جارہی ہے جس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مردم شماری کا بنیادی مقصد ملک میں موجود تمام انتظامی یونٹوں میں افراد کی تعداد،وہاں کے ثقافت اور خصوصی طور پر وہاں بولے جانے والے زبانوں کی معلومات ہوتی ہیں۔ مردم شماری کا دوسرا اہم فائدہ وسائل کی تقسیم سمیت انتظامی یونٹوں کی ضرورت پر بھی غور و خوض ہوتا ہے ۔ ماضی میں مردم شماری پر ’فیورٹزم(Favourtism )کا دھبہ لگ گیا جس کی وجہ سے اول تو معلومات ’چاہنے ‘کی بنیاد پر دستیاب ہوگئی اور دوسرا لسانی اقلیتوں اور ثقافتوں پر کاری ضرب لگ گئی ۔اب کی مردم شماری بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تعمیل میں شروع ہورہی ہے ۔

مردم شماری کی تیاریوں میں ابتدائی طور پر جاری ہونے والے فارم نے ان علاقوں اور خصوصی طور پر زبانوں کو معدومیت کی طرف دھکا دیا ہے جو معدوم ہونے کا سفر کررہے ہیں۔ زبانوں کے معدوم میں دن نہیں بلکہ عشرے اور صدیاں گزرتی ہیں لیکن ان میں ایک ایک دن قیمتی ہوتا ہے۔ مردم شماری ان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار زبانوں کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس سے اس زبان کے بولنے والوں کی معلومات اعلیٰ سطح تک پہنچ جاتی ہے اور سرکاری سطح پر ان کے تحفظ اور ترویج کے لئے پالیسیاں بنائی جاتی ہے ۔مردم شماری کے ’مبینہ‘طور پر جاری زبانوں میں فارم میں صرف نو زبانوں کا نام شامل کرکے باقی زبانوں کے لئے ’دیگر ‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے (ان 9زبانوں میں اردو، پنجابی ، سندھی، پشتو، بلوچی ، کشمیری ،سرائیکی، ہندکواور جوبروہی زبان شامل ہے)۔ یہ لفظ دیگر اس وقت ان زبانوں کے لئے خنجر کے دھار کی حیثیت رکھتی ہے ۔
جن زبانوں کو خطرہ ہے ان میں گلگت بلتستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبان ’شینا ‘ہے ۔اس کے علاوہ بلتی ، بروشسکی ، ڈوماکی ، وخی اور کھوار جیسے ’زبان‘بھی گلگت بلتستان اور ملحقہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ مردم شماری کا یہ عمل گلگت بلتستان کے لئے ان معنوں میں انتہائی بے معنی ثابت ہورہا ہے کیونکہ 2015کے انتخابات میں ون پرسن،ون ووٹ کے تحت شناختی کارڈ رکھنے والوں کا مکمل ڈیٹا جمع کیا گیا تھا۔ اگر صرف افراد کو ہی گنتی کرنا ہے تو شاید نادرا کا اپ ڈیٹ ریکارڈ اٹھایا جائے کافی ہوگا۔
مقامی زبانوں کے لئے ملک کے دیگر علاقوں میں کھینچا تانی جاری ہے اور اس معاملے میں خیبرپختونخواہ اسمبلی (جس میں تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد زیادہ ہے ) بازی لے گئی۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر قرارداد منظور کرلی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ خیبر پختونخواہ میں پشتو اور ہندکو سمیت 15دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جن کو ’دیگر‘کے فارم میں رکھا گیا ہے جو کہ ان زبانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ خیبرپختونخواہ نے زبانوں کے معاملے میں ایک اور اہم قدم بھی اٹھایا ہے جو آخر میں درج کیا جائیگا۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف بینچ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی کیپٹن(ر) محمد شفیع خان نے قرارداد پیش کرکے مطالبہ کیا کہ مردم شماری میں زبانوں کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ وفاقی حکومت زبانوں کے فارم میں گلگت بلتستان کے مقامی زبانوں کو بھی شامل کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے مقامی زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں لہٰذا حوصلہ افزائی کا تقاضا ہے کہ اس میں مقامی زبانوں کو شامل کیا جائے ۔ قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک دلچسپ بات ہے کہ ایک صحافی دوست نےماضی کے اسمبلی میں چند ایک بار دورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ان نااہل لوگوں کے پاس جانا بیکار اور فضول ہے اور نہ ہی اسمبلی میں کوئی پایے کی بحث ہوتی ہے لہٰذا اس اسمبلی میں آئندہ کبھی نہیں جاؤں گا۔ وہ صحافی دوست اب کی اسمبلی میں اب تک ایک بار بھی نہیں گیا ہے ۔اور کیپٹن(ر) محمد شفیع کی پیش کردہ قرارداد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بعض ممبران اسمبلی بشمول پارلیمانی سیکریٹری غلام حسین ایڈوکیٹ اور صوبائی وزیر اقبال حسن نے اس کو وفاقی حکومت کا ’سبجیکٹ ‘قرار دیکر اعتراض اُٹھا لیا ۔یہ پہلی بار ایسا نہیں ہوا اس سے قبل بھی ایسے لطیفے اسمبلی میں ملتے رہے ہیں ۔ حاجی حیدر خان اور رانی عتیقہ کے الگ الگ دو قراردادیں پیش ہونے کی تیاری میں تھے اسمبلی میں وزیراعلیٰ موجود نہیں تھے تاہم پیش ہونے سے قبل اسمبلی میں آگئے اور انہوں نے ان دونوں قراردادوں کی نوعیت کو دیکھ کر پیش ہونے نہیں دیا اور کہا کہ یہ مکمل طور پر وفاقی حکومت کا ’سبجیکٹ ‘ہے ۔ہمارے ممبران اکثر ایسا کرتے ہیں وفاقی حکومت کے سبجیکٹ کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے ’قرار‘دے چکے ہوتے ہیں اور مقامی ’سبجیکٹ‘کو بھی وفاقی حکومت کا سبجیکٹ قراردیتے ہیں۔ان کی ایک بے نظیر قرارداد’پانچویں صوبے‘ کی قرارداد ہے جو جی بی اسمبلی نے منظور کی ہے ۔

قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان یہاں کے عوام کی نمائندہ فورم کی حیثیت رکھتا ہے جس نے عوامی مسائل کو اعلیٰ سطح تک پہنچانے ہوتے ہیں۔ ان مسائل میں ’زبانوں ‘کا مردم شماری میں شامل کرانا اس وقت سب سے اہم ہے ۔ گلگت بلتستان میں اس سے قبل ’ڈوماکی‘زبان بھی بھولی جاتی تھی جو قبیلہ ’ڈوم ‘کی مادری زبان تھی۔ بدقسمتی سے سماجی رویوں نے نہ صرف اس قبیلے کو پس منظر میں ڈال دیا بلکہ ان کی زبان ہی مکمل ختم ہوگئی۔ آج اس زبان پر ریسرچ کرنے والے احباب بتارہے ہوتے ہیں کہ اس ’ڈوماکی‘زبان کو صرف سمجھنے والے افراد کی تعداد انگلیوں میں ہے(یعنی بہت کم ہے ) ۔ اور یہی حال دیگر زبانیں بشمول ’شینا ‘کے ساتھ بھی متوقع ہے ۔ گزشتہ سال شینا زبان پر ہونے والے ایک ریسرچ میں بھی یہ نشاندہی کی گئی کہ شینا زبان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے ۔ کیونکہ گھروں میں لوگ اب شینا بہت کم استعمال کررہے ہیں ،سکولوں میں شینا استعمال کرنا سختی سے منع ہے ،تجارت کی زبان شینا نہیں ہے ، صحافتی زبان شینا نہیں ، سرکاری زبان شینا نہیں۔ کتابیں شینا میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اب شاعروں نے بھی دیگر زبانوں میں شاعری اور گلوکاری شروع کردی ہے ۔

اس معاملے کا بھی ایک بہترین حل خاتون ممبر جی بی اسمبلی ریحانہ عبادی نے بھی اپنی قرارداد میں پیش کیا تھا جو کہ منظور ہوگئی ۔ اس قرارداد میں مقامی زبان میں تعلیم رائج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ چترال گلگت بلتستان کا قریبی (بلکہ ماضی کا ساتھی) علاقہ ہے جہاں لوگوں نے مقامی زبان کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے پر احتجاجاً بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام اس معاملے میں مکمل طور پر خاموش ہیں۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے چند افراد ہی اس وقت اس بات کو اپنا دردسر بنائے بیٹھے ہیں باقی کسی حلقے سے کوئی بات نہیں ہورہی ہے ۔عوام کا غم اگر حکومت ہوتو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ترقی یافتہ معاشروں میں عوام حکومت کے بازوں ہوتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں بوجھ۔۔

خیبرپختونخواہ نے گلگت بلتستان کے زبانوں پر ایک احسان کیا ہے انہوں نے اپنی ’ڈائریکٹریٹ آف کلچر‘ کے ویب سائٹ میں خیبرپختونخواہ میں بولی جانے والی زبانوں کی فہرست مرتب کی ہے جن میں بلتی ، بروشسکی ، چلاسوں(شاید چلاسی کو الگ زبان کہا ہے )، ڈوماکی(جو جی بی کی ہے اور معدوم بھی ہوچکی ہے(اس زبان کے بولنے والوں کی تعدا دبھی جی بی میں بہت ہے)،کھوار، شینا، وخی کو شامل کرلیا ہے یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ویب سائٹ میں سرکاری سطح پر ان زبانوں کا نام لیا جارہا ہے ورنہ تو ان زبانوں کا نام کہیں پر بھی نہیں۔ زبانوں کے تحفظ کے لئے سول سوسائیٹی کو حکومت کے ساتھ مل کر طویل سفر طے کرنا ہے اور حکومتی سطح پر بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ کم از کم مردم شماری کے اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ سپیکر جی بی اسمبلی فدا محمد ناشاد کا وفاقی حکومت سے اس معاملے میں از خود رابطہ کرنے کا اعلان خوش آئند ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

Back to top button