کالمز

70 سالہ بچی

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

5 مارچ کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل کھیلا جارہا ہے۔ یہ کام اگر بھارت ،ایران ،انڈونیشیا ،ترکی ،بر طانیہ ،کنیڈا یا کسی ملک یا قوم کا ہوتا تو معمول کا واقعہ ہوتا اس کی چھوٹی سی ایک کالمی خبر چھپتی ٹی وی پر بھی 10 سیکنڈ دورانیے کی خبر آتی مگر ہماری قوم نا بالغ ہے ابھی ذہنی بلو غت اور شائستگی کی منزل سے بہت دور ہے۔ اس لئے اخبارات میں اس کا چرچا ہے ٹیلی وژن چینیلوں پربھی اس واقعے کا شور شرابا ہے۔ کوئی کہتا ہے ہم حکومت کے خلاف نعرے بازی کر کے آسما ن کو سر پر اُٹھا ئینگے، کوئی کہتا ہے حکمر انوں نے ڈر کے مارے مخالفین کو دعوت نہیں دی۔ ہیلری کلنٹن امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈٹرمپ کی مخالف اُمید وار تھی مگر وہ خوشی کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری تقریب میں آئی، نہ اُس نے نعرے لگوائے نہ ہلڑ بازی کی، مسکر اہٹیں بکھیرتے ہوئے آئی اور اپنی مسکر اہٹوں کے ساتھ رخصت ہوئی۔ جنر ل ضیاء میچ دیکھنے کے لئے بھارت گئے کسی نے ان کے خلاف نعرے نہیں لگائے، عمران خان کی پارٹی مسلم لیگ(ن)کے مقابلے میں چوتھے نمبر پر ہے مسلم لیگ (ن)کو اس جماعت سے کوئی خطرہ نہیں، کوئی مسئلہ نہیں پھر بھی میڈیا کے اندر پی ایس ایل فائنل پر سیاست چمکائی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ ٹریفک پولیس کی ڈیوٹی پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے اس حالت کو دیکھ کر آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاکستانی قوم کی مثال 70 سالہ بچی کی طرح ہے۔ 70سالوں میں اس کا ذہن بالغ نہیں ہوا۔ قد 70 سالہ بوڑھے کا ہے، کمرجھکی ہوئی ہے مگر ذہن اورد ماغ ڈھائی سالہ بچی کی طرح ہے۔ ڈھائی سالہ بچی ’’میر ژوری ‘‘با ت بات پر ناراض ہوتی ہے، روتی ہے، لڑتی ہے، کھلونوں کو تورٹی ہے، برتنوں کو توڑتی ہے، بات بات پر ضد کرتی ہے، گھر کے تما م افراد اس کی خدمت میں لگے ہوتے ہیں مگر اس کوآرام ،سکون اور قرار نہیں آتا۔ وہ ہر وقت ہر بات پر روتی رہتی ہے اور ضد کرتی ہے۔

صرف پی ایس ایل کے فائنل تک محدود نہیں پاکستانی قوم کا رویہ ملکی سیاست ،معیشت اور معاشرے کے ہر شعبے میں ڈھائی سالہ بچی کی طرح ہے۔ مثلاًالیکشن کو دیکھیں پوری دینا میں جانے والی حکومت الیکشن کر اتی ہے پاکستانی قوم ضد کرتی ہے کہ عبوری حکومت بنائی جائے۔ الیکشن کے لئے 5مہینوں کی عبوری حکومت بنائی جاتی ہے اس کے باوجو د الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پوری دنیا میں الیکشن ہارنے والے جماعت 4سال یا 5 سال انتظار کرتی ہے۔ پاکستا نی قوم انتظار نہیں کرتی الیکشن کے ایک ماہ بعد وزیراعظم کو گھربھیجنے ،اسمبلیوں کو توڑنے اورنئی حکومت لانے کی تحریک شروع ہوتی ہے۔ یہ بھی ڈھائی سالہ بچی کی ضد ہے۔ عوام کو سہولت دینے کیلئے مجسٹر یسی نظام پوری دنیا میں قائم ہے۔ ہماری قوم مجسٹریسی نظام کو توڑتی ہے چند سالوں کے بعد مجبور ہو کر بحال کرتی ہے پھر اس کو توڑتی ہے پھر بحال کرتی ہے پھر اس کو توڑتی ہے پھر بحال کرتی ہے۔ یوں مجسٹریسی نظام کے ساتھ ڈھائی سالہ بچی کی طرح آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ سب کو پتہ ہے۔ سزائے مو ت کی بحالی اور فوجی عدالتوں کے قیام سے دہشت گردی پر قابو پایا گیا مگر دوسرے دن سزائے مو ت کے قاتلوں اور فوجی عدالتوں پھر دہشت گردی آئی پھر سزائے موت کی بحالی اور فوجی عدالتوں کا قیام پر دھینکا مشتی چل رہی ہے۔ اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کانام نہیں لیتا ایک اور مثال بچی کی لے لیں۔ ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے ‘‘یہ ہمار آ پکا پکا دعویٰ ہے مگر اسلامی نظام اور شریعت پر ہماری 70 سالہ بچیاں کبھی متفق نہیں ہوتیں۔ اس طرح آگے بڑھیں اردو ہماری قومی زبان ہے مگر دفتر وں میں اردو کو رائج کرنے پر 70 سالہ بچی شور مچاتی ہے۔ آسما ن سر پر اُٹھالیتی ہے۔ اردو کو دفتری زبان بنانے کا معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے پھر بات اردو کی آجاتی ہے تو 70سالہ بچی پھر اپنی ضد شروع کرتی ہے۔ ایک اور مثال لے لیں اس 70سالہ بچی اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ میرا دوست کو ن ہے اور دشمن کون ہے۔ بچی کہتی ہے کہ امریکہ میرا دوست ہے ،سعودی عرب میرا دوست ہے مگر وہ دونوں انکار میں سر ہلاتے ہیں۔ 70سالہ بچی نہیں مانتی، بچھوکے ساتھ چمٹی رہتی ہے، سانپ کے ساتھ کھیلنے کی ضد کرتی ہے۔ سپر لیگ کا فائنل بھارت میں بھی ہوا، بنگلہ دیش میں بھی ہوا، کوئی جھگڑا کوئی تنازغہ ،کوئی شور شرابہ دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔ پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن کے تمام میچ ملک سے باہر کھیلے گئے دوسرے ایڈیشن کے زیادہ میچ ملک سے باہر کھیلے گئے فائنل کے لئے لاہور کا نام لیا گیا 70سالہ بچی کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگا۔ کرکٹ کے بڑے بڑے سٹا ر لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آگئے ہیں کہ قذافی اسٹیڈیم میں کرکٹ کھیلنا ملک اور قوم پر ظلم ہے۔ پاکستان کی ساکھ بر باد ہو جائیگی ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنیگے۔ کرکٹ کے سٹار اس پر غور نہیں کرتے کہ پاکستا ن کے ہوم سیریز ہوم سے باہر کھیلے گئے۔ پاکستان سپر لیگ کے دونوں ایڈیشن ملک سے باہر کھیلے گئے پھر بھی ہم نے سب کو منہ دکھایا۔ قذافی سٹیڈیم میں ایک میچ ہمیں کیوں کر ہضم نہیں ہو رہا ؟ یہ ذہنی بلوغت کی کمی ہے اور کچھ نہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button