کالمز

قوم کی جذبات اور لیڈر کا کردار

 شیر جہان ساحلؔ

تین مارچ سن ۲۰۰۹ء کو سرلنکا کے قومی کرکٹ ٹیم پر اس وقت دہشت گردون کاحملہ ہوا جب وہ لاہور میں اپنے دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کا کھیل کھیلنے قذافی اسٹیڈیم جارہے تھے ۔ مسلح دہشت گردون کے اس حملے میں سات سیکورٹی اہلکار جان بحق اور سری لنکین کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیون سمیت کئی افراد زخمی ہوئے ۔ اس کے فوراً بعد سیکورٹی حکام حرکت میں آئے اور آرمی ہیلی کاپٹر کے ذرئعے مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں کو سری لنکا روانہ کیا گیا۔ اس دہشت گرد حملے میں گو کہ سرلنکین ٹیم کا کوئی کھلاڑی ہلاک نہیں ہوا مگر پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے غیر معائنہ مدت کے لئے بند ہوگئے اور یہ حملہ ایک قسم سے دہشت گردون کا جیت تھا۔ حملے کے فوراً بعد بین الاقوامی میڈیا خصوصاً انڈیا کی میڈیا نے اس خبر کو اہم ترین خبر کے طور پر پیش کرتا رہا اور دنیا کو یہ باور کروانے کی بارہا کوشش کی گئی کہ پاکستان دنیا کا غیر محفوظ ملک ہے اور یہاں دہشت گرد جب چاہیں کاروائی کرسکتے ہیں۔ لہذا پاکستان جانا اور وہان کسی بھی قسم کی سرگرمی میں حصہ لینا خطرے سے خالی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

کرکٹ جو کہ پاکستانی قوم خصوصاً نوجوانون کا جنون ہے ”جس طرح لہروں سے سمندر میں جان آجاتی ہے اور انہی لہرون کی مدد سے سمندر جانا جاتا ہے لہری ہواوں کی بدولت موج ریگ وجود میں آتی ہے جس سے ساحل سمندر سمیت ایک ویران صحرا کا بھی منظر قابل دید ہوجاتاہے ” بلکل اسی طرح کرکٹ ہی کی بدولت پاکستانی نوجوانوں کا کرکٹ سے وابستہ جنون زندہ رہتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی کرکٹ گراونڈز آباد ہوں اور ان میں قومی اور بین الاقوامی کرکٹ کے مقابلون کا انعقاد ممکن ہو۔

جس طرح ذکر کیا گیا کہ سری لنکین ٹیم پر حملے کے بعد ملک میں انٹر نیشنل کرکٹ کے دروازے تقریباً بند ہوگئے تھے اور پاکستان کرکٹ بور ڈ کی بارہا کوشش کے باوجود کوئی بھی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں تھا۔ کرکٹ بورڈ کے چیرمین جدھر بھی جاتا تھا ذلت کا سامنا ہوتا تھا اور تو اور پچھلے سال مفاہمتی یاداشت کے باوجود انڈیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے ساتھ کھیلنے کو ہی تیار نہیں ہوا اور اس کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے تمام افیشیلز سر توڑ کوششیں کئے مگر ناکام رہے اور دوسری طرف ایڈین میڈیا پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھکاری کے طور پر پیش کرتا رہا مگر پاکستان کرکٹ بورڈ یہ سب صرف اور صرف اسلئے سہتا رہا کہ کسی طرح بین الاقوامی کرکٹ ملک میں بحال ہو۔

پچھلے سال پاکستان سپر لیگ کی دوبئی میں کامیاب انعقاد کے بعد کرکٹ بورڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ اگلے سال کا فائنل پاکستان میں کرایا جائے گا کیونکہ کرکٹ بورڈ کو یقین ہو گیا تھا کہ اس حالت میں کوئی بھی انٹر نیشنل ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے اس لئے آہستہ آہستہ کرکٹ کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے تاکہ انٹر نیشنل کرکٹ کی بحالی ممکن ہوسکے اور سلسلے میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل پہلا اہم قدم تھا کیونکہ یہ بات اپنی جگہ درست تھی کہ PSL کی ناکامی کی صورت میں PCB کو بہت ہی زیادہ نقصان برداشت کرنا ہوگا مگر یہ حقیقت بھی روشن تھا کہ کامیابی سے انٹر نیشنل کرکٹ کے لئے راہ ہموار ہو جائیں گی۔ اور اس طرح یہ ایونت قوم کے لئے انٹرٹینمنٹ سے زیادہ ضرورت بن گیا تھا ۔

چونکہ اس اعلان کے کنفرم ہونے کے بعد دہشت گرد پھر حرکت میں آئے اور پی ۔ایس۔ ایل کی فائنل کو روکنے اور کرکٹ بورڈ اور کرکٹ کے شائقین کو ڈرانے کی بھر پور کوشش کئے مگر کرکٹ بورڈ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے کیونکہ وہ (کرکٹ بورڈ) جانتے تھے کہ یہ ایونت قوم کی ضرورت بن گئی ہے اور اس کے لئے قوم کا ہر فرد ان کے ساتھ کندھا ملا کر چلے گا اور اس ایونت کو کامیاب کیا جائے گا۔ اور بلکل اسی طرح قوم گوادر سے لیکر چترال تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس اقدام کو خوب سراہا اور اسے اچھا اقدام قرار دیکر کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ کے حق میں بینرز اویزان کرنے لگے اور سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہا۔ قوم خصوصاً نوجوانون کی اس جوش اور جذبات کو دیکھتے ہوئے حکومت مخالف سیاسی جماعتون نے بھی پی ایس ایل کے حق میں بیان دینے لگے اور امیر جماعت اسلامی اور سربراہ عوامی مسلم لیگ جو حکومت وقت کے سخت مخالف ہیں، مگر پی ایس ایل کی نہ ٖصرف حمایت کئے بلکہ فائنل دیکھنے لاہور پہنچ بھی گئے ۔ اور یہ ایک قومی ایجنڈا تھا اور اس کے ساتھ قوم کی جذبات منسلک تھے اور یہ ایک لیڈر کی پہچان ہوتا ہے کہ وہ قوم کی جذبات کی قدردانی کرتے ہوئے اس کی رہنمائی کرے۔

مگر افسوس اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ” جس کی وجہ شہرت ہی کرکٹ ہو اور دنیا میں اگر اس کا کوئی مقام ہے تو وہ صرف اور صرف کرکٹ ہو اور ایک مشکل وقت میں جب پوری قوم جذباتی طور پر اور سیاسی و عسکری قیات ذمہ درانہ طور پر یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ PSL کا فائنل لاہور میں ہی ہوگا” کا ایک غیر ذمہ درانہ بیاں سامنے آجاتا ہے اور PSL کی فائنل کو لاہور میں کرنے کی مخالفت میں بیان دے دیتا ہے۔ قوم کے جذبات سے کھلنے کی ایک ناکام کوشش کرتا ہے۔ مگر قوم جذبات میں تھے اور یہ فیصلہ کرچکے تھا کہ کچھ بھی ہو یہ فائنل پاکستان میں ہی گا۔ اور ایسے موقع پر ایک ایسا آدمی ہی قوم کو لیڈ کرسکتا ہے جو قوم کی جذبات سے واقفیت رکھتا ہو اور قومی جذبات کی قدر کرنا جانتا ہو۔ مگر افسوس صد افسوس !! ! ۔۔۔۔ یہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو کسی بھی قوم کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہم پاکستانیون کو بھی بطور ایک قوم یہ فیصلہ کرنا ہو گا ہم ٖ ایسے لوگوں کو ، جو اپنی انا کی ضد کے خاطر ہماری جذبات سے کھیلتا رہے، کبھی بھی اپنا لیڈر نہیں مانیں گے۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ امین۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button