کالمز

انشورنس کا نمائندہ 

دنیائے انشورنس کی تاریخ تقریباََ تین سو پچاس سال پرانی ہے اور کہا جاتاہے کہ اپنی تاریخ میں آ ج تک کوئی بھی انشورنس کمپنی بنک کرپٹ یا خسارے میں نہیں گئی ہے اور یہ بھی کہ سب سے زیا دہ روپیہ پیسہ بھی انشورنس کانمائندہ کما سکتا ہے۔ لیکن انشورنس کا کا م دنیا کا مشکل ترین کام بھی ہے کیو نکہ انشورنس کا نمائندہ کسی پراسپکٹ یا گاہک کو صرف کاغذکا پرزہ دیتا ہے اورگاہک کی جیب سے لاکھوں روپے نکلواتا ہے اور اس کے لئے اُسے جتنی محنت کرنی پڑتی ہے شاید کوئی بھی دوسرا سیلز کانمائندہ نہیں کرتا کیو نکہ باقی تمام سیلز مین کچھ نہ کچھ جنس کی صورت میں اپنے گا ہک کو دیتے ہیں، چاہے دوائی ہو، یا کریڈٹ کارڈ، پرچون سامان ہو یا کپڑا، گاڑی کا کوئی پرزہ ہو یا کمپیوٹر کا کوئی پرزہ، چائے کا ایک پیکٹ ہو یا ہنڈ ا کار، الغرض کسی نہ کسی طرح گاہک کو کچھ نہ کچھ دیتاہے۔ لیکن انشورنس ایجنٹ چیک کی رسید بھی بعد میں دیتا ہے۔ پوری دنیا میں انشورنس ایجنٹ کی بڑی قدر و منزلت ہے اور گاہک ایک اچھے اور قابل عتماد اور لائسنس یافتہ نمائندے کی تلا ش میں ہوتا ہے اور اس کی بڑی عزت ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے ۔ جب کہ انشورنس ایک بہترین سماجی خدمت ہے مثال کے طور پر ایک غریب مزدور جب مر گیا تو اس کے کلیم کاچیک دینے کے لئے اس کی بیوہ کو میں نے جب کال کی تو وہ بے چاری دفتر آنے سے بھی کترائی ، میں نے جب اس مزدور کے کار خانے کے جنرل منیجر سے کہا کہ آپ لوگ تھوڑا سا اہتمام کریں اور اپنے کار خانے کی تمام مزدورں کو کھانے اور نماز کی وقفے میں جمع کر یں ا ور ان سب کی موجودگی میں آپ کے کار خانے کے مالک کے ہاتھوں یہ چیک میں اس بیوہ کو دینا چاہتا ہوں تاکہ آپ کے مزدوروں کی حو صلہ افزائی بھی ہو اور میری کمپنی کا تعارف بھی ہو گا اور آپ کے مزدوروں کو آ پ کے کار خانے پر اعتماد بھی بڑھے گا تو اس جنرل منیجر نے اس بات کو ایک اچھوت سا سمجھا حالانکہ یہ ان کی بہتری میں تھا اور مجبوراََ مجھے اس بیوہ کو اس کے ایک رشتے دار کے گھر میں بلا کر یہ چیک دینا پڑا ۔ اس سے آپ اندازہ لگائے کہ کار خانے مزدوروں کی فلاح و بہبود کاکتناخیال کرتے ہیں ۔ اور جب اس بیوہ کو میں نے چیک دیا تو وہ مجھے ہزاروں دعائیں دیتے ہوے کہنے لگی کہ میرے یتیم بچوں کی زندگی پر آپ کا احسان ہے جبکہ یہ اس کا حق تھا، انشورنس نمائندہ جب کسی سے بات کرتا ہے تو پاکستان میں سو میں سے صرف دس آدمی کہیں آپ کی بات سننے کو تیار ہو تے ہیں جب کہ انشورنس ایجنٹ کو صرف ایک بار کمیشن ملتاہے اور وہ اس گاہک کی پوری بیس سال تک خدمت کر تاہے۔ اور زیادہ تر گاہک ہر بار نمائندے پر احسان جتاتے ہیں اور زیادہ تر کا ، رویہ ایسا ہو تا ہے جیسا کہ وہ اپنی بیمہ پالیسی کی سالانہ تجدیدی قسط نہیں بلکہ انشورنس کے نمائندے کو قرض دیتے ہیں اور سالانہ تجدید کے لئے متعدد بار ٹیلی فون کال کے باوجود وہ بر وقت اپنی پالیسی تجدید کر نے کو تیا ر نہیں ہوتے اور اگر وہ چیک دینے پر راضی ہو بھی گئے تو پھر بھی جب نمائندہ گاہک کے دفتر کے اسقبالیہ ڈسک پر جاتا ہے تو اکثر اوقات بڑی دیر تک انتظار کرا تے ہیں اور ایک آسان لفظ ساری جی میں ایک میٹنگ میں پھنس گیا تھا ابھی میں آپ کو بلاتا ہوں اور پھر بھی دس پندرہ منٹ لین گے اور وہی پرانا حربہ دہرائینگے ۔گویا ایک نئی پالیسی بیچنا توچھو ڑئے بلکہ پرانے پالیسی کی تجدیدی بڑھوتری ( پریمیم) لینے کے لئے ایک نمائندے کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ تو صرف انشورنس کا نمائندہ ہی جانتاہے ۔ نمائندے اور گاہک یا کسٹمرز کے درمیان کچھ اس طرح کے ڈائلاگ ہوتے ہیں۔

نمائندہ ٹیلی فون کرتا ہے اور کئی مرتبہ گھنٹی بجنے کے باوجود کال نہیں اٹھائی جاتی ہے ۔ اور نمائندہ کسی دوسرے کو کال کر تاہے ۔

پہلا ڈائل

دوسرا ڈائل

تیسری مرتبہ جب ڈائل کرتے ہیں تو کلاینٹ یا پراسپکٹ کہیں جا کر اُٹھاتاہے ۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ کلائنٹ کو یہ کالیں کئی کئی دفعہ وقفے وقفے سے کی جاتی ہیں تو تب جاکر کوئی کلاینٹ کال اٹینڈ کرتا ہے ،

انشورنس نمائندہ : اسلام علیکم: کلائنٹ کا نام لے کر ۔۔۔۔صاحب میں اپنا نام ۔۔۔۔لے کر فلاں انشورنس کمپنی سے بول رہا ہوں ۔ کیا دو منٹ بات کر سکتا ہوں۔ تو جواب میں اکثر کلائنٹ کہتے ہیں کہ میں میٹنگ میں ہوں گھنٹے بعد کال کریں

نمائندہ : اچھا جناب شاید میں نے آ پ کو دسٹرب کیا

کلائنٹ ، اچھا ٹھیک ہے

نمائندہ کسی دوسرے کلائنٹ کو کال کرتا ہے اور خوش قسمتی سے کلائنٹ کال اٹھاتا ہے

نمائندہ : اسلام علیکم کلائنٹ کا نام ۔۔۔۔ صاحب کیا حال ہے ۔۔۔ صاحب میں اپنا نام ۔۔۔ بول رہا ھوں ۔۔۔۔ انشورنس کمپنی سے بول رہا ھوں

کلائنٹ : جی صاحب جلدی جلدی بتائے

نمائندہ: کلاینٹ۔۔۔ صاحب آ پ کی پالیسی کی تجدیدی قسط یعنی ری نیول ڈیو ہے۔چک لینے میں کب حاضر ہو جاوں

کلائنٹ: میں اس ماہ نہیں دے سکتا اگلے ماہ کال کریں اور

نمائندہ تیسرے بندے کو کال کرتاہے،اور اب کہ کسی نئے بندے یا پراسپکٹ کو کال کرتا ہے

نمائندہ: اسلام علیکم ۔۔۔ صاحب میں ۔۔۔۔ انشورنس کمپنی سے بول رہا ہوں ۔ مجھے آپ کا ریفرنس فلاں صاحب نے دیا تھا ۔ کیا آ پ سے دو منٹ بات ہو سکتی ہے۔

پراسپکٹ: جی فرمائے

نمائندہ : ہماری کمپنی کے کچھ بہترین قسم کے فنانشیل پروڈکٹس ہیں جو کہ بچوں کی ایجوکیشن، اور سیونگ اور انوسٹمنت کے لحاظ سے بہترین پلان

ہیں، میں چاہ رہا تھا کہ آپ سے ملاقات کروں اور ان کے بارے میں آپ کی توجہ حاصل کروں تو کیا آ پ اپنی قیمتی وقت سے پندرہ بیس منٹ کا وقت اپنے عزیزوں کے بہتر مستقبل کے لئے نکال کر مجھے ملنے کا وقت دے سکتے ہیں۔

پراسپکٹس: آج تو میرے پاس وقت نہیں ہے

نمائندہ تو کیا میں کل ۱۱ بجے یا تین بجے آ پ کی خدمت میں حاضر ہو سکتا ہوں

پراسپکٹس جی ٹھیک ہے تین بجے فون کر کے پتہ کر لیجئے گا

اگلی کال اور خوش قسمتی سے پہلی کال پرہی کال اُٹھائی جاتی ہے اور ملاقات کا وقت مقرر ہو تاہے اور بیمہ نمائندہ تیاری کر کے تجدیدی خط لے کر کلائنٹ کے دفتر پہنچ جاتاہے ۔ تب جاکر کہیں ایک اپائنٹمنٹ ہو جاتی ہے اور اسی طرح کی دس پندرہ کالوں کے بعد کہیں ایک اپائنٹمنٹ مل جاتی ہے اور دس پندرہ اپائنٹمنٹ کے بعد کہیں ایک بندہ کوئی پلان لینے کے لئے راضی ہو جاتا ہے۔ اور پھر اسی طرح پلان اس بندے کو دکھانے کے لئے بھی اسی پروسس سے گذر کر ، اگر دس پندرہ پلان پیش کیئے جاتے ہیں تو کہیں ایک آدھ پلان بک جاتا ہے۔

جناب عالی انشورنس بیچنا پاکستان میں جوئے شیر لانے کی مترادف ہے اورا یک پلان یا پالیسی بیچنے کے لئے ایک نمائندے کو کن کن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے یہ تو نمائندہ جانتا ہے اور کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب جا کر کہیں ایک پالیسی بیچتا ہے اور ڈاکومنٹ مکمل کر کے چیک حاصل کرتاہے اور بعض اوقات چیک مسترد ہوتا ہے تو اس کی سزابھی نمائندے کو بھگتنا پڑتی ہے اور نمائندے کے کمیشن یا تنخواہ سے ایک ہزار روپے کاٹے جاتے ہیں اور اگر کیش ہو تو پھر اس کے مسترد ہونے کا خطرہ نہیں رہتا ہے۔ اگر یہ سارے مر حلے بخوبی انجام کو پہنچ بھی جائیں تو ابھی کئی مرحلے اور بھی سر کرنا پڑتے ہے اور یہ کہ بعض اوقات ماہرین انڈر رائٹنگ والے میڈیکل کال کرتے ہیں اور بعض اوقات پالیسی کی ریٹنگ کر دیا جاتا ہے اور ماہرین انشورنس فارم کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں اسے اشو کیا جائے یا رمسترد کیا جائے، یا رد و بدل کیا جائے اسی طرح بہت سے پیچیدہ مرحلوں سے گذر کر اگر پالیسی اشو ہوکر اور نمبر الاٹ ہو کر کلائنٹ کو سسٹم سے مسیج نہیں جاتا کہ آپ کا پالیسی اشو ہو گیا ، بے چارہ ایجنٹ کو یہ خطرہ محسوس ہو تا رہتاہے کہ پتہ نہیں کو نسی ریکوائر منٹ آئے گی جب پا لیسی اشو ہوتی ہے اور ڈاکومنٹ کلا ئنٹ وصول کر تاہے تو پھر جاکر ایجنٹ کو تسلی ہو تا ہے کہ ایک پالیسی یا ایک کیس ہو گیا ۔

پہلی بار ایجنٹ کو ٹھیک ٹھا ک کمیشن ملتا ہے لیکن بیس سال تک اس کلائنٹ کے ناز و نخرے اٹھانے کے لئے۔ بیس سال تک کلائنٹ کوسالانہ رینول کے موقع پر اطلا ع دینا اور جاکر چک وصول کرنا ، ہر عید اور کسی خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا، کوئی نیا پرڈکٹ کے بارے میں اگاہی دینا ، خریت دریافت کرنا، بہت کم کلائنٹ ایسے ہو تے ہیں جو خود بھی کبھی کبھی ایجنٹ کو فون کر کے پوچھتے ہیں اور پہلی کال پر ہی تجدیدی رقم کی چک لے جانے کوکہتے ہیں یا خود آکر چک جمع کراتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں۔ اور اکثریت ایسے کلائنٹ کی ہے کہ وہ بار بار ان سے رابطہ کر نے کے باوجود وقت نہیں دیتے اور نہ ہی خود وقت پر سالانہ بڑھوتری جمع کراتے ہیں اور ساتھ یہ شکایت بھی کرتے ہیں کی کیش ویلیو کم ہے حالانکہ یہ انشورنس پالیسی ہو تی ہے۔ بعض ایسے کلائنٹ ہیں جو وقت دیتے ہیں کہ فلاں وقت آجاو مگر جب آپ ان کے دفتر کے اسقبالیہ پہنچتے ہیں اور کئی کئی مرتبہ اطلاع دینے کے باوجود وہ حضرات نہیں ملتے اور بڑی دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے شاید وہ یہ ظاہر کر نا چاہتے ہیں کہ میری کتنی قدر و قیمت ہے

پچھلے دنوں ایک کلائنٹ نے کوئی دو تین ماہ کی مسلسل رابطے کے بعد چک لے جانے کا وقت دیا جب میں بروقت پہنچا اور کال کیا تو جواب ندارد پندرہ منٹ بعد کال کیا تو جواب ندارد، میسج کیا تو کوئی جواب نہیں اب مجھے مجبوراََ انتظار کر نا پڑا کہ اتنے دور سے آیا ہوں تو چک لے کر ہی جاونگا، اور ٹھیک تیس منٹ کے بعد کلائنٹ کال کرتا ہے کہ صاحب سوری میں پھنس گیا تھا ابھی آتا ہوں مزید پندرہ منٹ بعد میں نے جب مسیج کیا کہ میں جارہا ہوں آپ شاید فارغ نہیں تو پھر وہ صاحب نیچے آتا ہے اور پھر ایک رجسٹر پر اندراج کراتا ہے اور اندر ایک میٹنگ روم لے کر جاتا ہے اور ہمارے آقا انگریز کا چھوڑا ہو ا الفاظ دہراتا ہے کہ سور ی آ پ کو انتظار کرنی پڑی اور چک لکھ کر دیتا ہے یہ چک وہ پہلے ہی لکھ کر ساتھ بھی لا سکتا تھا تاکہ میرے چند منٹ تو بچ جاتے ۔ یہ تو ایک مثال ہے ایسے ہزاروں باتیں ہو تیں ہیں اور یہ ساری باتیں انشورنس ایجنٹ کو برداشت کرنی پڑتی ہیں اور اگر میں پنتالیس منٹ انتظار نہ کرتا اور واپس آجاتا تو کلائنٹ کی ایک فون کال کی دیر ہو تی مینجر میرا کلاس لیتے اور کہتے کہ آ پ گئے تھے تھوڑی دیر اور انتظار کرتے وہ کلائنٹ ہے لیکن یہ کبھی وہ کلائنت سے نہیں پوچھتے کہ آ پ نے کیا وقت دیا تھا اور کیا ایجنٹ وقت پر پہنچ کر آپ کو اطلا ع دیا تھا کہ نہیں اور اس نے کتنا دیر انتظار کیا ، وہ ایک گھنٹہ تو انتظار نہیں کر سکتا ، نہیں جی منیجر تو ڈایریکٹ ایجنٹ سے باز برس کرتا ہے کہ مزید انتظار کرتے۔میرے وقت کا کسی کلائنٹ کو احساس نہیں ہوتا جب کہ وہ یہ دکھانے کی کوشش ضرور کرتاہے کہ وہ واحد دنیا کا مصروف ترین آدمی ہے اگر وہ پانچ منٹ اپنے اشورنس ایجنٹ کو دے گا تو اس کی کمپنی ڈوب جائے گی، خدا نخواہستہ ، یہ سب محض انشورنس کی اہمیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہو تا ہے ،چونکہ پاکستان میں انشورنس کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں حکومت کی کارکردگی صفر ہے اور حکومتی سطح پر اگر اسکی پزیرائی کیا جائے اور لوگوں میں احساس کو اجاگر کیا جائے اور لازمی انشورنس کا قانون نہ صرف پاس کرایا جائے بل کہ اس پر عمل درآمد بھی کرایا جائے تو پھر جاکر کہیں لوگ اس کی اہمیت کو سمجھ پائے نگے ۔

انشورنس کی اہمیت کا اس بیوہ سے پوچھا جائے جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو اور انشورنس ایجنٹ اس کے شوہر کا کلیم کا چک لے کر اس بیوہ کے در پر جب پہنچتا ہے تاکہ اس کے چولھے کو بجنے سے بچائے تو ایسے میں سارے لوگ اپنے اپنے قرض کا تقاضہ کرتے ہیں سوائے انشورنس ایجنٹ کے ،جو کے ان یتیم بچوں اور ان کی ماں کی مدد کو پہنچتا ہے، اور دنیا تو منہ پھیرتی ہے جب کے انشورنس والے صرف مدد کر تے ہیں ۔

یہا ں یہ وضاحت کر نا ضروری ہے کہ اگر انشورنس کا سالانہ بڑھو تری یعنی ری نیول وقت پر ادا نہ کیا جائے تو نمائندے کا مفت میں نقصان ہو تاہے جب کہ نمائندے کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے بل کہ کسٹمر خود ادائیگی نہیں کرتا ہے اور بے چارہ نمائندہ سزاوار ہو تا ہے اور نمائندے کی پروموشن روکا جاتا ہے، پرسسٹنسی کی صورت میں ا ڈی موشن کرنے کی صورت میں، یا ماہوار وظیفہ بھی بند کیا جاتا ہے اور بعض اوقات تجدید شدہ پالیسیا ں بھی چھینی جاتی ہیں اور کسی دوسرے نمائندے کو دی جاتی ہیں۔ جب کہ وقت پر انشورنس کی ادائگی نہ ہونے پر بمہ شدہ بندے کا اپنا بھی نقصان ہو تا ہے اگر رعایتی مدت تک بیمہ کا قسط ادا نہ کیا گیا تو وہ نن فار فیچر میں جاتا ہے اور پالیسی اسی حالات میں رک جاتی ہے

اوراضافی رایئڈرز بھی ختم ہو جاتی ہیں اور این ایف ایف کی صو رت میں اللہ نہ کرے کہ کلائنٹ کی موت واقع ہو جائے تو اسکے رائڈرز نہیں ملتی اس وقت تک منافع نہیں لگتا جب تک کہ پالیسی اپ ڈیٹ نہ کیا جائے اس لئے پالیسی ہولڈر کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ نقصان اس کا

زیادہ ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انشورنس نمائندہ اگر محنت کرے اور اپنا ہدف ماہوار حاصل کرے تو وہ سب سے زیادہ کما سکتا ہے جو کسی دوسرے ملازمت میں نہیں کر سکتا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ کمانے والے لوگ بھی انشورنس والے ہیں۔ انشورنس ملازمت نہیں ایک بہترین کاروبار ہے اور وہ بھی ایسا کاروبار کہ انشورنس ایجنٹ ایک پیسہ لگائے بغیر اس کاروبار کو شروع کرتا ہے بس شرط یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پرانے کلائنٹ کے علاوہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے سچائی کے ساتھ ملاقات کرے اور انشورنس کے بارے میں صحیح معلومات ا ن تک پہنچائے تیسری اور سب سے اچھی بات انشورنس ایجنٹ کے لئے یہ ہے کہ یہ ایک آزاد اور اپنی مرضی کی کاروبار ہے اور اپنی مرضی سے جس بندے سے ملنا ء چاہے جتنا کام کرے آدمی اس پر کام کی کوئی پابندی نہیں کہ روزانہ وہ کتنا کام کرتا ہے دفتر میں بیٹھتا ہے یا نہیں شام کو کتنے بجے چھٹی کرتا ہے یہ ایجنٹ کی مرضی ہے البتہ کمپنی کو کاروبار چاہئے اور یہ بالکل شفاف طریقے سے کاروبار اور اپنا ہدف حاصل کرنا ایجنٹ پر منحصر ہے کہ وہ کتنا کام کر کے اپنا ہدف حاصل کرتا ہے کوئی پابندی نہیں لیکن ہدف حاصل کرنے کے طریقہ کار شفاف ہو ،کلائنٹ اور پرسپکٹ کے ساتھ دھوکہ یا فریب نہ ہو۔ ایسی آزادی کسی بھی ملازمت میں نہیں ہے۔ لیکن کام انتہائی محنت طلب اور مشکل ہے

کلائنٹ یا پالیسی ہولڈر کے فائدے : ایک تنخواہ دار طبقہ خاص کر اپنی بچت کو لازمی بنا سکتا ہے ،یعنی اگر ایک بندہ ایک پالیسی 35000 روپے سالانہ کے حساب سے خریدتا ہے تو وہ اس فکر میں ہو تاہے کہ سال بعد اگر وہ دوسری قسط ادا نہیں کرے گا تو اس کی رقم کہیں ضائع نہ ہو اس طرح وہ لازمی بچت کرتا ہے دوسری بات یہ کہ کلائنٹ کو کم ازکم چھ لاکھ روپے کا لائف انشورنس اور چھ لاکھ روپے کا اکسڈنٹل انشورنس دیا جاتا ہے اگر پالیسی ایشو ہونے کے بعد پہلے سال کے دوران بھی اگر کسی کو اکسڈنٹل موت واقع ہو جاتا ہے توبارہ لاکھ روپے اسکے ورثاء کو ملے گا اور اگر شادی شدہ بندہ ہو تو سکول فیس کے طور پر ہر تین ماہ بعد ایک مناسب رقم بھی بیس سال مکمل ہو نے تک ملتا رہتا ہے ، اس طرح ایک بندے کو مالیاتی تحفظ کے علاوہ ایک بہترین بچت بھی اور اگر بیس سال پورے ہو تے ہیں تو ایک بہترین رقم کی واپسی ہو تی ہے جو کسی بھی مالیاتی ادارے سے بہت زیادہ ہو تی ہے۔ اگر ایک زی شعور انسان یہ سوچے کہ انسان زندگی میں تو کسی نہ کسی طرح کچھ کماتاہے لیکن خدا نخواہستہ اچانک کسی حادثے کا شکار ھو جائے تو اس کے ورثا کے ساتھ کیا بیتے گی تو انسان ضرور ایک لائف انشورنس خریدے گا ۔ یہ امر واقع ہے کہ انشورنس پالیسی کسی کو امیر تو نہیں بنا سکتا لیکن کسی دوسرے کے محتاج ہو نے سے بچاتاہے۔ بہت سے لوگ اپنی گاڑیوں کی تو انشورنس کراتے ہیں لیکن اپنا انشورنس کراتے ہوے کتراتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ کمانے والا کو کچھ ھو گیا تو کھانے والوں کا کیا ھوگا اگر انشورنس ھو گا تو دوسروں کی محتاجی سے بچائے گا۔

ایک مشہور کہانی ہے کہ ایک انشورنس ایجنٹ کسی امیر ترین شخصیت سے انشورنس کی بات کرنے پہنچ گیا کئی ماہ تک مسلسل ملاقاتوں کے بعد ایک دن اس امیر شخص نے دو ٹوک الفاظ میں انشورنس لینے سے انکار کیا اور وہ ایک بڑی کمپنی کا مالک تھا اور اس کے اتنے زیادہ سمندری جہاز تھے کہ پوری دنیا کے ہر سمندر میں اسکا کوئی نہ کوئی سمندری جہاز چل رہا ہوتا تھا ، جب اس نے انکار کیا تو آخری حربہ کے طور پر ایجنٹ

نے اس سے ایک درخواست کیا کہ وہ اپنے ایک جہاز کا خود اسے یعنی انشورنس ایجنٹ کو سیر کرائے اور وہ امیر شخص مان گیا اور ایجنٹ کو پورا جہاز دکھایا اور پھر ایک ایسے کونے میں لے گیا جہاں بہت سارے لائف جیکٹ اور لائف بوٹ پڑے تھے انشورنس ایجنٹ نے امیر آدمی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو امیر آدمی نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ زندگی بچانے والا سامان ہے یہ جیکٹ ہے اور یہ بوٹ ہے تو ایجنٹ نے حیرانگی سے پوچھا کہ یہ کیسے بچاتی ہیں تو اس ا میر آدمی نے کہا کہ اگر اتنے بڑے سمندر میں جہاز غرق ہو گیا تو کم از کم یہ لائف جیکٹ اور یہ لائف بوٹ مسافروں کی زندگیوں کو بچانے میں مدد دینگی جب ایجنٹ نے یہ سنا تو پاگلوں کی طرح قہقہے لگایا تو اب اس امیر آدمی کی حیرت کی باری تھی اور امیر آدمی نے غصے سے پوچھا کہ آپ پاگل تو نہیں ہو گئے تو انشورنس ایجنٹ نے جواب دیا کہ میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ آپ پاگل ہیں اتنے بڑے جہاز کے غرق ہو نے کے بعد مسافروں کی جانوں کو بچانے کے کے لئے آپ نے لائف بوٹ کا تو بندوبست کیا ہے لیکن اپنے دولت غرق ہونے سے بچانے کے لئے ایک چھوٹا سا لائف بوٹ نہیں رکھا ہے اور ایک اور قہقہہ لگا کر ایجنٹ تو رخصت ہوا لیکن امیر آدمی کو فکر لاحق ہو گیا اور وہ سوچتے سوچتے دوسرے دن دفتر پہنچ کر ہی ایجنٹ کو فون کیا کہ آکر ان کی انشورنس کرائے اور انشورنس ایجنٹ نے جب دیکھا کہ اس کا داو کامیاب ہو اہے تو اس نے اس امیر آدمی سے کہا کہ آپ تو امیر ادمی ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے اور یہ کہ میں نہیں آونگا اگر آ پ کو ضرورت ہے تو آپ میرے دفتر آجائیں ۔ اور وہ امیر آدمی اس ایجنٹ کے دفتر پہنچا اور کرڑوں کابیمہ پالیسی خریدا لہٰذا آ پ لو گ بھی اپنی زندگی کے جہاز میں ایک لائف جیکٹ یا لائف بوٹ ضرور رکھئے گا کہ زندگی میں آپ کا کام آئے گا۔لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ انشورنس لینے والے بھی یہ سوچ لیں کہ انشورنس کا نمائندہ بھی ایک انسان ہے اور وہ ہماری خدمت کرتا ہے اور وہ اس کی عزت کریں اور انشورنس کمپنی کے بڑے بھی یہ سوچ لیں کہ یہ و ہ لوگ ہیں جن کی محنت کی وجہ سے ہم اس عہدے پر فائزہیں، یہ یاد رکھیں کہ بڑو ں کے بغیر انشورنس کمپنی چلا سکتاہے لیکن ایجنٹ کے بغیر نہیں ۔ اگر انشورنس بیچنے والا ہی کوئی نہ ہوگا تو منیجمنٹ کیا کرے گی لیکن اگر انشورنس بیچنے والا ھو گا تو پیسوں سے کمپنی چل سکتا ہے اور پاکستان کے عوام سے بھی گذارش ہے کہ ا پنے بچوں کی روشن مسقبل کو محفوظ بنائے اور اپنا اور اپنے عزیزوں کا بیمہ کروائے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button