کالمز

چترال اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا ماضی اور حال

چترال اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن پشاور میں مقیم چترالی طلباء کا نمائندہ تنظیم ہونے کا دعوے دار فورم ہے۔ جو ہر سال نیا نام اور چہرہ لے کر میدان میں آتےہیں۔ یہ وہ واحد تنظیم ہے جس کے ہر ایک سال بعد انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ جس میں الیکشن ہارنے والے امیدوار خواہ مخواہ جیتنے والے کے خلاف محاذ کھولتے ہیں ۔ اسی طرح اس لڑائی جھگڑے کے نتیجے میں کوئی نئی تنظیم وجود میں آتی ہے۔

مجھے پشاور میں موجود اس تنظیم کو سن دوہزار دس سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ دوہزار دس کے انتخابات کے وقت اس تنظیم کا نام سی ایس ڈبلیو اے تھا انتخابات کے نتیجے میں ریشن سے تعلق رکھنے والے ایگریکلچر یونیورسٹی کے رضوان صدر منتخب ہوگئے۔ سن دوہزار گیارہ میں ان کی مدت صدارت مکمل ہوگئی تو انتخابات کا اعلان کردیا گیا۔ امیدواروں نے انتخابی مہم چلائی اور عین انتخابات کے قریب آتے ہی الیکشن کے فیصلے کو واپس لیا گیا بہانہ یہ بنایا، کہ چونکہ تنظیم کو سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ کیا جارہاہے، اور اس سارے عمل میں کافی وقت درکار ہیں لہذا موجودہ سیٹ اپ کو ہی برقرار رکھا جائے گا۔ سب اسٹوڈنٹس نے واہ واہ کئے ۔ محترم رضوان کٹور صاحب اگلے ایک سال تک اس لاوارث تنظیم کے برائے نام صدر رہے۔ سن دوہزار بارہ تیرہ میں پھر صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں چترالی "برہمنوں” کے مقابلے میں زکاالدین کو کامیابی ملی تو ہارنے والے امیدواروں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بالآخر منتخب صدر زکاالدین کے خلاف ایک اور متوازی تنظیم کھڑی  کردی۔ جب سال اختتام پزیر ہوا اور دوبارہ انتخابات  ہوئے جس میں مستوج سے تعلق رکھنے والے نوشاد جان صدر منتخب ہوگئے۔ یہ واحد دورانیہ تھا جس میں کوئی متوازی تنظیم کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ اس سے اگلے سال پھر انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں ریشن سے تعلق رکھنے والے عرفان کامیاب ہوئے۔ اس کے خلاف پھر متوازی تنظیم سامنے لائی گئی۔ سال دوہزار سولہ کے انتخابات میں علی بہادر کامیاب ہوئے۔ پھر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے اور بالآخر ایک اور متوازی تنظیم وجود میں آئی۔ اب چند روز قبل پھر اس نام نہاد تنظیم کے لئے صدارتی انتخابات ہوئے جس میں عابد پیرزادہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ تو برہمن ایک مرتبہ پھر میدان میں کود پڑے  اب سوشل میڈیا کے ذریعے عابد پیرزادہ کو ”ڈی سیٹ” بھی کردیا ہے۔

باخبر ذرائع سےپتہ چلا تھا کہ ایم این ایے چترال اور اس کے رفقائے کار اس الیکشن پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی تھی ناکامی کے بعد پھر چند شرپسندوں کو میدان میں اتارا گیا جنہوں نے پروپیگنڈے کا بازار گرم کیا، اور اب جیتے ہوئے صدر کو ڈیس کوالیفائیڈ کرنے کا اعلان کیا جارہاہے۔ اس سلسلے میں شرپسند گروہ کی جانب سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ سی ایس او کے آئین میں الیکشن لڑنے کے لئے  شرط یہ ہے کہ صرف بی ایس، ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہی صدارتی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سی ایس او کوئی قانونی ادارہ ہے اگر قانونی ادارہ ہے تو وہ حکومت کے کونسے ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے؟ پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی بھی پاکستانی جس کی عمر پچیس سال ہو وہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینٹ سمیت جتنے بھی انتخابات ہوتے ہیں میں الیکشن لڑسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی/ صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے لئے کسی کوالیفاکیشن کی ضرورت نہیں ہوتی تو ایک طالب علم ایسوسی ایشن کو یہ اختیار کس نے دیا کہ اس میں ملکی قانوں کی دھجیاں بکھیر کر صدارت کے لئے مخصوص کوالیفاکیشن کی شرط رکھ دیں ؟ جمہوری معاشروں میں کسی بھی آئین کی منظوری کے لئے منتخب ایوان کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ سی ایس او ایک ارگنائزیشن ہے اس کا آئین ہونا خود تضادات کو واضح کرتی ہے۔ ایسوسی ایشن کا پروفائیل ہوتا ہے کوئی آئین نہیں ہوتا۔ آئین کے لئے ایوان کا ہونا اور منتخب ممبران کی موجودگی ناگزیر ہے۔ جو اپنے لئے لیڈرآف دی ہاوّس نامزر کرتے ہیں۔ اسی ایوان میں اپوریشن بھی ہوتاہے۔ اور آئین سازی کا اختیار اس منتخب ایوان ہی کے پاس ہوتا ہے۔ اب سی ایس او نہ کوئی اسمبلی کے طرز کا ادارہ ہے کہ دو تہائی اکثریت سے آئین پاس ہوا ہے ۔ اگر آئین کسی اسمبلی سے پاس نہیں ہوتا تو اس کی حیثیت ردی کی کوڑی سے زائد کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ جو چند عناصر آئین کی دھائی دے رہے ہیں انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ آئین کس چڑیا کا نام ہے۔

 اگر انسان ذہنی طورپر متعصب اور مثبت سوچوں سے عاری ہو تو وہ ہر دم معاشرے میں انتشار پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

فیس بک میں ایک صاحب نے جس انداز سے دھکمی دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چند افراد اپنی ذاتی تسکین کے لئے چترالی طالب علموں کو لڑانے کے درپے ہیں۔ اگر پشاور میں طلبہ کے درمیان کسی قسم کا کوئی تصادم یا لڑائی جھگڑا ہوا تو اس کا ذمہ دار الیکشن ہارنے کے بعد نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے نفرت پھیلانے والے عناصر ہی ہونگے۔

 بحیثیت پر امن شہری ہمیں ایسے شر پسندوں سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ان کی اطلاع دینی چاہئے۔ بصورت دیگر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتاہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button