کالمز

4اپریل کا دن ۔۔۔قائد عوام

تحریر ، شمس الر حمن شمس

دیانتددار ی ،محبت ، خلوص،اور فرض شناسی ،جمہوریت کو سمجھنے والا ا یسی صفات کسی بھی سیاستدان کے اندر موجود ہوتو لوگ اس کی قدر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ایسے ہی صفات کے حامل دنیا کے ایک نامور سیاست دان اور پہلے منتخب وزیر اعظم پاکستان ذولفقا ر علی بھٹو تھے ۔۔۔۔۔4اپریل کا دن آہ جاتا ہے تو ان سے وابستہ کئی کہا نیاں اور کئی داستانیں یاد آہ کر رہ جاتی ہیں ۔۔بھٹو صاحب جب پہلی بار ملک کا وزیر اعظم بن گیا اور جب وہ کسی دورئے پر تھا تو اچانک کسی ہاری نے بھٹو کے گریبان پکڑ کر کہا کہ آپ نے پوری پاکستان کے لئے تو بہت کچھ کیا مگر میرئے لئے کیا کیا۔۔۔۔۔؟ تو بھٹو نے انتہائی سنجید گی اور نرم مزاجی کے ساتھ اس ہاری کو کہا کہ میں نے آپ میں یہ جر ء ت پیدا کیا کہ آج ملک کے وزیر اعظم کے گریباں پر ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔صرف یہ نہیں کہ میرا ایک دوست صحافی مجھے بتا رہے تھے کہ سعدیہ مہدی نے دو مرتبہ ذولفقار علی بھٹو سے ملاقات کی ، اگر دیکھا جائے تو یہ ملاقاتیں بہت ہی اہم اور تاریخی ہیں اس دن کو تاریخ کا حصہ بنا نا چاہیے کہا کرتے ہیں کہ سعد مہدی صاحب سے یہ بات کنفرم بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ما شا اللہ حیات بھی ہیں۔۔۔۔۔ جنرل ضیاء الحق نے5جولائی 1977کی رات مارشا اللہ لگادیا ،فوج نے ذولفقار علی بھٹو کو گرفتا ر کر لیا اور گورنر ہاوس مری میں محبوس کر دیا ،حکومت ختم ہو گئی ،کابینہ ٹوٹ گئی اسمبلیاں برخواست ہوگئیں ۔۔۔۔۔۔۔بھٹو صاحب 23دن فوج کے حراست میں رہے فوج نے انہیں 28جولائی کو رہاکر دیا ۔۔۔۔۔یاد رہے بھٹو صاحب کو جب رہا کر دیا تھا اسی وقت فوجی حکومت کے خلاف مہم شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔اگست میں لاہور میں بھر پور جلسے کے بعد روالپنڈی آہ گئے اور اسلام آباد اس وقت روالپنڈی ڈسٹرکٹ کا حصہ تھا وفاقی دارولحکومت کے انتظامی معماملات روالپنڈی کے ڈپٹی کمشنر چلاتا تھا۔۔۔۔ سعد مہدی اس وقت روالپنڈی کے ڈپٹی کمشنر تھا ۔اس ٹائم جب بھٹو صاحب نے ایک طرف فوجی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھٹو جیسے لیڈر کو ہینڈل کرنا مشکل تھا تو انتظامیہ بہت مشکلات میں پھنس گئی تھی۔۔۔۔ ۔اور اس وقت پاکستان کی عوام بھٹو صاحب کے اوپر نظریں جما کر بیٹھے ہوئے تھے اسی ٹائم سعد مہدی کہتے ہیں کہ وائرلیس سیٹ پر اطلاع ملی کہ بھٹو صاحب آرمی چیف آفس پہنچ گئے ہیں اور مجھے بھی حکم ملا دوڑتے ہوئے میں وہا ں پہنچ گیا تو ضیاء الحق میری طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ اس کو جانتے ہو ۔۔۔۔ میں نے کہا ہاں سر سابق وزیر اعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو ہیں تو اسی وقت ضیا ء الحق نے کہا کہ سابق نہیں 90دن بعد بھی دوبارہ یہ ملک کا وزیر اعظم ہے انہی باتوں کے ساتھ بھٹو صاحب نے نکل کر چلے گئے اور جنرل ضیاء الحق بھی پیچھے سے آہ کر بھٹو کی گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور اس کو رخصت کیا ۔۔۔۔۔؟ سعدیہ مہدی نے جب ضیا الحق سے کہا کہ سر میرئے لئے کیا حکم ہے تو جنرل نے کہا کہ یہ میرا کوئی تعلق نہیں اس معاملہ سے میں وفاق کو دیکھ رہا ہوں یہ پنجاب گورنمنٹ کا معاملہ ہے ۔۔۔۔ان کی یہ باتیں سن کر میں خود حیران میں پڑھ گیا ۔۔۔۔دوسری ملاقات جیل میں ہوئی اس ٹائم اپیل کا آخری دن تھا ڈی سی صاحب بھٹو صاحب کو رحم کی اپیل کرنے منوانے جیل گئے اور کہا کہ آج رحم کی اپیل کا آخری دن ہے اپیل کر لیں اور اگر آج اپیل نہیں کرو گے تو کل آپ یہ اپیل نہیں کر سکو گے ۔بھٹو صاحب نے مہدی صاحب کی طرف دیکھا اور کہا کہ میرا نام کیا ہے تو سعدمہدی صاحب نے کہا کہ ذولفقا ر علی بھٹو ہے بھٹو نے پھر پوچھا کہ اور میرئے والد کا نام کیا ہے تو سعد مہدی نے ارشاد فر مایا کہ سر شاہ نواز بھٹو تھا پھر بھٹو نے کہا کہ قابض جنرل کا کیا نام ہے تو سعدیہ مہدی نے فر مایا کہ ضیاالحق پھر پوچھا کہ ان کے والد کا نام کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ جناب مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔ اسی وقت بھٹو صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے کہ تم یہ چاہتے ہو کہ سر شاہ نواز بھٹو کا بیٹا زولفقار علی بھٹو ایک نا معلوم مولوی کے بیٹے سے اپنی ذندگی کی بھیک مانگے۔۔۔۔ ۔سعدمہدی خاموش رہے بھٹو صاحب نے کہا کہ مسٹر ڈپٹی کمشنر میں اس شخص کو اپیل کا مزہ لینے نہیں دونگا یہ فیصلہ میں تاریخ پر چھوڑتا ہوں ۔۔۔۔بھٹو کا فیصلہ تاریخ کرئے گی ۔سعد مہدی مایوس ہو کر واپس چلے گئے اور چار اپریل1979کو رات 2بجے کر چار منٹ پر روالپنڈی میں پھانسی پر لٹکایا گیا ۔۔۔۔صبح جنرل ضیا الحق روٹین کے مطابق آفس گئے راستے میں جا کر فاتح خوانی کی اسے پہلے کسی کو نہیں پتہ تھا کہ ذولفقار علی بھٹو ہمارئے درمیان نہیں رہے ۔۔۔اسی سلسلے میں آج جہاں دنیا بھر میں اس دن کو انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں تو گلگت بلتستان کے لوگ بھی انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں ۔۔۔۔اسی سلسلے میں اس دن کو صوبائی دارولخلافہ گلگت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سنیر نائب صدر جمیل احمد ،سعدیہ دانش ، کی سر براہی میں اس دن کو اچھے طریقے سے منایا گیا تو دوسری طرف بلتستان ریجن کے تمام اضلاع میں بھی عقید ت و احترام کے ساتھ منائی گی اس طرح استور میں پاکستان پیپلز پارٹی استور کے زیر اہتمام یہ برسی منائی گئی تو دوسری طرف صداقت ہاوس عیدگاہ میں بھی بھٹو کے ایصال ثواب کے لئے فاتح خوانی کی گی ۔۔۔۔تو ہم بھی اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہے کہ شہید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمایں (آمین )

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button