کالمز

گلگت بلتستان کے بیروزگار نوجوانوں میں مایوسی

پچھلے دنوں قانون ساز اسمبلی کے معزز سپیکر صاحب نے کہا تھا کہ گلگت بلتستان کے نوجوانان سرکاری نوکری کے پیچھے پڑنے کے بجا ئے ریتی باجری کا کام کریں تو زیادہ فائدے میں رہینگے ۔جس کو سابقہ حکمران جماعت برا مان گئی اور رد عمل میں کہا کہ اگر ریتی باجری میں اتنا فائدہ ہے توسپیکر صاحب اپنا عہدہ چھوڑ کر ریتی کا کام شروع کریں ۔اب سا بقہ دوستوں کو کون سمجھا ئے گا کہ سپیکر صاحب سرکاری نو کر نہیں ہے۔ قانون ساز اسمبلی کا سپیکر ہے ۔یہ مشہورہ انہوں نے اپنے لیول کے لوگوں کو نہیں دیا ہے بلکہ غریب کے بچوں کو دیا ہے جو عام ووٹر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کوپڑھاتے ہیں۔ والدین ناخواندہ ہونے کے باوجود مٹی گارے کا کام کر کے بچے کو ماسٹر کلیٹ بنا دیتے ہیں۔ اب سپیکر صاحب کی طرف سے ان اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی موروثی گدی سنبھالنے کا مشہورہ دینا حیران کن امر ہے ۔جب وراثت میں گنتی بلچہ ہی اٹھانا تھا تو اتنی تکلیف اٹھانے کی کیا ضروت تھی ریتی کیلے ڈگری نہیں بلکہ عام فہم لغت میں زور بازوہی کافی ہے اور اس قسم کے لو گ ہائر ایجوکیٹڈ میں ایک فیصد بھی دستیاب نہیں ہوتے ہیں جو ریتی بجری کا منافع بخش سعادت حاصل کر سکے۔جس کو سپیکر صاحب بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کیو نکہ موصوف صرف سیاستدان نہیں ہے بلکہ بہت بڑے شاعر و ادیب بھی ہیں ایک شاعر اپنے گرد و پیش کو باریک بینی سے دیکھتا ہے ہر بات کو گہرائی تک سوچنے کے بعد نتیجہ اخز کرتا ہے سپیکر صاحب کا حالیہ مشہورہ بھی انتہائی گہری سوچ کا نتیجہ ہے جس پر عمل نہ بھی کیا جائے تو کم از کم سوچنا از حد ضروری ہے چونکہ یہ کلام کے بجائے نصیحت کی شکل میں انتہائی مایوسی کے آخری حدو ں میں ایک نامور شاعر کی تخلیق ہے ۔ایک طرف میرٹ ایمانداری حقدار کو حق کی فراہمی کی دعوے ہیں دوسرے طرف این ٹی ایس جیسے دیکھاوے ہیں ایسی صورت میں سپیکر صاحب کی مایوسی بالکل حق بجانب ہے انہوں جس طبقے کو یہ مشہورہ دیا ہے میرے خیال میں یہ مشہورہ ان کیلے سب سے بہتر ہے ایسی پر عمل کرنا چاہیے ۔سرکاری نوکری کے حصول اب عام آدمی کی بس کی بات نہیں رہی ہے اس کیلے اچھا خاصا سیاسی بیک گرونڈ کے ساتھ ساتھ مال و متاع کی فروانی بھی درکار ہے قابلیت اہلیت کا تو ویسے بھی اس ملک میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے بلوچستان کے کسی بزرگ نے درست ہی کہا تھا کہ ڈگری ہونی چاہیے ۔ اصلی ہو یا نقلی ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔اللہ معاف کریں ایسے ایسے لوگ جن کو میں جانتا ہوں جو ڈگری کے کرامات سے مستفید ہورہے ہیں اور ایسے لوگوں پر نوازشات کی بارش ہے جو بالکل بھی اہل نہیں ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اہلیت رکھنے کے باوجودبھی سسٹم کے نظر میں نا اہل ہیں ۔ اور ساتھ ہی این ٹی ایس کا نرالا طریقہ کہ گزشتہ دنوں نائب تحصلدار کے ٹیسٹ میں نصف پیپر لا ء سے متعلق بنایا گیا اگر کسی لائر کو لینا تھا تو خوامخواہ کے ازیت عام بیروزگار نوجوانوں کو کیو ں دیا گیا؟سیدھے طور پر ایل ایل بی کی ڈگری لازمی قرار دیتے ایک عام آدمی کو لا کے بارے میں کیا معلومات ہو سکتے ہیں جس کو قانون کے داو پیچ کا علم ہی نہیں ہے اس کو نصف نمبرات کے لاء میں الجھا کر فیل کردیا جو کہ سراسر نا انصافی ہے جو لوگ لاء چھوڑ کر باقی پیپر میں پاس ہوگئے ہیں ان کو کامیاب قرار دینا چاہیے کیونکہ یہ ان کنڈٹیٹز کی غلطی نہیں ہے بلکہ اس ادارے کی غلطی ہے جس نے اشتہار دی ہے اور پیپر تیار کی ہے۔ایک طرف شدید قسم کی بیروزگاری لاحق ہے دوسری طرف کوئی ادارہ اپنی غلطی بھی ان بیروزگار نوجوانوں پر ڈالدیں تو یہ کسی صورت میں انصاف کا معا ملہ نہیں ہوگا۔چونکہ سسٹم کی ایسی طرح کے خرابیوں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں لاکھوں نوجوان بیروزگار ی کا سامنا کر رہے ہیں یہاں پر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح روزگار کے اور زرائع نہیں ہیں یا تو سرکاری نوکری ہے یا پھر سپیکر صاحب کا مشہورہ ہے اب ایک گریجویٹ یا ماسٹر کلیٹ بیلچہ لیکر کب تک دریاکے کنارے پر اپنی قسمت پر ماتم کرے گا ؟اس سسٹم سے ایک شاعر و ادیب اس قدر ما یوس ہے جو سسٹم میں رہ کر مایوسی کا اظہار کرتا ہے تو ایک عام غریب آدمی کا کیا حال ہو گا؟جو جس ادارے میں گھسا ہے ہاتھ پیر بینائی سماعت بلے کام چھوڑ دے لیکن وہ اس ادارے کو چھوڑنے کیلے تیار نہیں ہے چالیس سال سروس کرنے کے بعد بھی ساٹھ سال پورے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جس بزرگ کو مسجد کے احاطے میں بیٹھ کر اپنے پوتے پوتیوں کو دعائے دینی چاہیے بدقسمتی سے وہ اداروں سے چمٹ کر نوجوان نسل کی حقوق پر شب خون مارنے کے باعث بن رہے ہیں سر کار کو ایسی پالیسی بنانا چاہیے جس سے ایسے ضعیف العمر حضرات اپنے گھروں میں آرام کریں اور نوجوانوں کو ملک و ملت کی خد مت کا موقع فراہم کریں۔ورنا صوبہ بھر میں موجود یہ اعلی تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان درد سر بن سکتے ہیں ۔چونکہ یہ نوجوان حکومت کے علامتی میرٹ کے دعووں سے سخت ما یوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button