کالمز

بلتستان کے نامیاتی گاؤں میں مرُشدکی یاد

سکردوشہرمیں چندروزقیام کے دوران ایسی جگہیں ذہن میں گردش کرتی رہی جہاں پہلے کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا ہو۔ اگرچہ شہری ودیہاتی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ خود بھی کسی سیاحوں کی جنت سے کم نہیں۔ جہاں ایک طرف شہری طرززندگی گزارنے کے قائل افراد اپنے بچوں کومعیاری تعلیم کے ذریعے چاندپرقدم رکھوانے کی جستجومیں مگن ‘ تو دوسری جانب مجھ جیسے دیہاتیوں کو وافرمقدارمیں دودھ دینے والی اعلیٰ نسل کی گائے اورسنڈیوں سے محفوظ فصلوں کی پیداوارکی فکر لاحق۔ ایک طرف انسان شہری طرززندگی کے لوازمات کی خاطردولت وشہرت کی حوس میں مبتلا ‘ تو دوسری جانب تین ٹائم کا کھانا نوش فرماکرطائرلاہوتی کا شکرانے اداکرنے کے بعدسکون کی نیندسونے والا طبقہ۔

مگر حیرت اس بات پر کہ اس قدرگوں نا گوں ماحول کے باوجود آج تک اس علاقے میں انسان تو درکنار کسی جانورکا بھی خون ناحق بہانے کاکوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے بلتستان سیاحوں کا ایک محفوظ مسکن کہلاتا ہے۔ ورنہ دیکھا جائے تو نانگا پربت بھی توسیاحوں کی ایک جنت ہے‘ مگروہاں پر22جون2013کوسیروسیاحت کی غرض سے آنے والے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ جوسلوک کیا گیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

قدرتی حسن اور دلکش نظاروں کے علاوہ کیا بلتستان کے لوگوں کی اس خصوصیت سے انکاری ممکن ہے‘ جہاں اس نفسانفسی کے دورمیں ایک انسان کسی اجنبی کوسلام تک کا گوارہ نہیں کرتا ‘ وہاں اس علاقے کے حاجی علی جیسے باسی کسی اجنبی کو مہمان سمجھ کرایک کی بجائے تین پیالی چائے پینے پربضدہوکر ایک غیرملکی سیاح کواپنے اس اداکے زریعے پوری کتاب لکھنے پر مجبورکردیتا ہو۔

اس سے بڑھ کر جہاں بلتستان کی بات آجائے وہاں یوسف حسین آبادی جیسی ہستیوں کاذکر کیوں نہ آئے۔ جنہوں نے سیاحتی ترقی کی خاطر ایک وسیع وعریض رقبے کوتفریح گاہ بناڈالا ہو۔ جس کے اندرقسم کے پھول، پھل، سبزیاں، عجیب وغریب جانور، چرند، پرند اوراثارقدیمہ کو اکھٹا کرکے بلتستان کی خوبصورتی کو چارچاندلگادیا ہے۔

شنگریلا، کھرپوچو قلعہ، شگرفورٹ اورخپلو فورٹ بلتستان کی خوبصورتی کی عکاس تو ہے ہی، جہاں ایک نہیں دس بار بھی جانا پڑے تودل اکتانے کا نام نہیں لیتا۔ لیکن نئے سیاحتی مقامات کی تلاش بھی تو جان نہیں چھوڑدیتی۔ اس طلب میں جب ایک ایسے گاؤں کا پتہ چل جائے جہاں کے مکینوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہے ‘ تواس سے اچھی خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے۔

جی ہاں یہ بلتستان کا وہ چھوٹا سا گاؤں ہے جو اپنی چندمنفردخصوصیات کے سبب ’’پہلاآرگینک ویلیج‘‘ کہلاتاہے۔ تاہم گوگل نے مجھے آرگینک کا اُردو معنی ’ ’ نامیاتی‘‘ بتادیا۔ اب آپ اسے آرگینک کہے یا نامیاتی لیکن گاؤں کا اصل نام ’’نان سوق‘‘ ہے۔ یہ گاؤں سکردو شہر سے کھرپوچو قلعے کے عقبی راستے پر دریا سندھ کے کنارے آباد ہے۔ گاؤں کی آبادی سترسے اسیّ افراد اورکم وبیش ایک درجن گھرانوں پر مشتمل ہے۔ سکردو سے یہاں تک پیدل سفر ایک گھنٹے پر مشتمل ہے۔ پیدل سفر کا ذکراس مقصدکی خاطرکیا جارہا ہے کہ اس گاؤں کی طرف کسی بھی قسم کی ٹریفک چلتی ہے نہ ہی ٹریفک کے لئے کوئی سڑک موجود ہے۔ لہذا یہاں کا سفرصرف اور صرف پیدل ہی طے کیا جاسکتا ہے۔

گاؤں کی طرح سفر بھی دلچسپ ہے۔ وہ بھی کھرپوچوکے دشوارگزارپہاڑی اور دریائے شگرکے اُداس ساحلوں کے درمیان سے۔ دوران سفرجہاں ایک طرف موسم بہارکے مہمان پرندے دریا پر منڈلاتے نظرآتے ہیں تو دوسری طرف ویران پہاڑی پر چرتے خوبصورت مارخورمہمانوں کوسلامی دے رہے ہوتے ہیں۔

گاؤں کا احاطہ چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے تعمیرشدہ ایک دیسی ساختہ گیٹ سے شروع ہوتا ہے۔ گیٹ پرانگریزی میں اولین آرگینک گاؤں میں خوش آمدید کے الفاظ نقش کئے گئے ہیں۔ گیٹ کے بائیں جانب ایک خستہ حال سائن بورڑپراس منفردگاؤں میں دستیاب سہولیات کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ ان سہولیات میں آرگینک شپ فارمنگ، نیچرل واٹرسپرنگ، سیٹنگ ایریا، ٹروٹ فش فارم، کراپ پروڈکشن ایریا، آ رگینک پولٹری، ٹوائلٹ، کیمپنگ ایریا اورویلیج ہاؤسنگ وغیرہ شامل ہیں۔

سائن بورڑپرگاؤں میں داخل ہونے والے مہمانوں کے لئے چند ہدایات بھی درج ہیں۔ جن میں مقامی روایات کی قدردانی، رہائشی ایریازمیں داخلے سے اجتناب، قدرتی ماحول کاتحفظ، گندگی اور کچرہ پھیلانے سے گریز اور مسئلہ مسائل کی صورت میں مقامی کمیٹی سے رجوع کرنے کی استدعا وغیرہ شامل ہیں۔

گاؤں شروع ہوتے ہی آپ خود کو ایک الگ دنیا میں محسوس کرتے ہیں ۔ جہاں ہرطرف ہرے بھرے کھیت ، لہلاتے پھول، چھوٹے چھوٹے باغات ، بیمار اور عمررسیدہ درخت کے جنگل ، گنگناتے چشموں، بودا مکانات ، پالتوجانور، چرند پرندکی آوازیں اورمسکراہٹ بھرے چہرے آپ کا استقبال کررہے ہوتے ہیں۔

گاؤں کوآرگینک اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں کے باسی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے معاملے میں خودانحصارہیں۔ یہ لوگ کھانے پینے کے لئے گھریلو سطح پر دستیاب خالص غذا کا استعمال کرتے ہیں۔ گندم ، سبزیاں اور پھلوں کی پیداواران کی اپنی ہے ۔ یہ لوگ ان اجزاء کی پیداوار کے سلسلے میں کمیائی کھاد کی بجائے دیسی کھاد، گوبر وغیرہ کوترجیح دیتے ہیں۔ دودھ، انڈے، مکھن، لسی، گوشت وغیرہ کے معاملے میں بھی یہ لوگ خودکفیل ہیں ۔ یہاں کے کھانے انتہائی لزیز اور متوازن ہیں جن میں دونمبرکے مصالاجات کی ملاوٹ بالکل نہیں کی جاتی۔ یہاں پر بازاری چیزوں کا استعمال آٹے میں نمک کے برابرہے۔ حتیٰ کہ چھوٹی موٹی بیماریوں کا اعلاج بھی دیسی ٹوٹکوں کے زریعے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بشرط کہ وہ بیماری کوئی پیچدہ صورت اختیارنہ کرجائے۔

مہمانوں کے لئے قیام کے لئے رہائشی آبادی سے قدرے فاصلے پر دیسی ساخت کے دوکمرے تعمیرکئے گئے ہیں ۔ جہاں دیسی دودھ کی چائے اور لسی سفرکی تھکاوٹ دورکرنے کے لئے دستیاب ہے۔ گاؤں کے لوگ انتہائی صفائی پسند اور قدرتی ماحول کوآلودگی سے بچانے کے حوالے سے سخت محتاط ہیں۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک خاتون کو اپنے روتے ہوئے بچے کو چھوڑکربالٹی میں نہرکا پانی اٹھاکردورجاکرکپڑے دھوتے دیکھا جو ایک باشعوردیہی خاتون کا خاصا ہوتا ہے۔ ورنہ گلگت جیسے علاقوں میں نہری پانی کوآلودگی سے بچانے کا بھلا کس کو خیال آتا ‘ جہاں پورے شہرکاکچرہ اٹھاکردریائے بردکرنے کوصفائی کا نام دیا جاتا ہو۔

نان سوق گاؤں کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لئے گاؤں میں جگہ جگہ کچرہ دان نصب کئے گئے ہیں۔ کچرہ دان کے علاوہ زمین پرگندگی وکچرہ پھیلانا سخت ممنوع ہے۔ گاڑی، ٹریکٹر، موٹر سائیکل وغیرہ کا بھی اس گاؤں میں کوئی تصورنہیں۔ ہم نے گاؤں میں ایک نوجوان دکاندار سے شہرسے گاؤں سامان کی ترسیل کا ذریعہ معلوم کیا تو سامنے دریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا بھاری سامان دریا کے اس پارتک ٹریکٹرمیں لایا جاتا ہے ‘ وہاں سے آگے کندھوں پر اٹھاکر دریا عبورکیا جاتا ہے ۔ چھوٹا موٹا سامان لوگ خودہی اٹھاکر لاتے ہیں۔

دکاندار سے جب ہم نے زندگی کی بنیادی سہولیات سے متعلق پوچھا توبتانے لگا کہ یہاں پر ہرچیزمیسرہے سوائے تعلیمی وطبی سہولیات کے۔ اس معاملے میں یہ گاؤں حکومت کے نظروں سے شاید اس لئے اوجھل ہے کہ یہاں کی آبادی انتہائی قلیل ہے اور ووٹ تو بہت کم ہی ہوگا۔ یہاں کے بچے تعلیم کے حصول کے لئے روزانہ دوگھنٹے آنے جانے کی مسافت طے کرکے سکردوشہرکارخ کرلیتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں۔ طبی سہولیات کے حصول کے لئے بھی یہاں کے لوگ سکردو شہرکے محتاج ہیں۔

ہمیں بتایا گیا کہ اس آرگینک گاؤں کی آبیاری کے لئے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام(اے کے آر ایس پی) نے مقامی کمیونٹی کی بھرپورمعاونت کی۔ اور یہ بات جب اے کے آر ایس پی کے سربراہ ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کے علم میں لائی گئی تو انہوں نے 2006میں برطانوی شہزادے پرنس چارلس اور ان کی اہلیہ کے ہمراہ آرگینک گاؤں کا خصوصی دورہ کیا اور گاؤں کے لوگوں کے ساتھ چند یادگاری لمحات گزارے۔

اس کے علاوہ ملکی وغیرملکی سیاحوں کی کثیرتعداد سیاحت کے موسم میں اس گاؤں کا رخ کرتی ہے اوریہاں کی خوبصورتی سے بھرپورلطف اٹھاتی ہے ۔ تاہم بہت سارے سیاحوں کی نظروں سے اوجھل یہ گاؤں اب بھی مناسب تشہیرکا محتاج ہے۔ تب ہی تو گاؤں کے آخری حصے میں واقعہ ایک کھنڈر نما پن چکی کے ساتھ بیماردرخت کی ٹہنی سے ٹیک لگاکرپانی کا گھونٹ لینے کے دوران اچانک اپنے مرُشدوقاراحمدملک کی یاد آگئی۔

کاش میری جگہ وہ ہوتے تواس گاؤں کی ایسی تصویر بناکر پیش کرتے جس پر دنیا بھی رشک کررہی ہوتی۔ اسی لئے مجھے ’ ’ ہم سب‘‘ کی ویب سائٹ پر دستیاب ان کا ایک تعارف یاد آیا جس میں وہ کہتے ہیں

’’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مریداوربالکا ہے‘ جو روتے ہوئے اپنے بیماربچے کے گالوں کوخانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی ‘ اور ہم کہتے ہیں‘ اجڑے گھرآباد ہوں، یارب اجڑے گھرآباد۔۔۔‘‘

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button