کالمز

چلاس شہر یا موت کا کنواں

گزشتہ دن ایک سترہ سا لہ نوجوان جس کا تعلق تھک سے تھا جو ابھی مکمل طور پر زندگی کے دھوپ چھاؤں تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ بجلی کے کرنٹ لگنے سے اس دارالفانی سے دارالبقا ء کی جانب کوچ کر گیا موت کا زائقہ تو ہر زی نفس کو چکنا ہی ہے مگر ایسی موت جو عین جوانی کی دہلیز پر قدم ہی رکھا ہو عملی زندگی کے شروعات سے پہلے ہی اس دنیاں کے عارضی رعنائیوں کو خیر باد کریں تو دکھ ا ور کرب محسوس ہوتا ہے موت نے تو ہر گھر پر ڈیرہ جمانا ہے انسانوں کی کوئی بستی کوئی خانہ ایسا نہیں ہے جہاں موت کے سائے نہ پڑے ہوں ہر گھر سے میت نکلی ہے اور نکلے گی سو سال پہلے جو لوگ اس زمین پر اکڑ کر چلتے تھے آج ان کا نام و نشان نہیں اور سو سال بعد آج کے زمین پر موجود انسان بھی قصہ پارینہ بن جائینگے۔موت کو ہمارے روح نے قبول کی ہے جس سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے جہاں جہاں وقت مقرر پر جو لوح محفوظ میں لکھا ہے اسی سے سبھی کو گزرنا ہے مگر جس موت میں انسانوں کی کوتاہی کار فرماں ہو اس پر غور و خوز لازمی ہوتا ہے تاکہ آیندہ کسی کے ساتھ اسطرح کا افسوسناک حادثہ پیش نہ آئے ان کوتاہیوں کا تدارک لازمی ہوتا ہے جن سے انسانی زندگی کو خطرات لا حق ہو مگر بد قسمتی سے دیامر میں عوامی معاملات پر کوئی خاص توجہ نہیں دیا جاتا ہے اور نہ ہی میڈیا کے رپوٹ پر کوئی نوٹس لیا جاتا ہے اس غیر محفوظ اور غیر معیاری بجلی کے نظام کے بارے میں اس سے قبل بھی بارہامیں نے اپنے تحریروں میں زکر کیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ محکمہ نے کوئی اقدامات نہیں اٹھا یا ۔چلاس شہر میں دا خل ہوتے ہی سڑک کے دونوں جانب نکاسی نالی کے ساتھ بجلی کے پول نصب ہیں جو زرا سی بارش کے بعد شارٹ ہو جاتے ہیں زرا سا سر آسمان کی طرف اٹھائے تو بجلی کے پول کے ساتھ ساتھ محکمہ برقیات کا پول بھی کھل جاتا ہے بے ترتیب پولز پر تاروں کی شکل میں مکڑیوں کا جالا بنا ہوا ہے وہ بھی اس قدر کہ سر اٹھا ئے تو خوف طاری ہو جاتا ہے کب کوئی پول گر جائے یا تاریں ٹوٹ کر راہ گیروں کو زندہ جلادے درجنوں مرتبہ میں نے خد اپنے آنکھوں سے شہر کے وسط میں آگ لگتے ہوئے چنگاریاں اڑتے ہوئے دیکھا ہے اور ازمہ داران کو اس حوالے سے شکایت بھی کیا مگر حالت جوں کہ توں ہے۔ گزشتہ ایک سال میں ڈپٹی کمشنر چوک پر نصب بجلی کا پول شارٹ ہونے سے چار مویشی حلاک ہو چکے ہیں۔ اور یہ پول ہمیشہ شارٹ رہتا ہے بارش کے دنوں میں تو پورا چوک خوف کا علامت بن جاتا ہے اور ایسی لائن میں نصب تمام پولز شارٹ ہی رہتے ہیں محکمہ کی اس لا پرواہی کی وجہ سے آج کوئی ایک باپ کو اپنے جوان بچے کے لاش کو کندہ دینا پڑا ہے کل کئی جانے جا سکتی ہیں اس سے قبل بھی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے کئی جانے ضائع ہو چکی ہیں اور مذید بھی قیمتی جانے ضائع ہو سکتی ہیں چونکہ اس شہر میں انسانوں کے ساتھ جانوروں والا سلوک ہے دکانوں کے چھت کے ساتھ ہی بجلی کی لائن گزارا گیا ہے خدا نخواستہ رات کے تاریکی میں کہے کوئی ایک لائن بھی شاٹ ہو تو اگلے چند لمحوں میں پورا شہر جل کر خاکستر ہو سکتا ہے مالی نقصان تو ہوگا ہی مگر جانی نقصان بھی اس قدر ہوسکتا ہے جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگا یا جا سکتا ہے چونکہ شہر کے ساتھ ہی کئی رہائشی کالونیاں واقع ہیں ایک معمولی شارٹ بھی تباہی کا باعث بن سکتا ہے صرف کل کے ایک دن میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو بجلی کے جھٹکے لگے اور ایسا ہر بارش کے بعد ہوتا ہے یہاں بجلی کا نظام اس قدر فرسودہ ہے کہ رات کو بلب کی روشنی میں ساتھ بیٹھا ہوا آدمی کا چہرہ تک نظر نہیں آتا ہے اور کبھی کبار تو بجلی اچانک اس قدر تیز ہوجاتی ہے کہ بلب کے ساتھ پنکھے اور دیگر اشیاء بھی شاٹ سرکٹ کی وجہ سے جل جاتے ہیں ۔یہ دنیاں کا آخری شہر ہے جہاں کبھی کبار بجلی ہفتوں تک غائب ہو جاتی ہے جب آتی ہے تو قیامت بن کر ٹوٹ جاتی ہے جس کا واضع ثبوت کل کا بدترین حادثہ ہے جس میں ایک نوجوان واجد کی انتہائی قیمتی جان ضائع ہو گئی حکومت وقت کو چاہیے کہ چلاس شہر کی حالت پر رحم کر کہ بجلی کے ناقص نظام کو درست کریں اور ساتھ میں مر حوم کے لوا حقین سے ہمدردی کا معا ملہ کرتے ہوئے کمپنسیشن کی فراہمی کو بھی یقینی بنا ئے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button