کالمز

کھر کا کھرا موقف

ہوا کا تازہ جھونکا بن کر خبر آگئی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور گورنر غلام مصطفی کھر نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کرکے پاکستان تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کیا ہے اس موقع پر غلام مصطفی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت ہے تبدیلی صرف نئے چہرے ہی لا سکتے ہیں عوام سیاست میں پرانے چہروں سے تنگ آچکے ہیں انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ سیاست کو نوجوانوں کے ہاتھوں میں دیا جائے انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ملک کو کرپشن سے وہ لوگ نجات دلا سکتے ہیں جنکا دامن کرپشن سے پاک ہو اس موقع پر اپنی گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف مستقبل کی جماعت ہے اس جماعت میں بے داغ ماضی کے حامل سیاستدانوں اور نئے نوجوانوں کا خیر مقدم کیا جائے گا ہم نئے آنے والوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرینگے اب مبصرین اور تجزیہ کار اس پر بحث کرینگے کہ غلام مصطفی کھر پاکستان تحریک انصاف کا اثاثہ بن کر فائدہ پہنچائینگے یا جاوید ہاشمی اور چوہدری سرور کی طرح مصیبت بن کر پی ٹی آئی کے گلے پڑ جائینگے گذشتہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو سندھ اور بلوچستان کی طرح پنجاب میں بھی پذیرائی نہیں ملی وزیر اعظم بننے کے لئے پنجاب میں کم از کم 100سیٹوں پر ایم این اے منتخب کرانا ضروری ہے باقی 3صوبوں سے اگر 60نشستیں مل جائیں تو تین چار پارٹیوں کو ساتھ ملا کر 362کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کی جاسکتی ہے 2018کے انتخابات کی آمد آمد ہے تیاری کے لئے مختلف پارٹیاں اپنے مہرے سنبھال کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہیں سابق صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں پنجاب سے 120اور باقی تین صوبوں سے 80اراکین منتخب کرانے کا ٹارگٹ دیا ہے مردان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان نوجوانو ں کی قیادت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ عمر میں مجھ سے چار سال بڑے ہیں ایک خبر یہ بھی ہے کہ عمران خان نے آئندہ انتخابات میں راولپنڈی اسلام آباد کی نشست این اے 56کو چھوڑ کر کسی اور سیٹ پر انتخاب لڑنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے 2013کے انتخابات میں عمران خان نے پشاور اور میانوالی کی سیٹوں کو خالی کرکے این اے 56کی سیٹ اپنے پاس رکھی تھی یہ بڑے کام کی سیٹ ہے دھرنوں میں اس سیٹ نے بڑا کام دیا ہوسکتا ہے عمران خان ایک بار پھر این اے ون پشاور کا انتخاب کرکے اہل پشاور کو ایک بار پھر بہت بڑی آزمائش سے دوچار کریں یا لاہور ، کراچی اور کوئٹہ سے الیکشن لڑیں ہوسکتا ہے لاہور سے قسمت ازمائی کریں ہوسکتا ہے چاروں صوبوں سے ایک ایک سیٹ پر کاغذات نامزدگی داخل کرکے چاروں صوبوں کی زنجیر کا نیا اعزاز اپنے نام کرلیں 76سالہ کہنہ مشق سیاستدان غلام مصطفی کھر کی صورت میں جو’’نیا خون‘‘ پاکستان تحریک انصاف کی رگوں میں داخل ہوا ہے اس خون کو شوکت خانم میموریل ہسپتال کی کسی بڑی لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے کہیں اس میں تھیلی سیمیا، پیلیا، کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کے جراثیم نہ ہوں پولیو کے جراثیم سے یہ خون پاک ہواور ایڈز وغیرہ کے مضر اثرات سے محفوظ ہو۔ غلام مصطفی کھر کا یہ کھرا موقف ہمیں بہت پسندآیا کہ پاکستان کو نئے چہروں کی ضرورت ہے چلے ہوئے کارتوس اب ملک کی نیّا کو پار نہیں لگاسکتے اب پتہ نہیں ہمارے ممدوح شیخ رشید احمد اس پر کیا تبصرہ کرینگے غلام مصطفی کھر عمر میں شیخ رشید سے بڑے ہیں انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سیاست شروع کی 1967میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے16دسمبر1971کے سانحے کے فوراً بعد زید اے بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو غلام مصطفی کھر کو پنجاب کا گورنر مقرر کیابعد میں وزیر اعلیٰ بنے اس کے بعد سیاسی منظرنامے سے غائب ہوگئے البتہ ادب کی دنیا میں’’مائی فیو ڈل لارڈ‘‘اور’’ مینڈا سائیں‘‘ ان کی دویادگاریں ہیں دوسری کتاب پہلی کتاب کا پنچابی ترجمہ ہے صنف اگرچہ ناول کی ہے مگر اسلوب سوانح عمری کا ہے مصنّفہ نے غلام مصطفی کھر سے طلاق لے لی حلالہ کے لئے خادم اعلیٰ سے شادی کی مگر واپس کھر کے پاس نہیں آئی 76سال کی عمر میں یہ دکھ انہیں بنی گالہ لے آیا اب حساب برابر ہوگا مگر کیسے؟ پی ٹی آئی پنجاب میں بحران سے دوچار ہے چوہدری سرور ، شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین ایک دوسرے کو پنچا دکھانے پر تلے ہوئے ہیں اب چوتھا ’’سورما‘‘ غلام مصطفی کھر کی صورت میں رینگ کے اندر آگیا ہے اور ایسے وقت پر آگیا ہے کہ ان کا حلقہ انتخاب بھی غیروں کی گود میں ہے ’’پانامہ‘‘ کا آلو قیمہ پک کر تیار ہوا تو پتہ لگا کہ مصالحہ جل گیا تھا اب اسے دوبارہ دیگچی میں ڈال کر چولہے پر چڑھایا گیا ہے ہلکی آنچ دی جارہی ہے پک کرسامنے آنے کے بعد اس کے ذائقے کا پتہ لگ جائے گا اگر اب کی بار پھر مصالحہ جل گیا اور ذائقہ برباد ہوا تو تیسری بار اس دیگ کو چولہے پر کوئی نہیں چڑھائے گا گویا ساری محنت رائیگاں جائیگی بات وہی ہے پی ٹی آئی کو نئے خون کی ضرورت ہے اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو سندھ سے سید قائم علی شاہ اور بلوچستان سے نواب اسلم خان رئیسانی کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیونے دو‘‘2018کے انتخابات سے پہلے غلام مصطفی کھر کا پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا تازہ ہوا کا جھونکا ہے البتہ کھر کا کھرا موقف پی ٹی آئی کو راس آئیگا یا نہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button