کالمز

حادثات کا ذمہ دار

لواری ٹاپ کا راستہ کھلنے کے ابتدا ئی دو ہفتوں کے اندر 38حادثات ہوئے 44گا ڑیاں الٹ گیءں 13افراد جان بحق اور 18زخمی ہوئے ایک گھنٹے کا فاصلہ لوگوں نے 10 گھنٹون میں طے کیا ان حا دثات کی بنیادی وجہ سال 2017کے ٹھکیدار کی غفلت اور لواری ٹاپ روڈ کی برُی حالت ہے ہر سال لواری ٹاپ کا ٹھکیدار برف کو ہٹانے کے علاوہ سڑک کی مرمت بھی کرتا تھا مختلف موڑوں پر سڑک کو کشادہ کرتا تھا دیواروں کی مرمت کرتا تھا کھڈوں کی بھرائی کرتا تھا داود اینڈ کو ،ٹرپل اے کنسٹرکٹرز ،اے ایم کنسٹریکٹرز اور دوسرے ٹھیکہ دار لواری ٹاپ کا ٹھیکہ لیتے تھے تو ٹھیک طرح سے کام کرکے سڑک کو ٹریفک کیلئے کھولتے تھے۔ 2017ء میں ایسا نہیں ہوا۔

26مارچ اور 4اپریل کے درمیانی ہفتے کی بات ہے ٹھیکہ دارنے 8فٹ سڑک سے برف ہٹاکر بل مانگا حکام نے مطالبہ کیا کہ پہلے کام کو مکمل کرو 20فٹ سڑک سے برف ہٹاؤ دیواروں کی مرمت کرو موڑوں کو کشادہ کرو کھڈوں کی بھرائی کرو اور ٹریفک کو بحال کر کے بل لے لو ٹھیکہ دار تگڑ ا آدمی تھا اُس نے انکارکیا۔ 29مارچ کے بعد مینہ برسنے لگا اور بارش کے پانی نے برف کو پگھلا کر سڑک کو گاڑیوں کی دو طرفہ ٹریفک کے قابل کیا۔ 19اپریل کو لواری ٹاپ کا راستہ عام ٹریفک کے لئے کھل گیا تو پتہ چلا کہ سڑک نا قابل استعمال ہے سڑک کی مرمت نہیں ہوئی یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹھیکہ دار نے مجاز حکام کی کن پٹی پر پستول رکھ کر اپنا بل وصول کر لیا ہے ابھی تین چوتھائی کام باقی تھا صرف ایک چو تھائی کام پر ٹھیکہ دار کو پورے بل کی ادائیگی کر دی گئی اب لواری ٹاپ روڈ کی مرمت کے لئے دوسرا ٹینڈرہوگا (بنیں گے اور ستارے اب آسمان کے لئے )۔

بد قسمتی یہ ہے کہ لواری ٹاپ کی سڑک کو چترال کی سڑک قرار دیکر توجہ کے قابل نہیں سمجھاجاتا حالانکہ یہ صرف چترال کی نہیں پورے ملک کے لوگ اس پر سفر کرتے ہیں لواری ٹاپ کے حالیہ حادثات میں راولپنڈی اور دیگر شہروں کے 9افراد جان بحق اور 13سے زیادہ زخمی ہوئے دیر ،سوات، پشاور اور پنڈی کے شہریوں کی کم از کم 28گاڑیاں الٹ گئیں۔

یہ سچ ہے کہ چترال میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے سماجی بیداری نہیں ہے حقوق سے آگاہی نہیں این ایچ اے اور اس کے ٹھیکہ دار کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کیلئے لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے ورنہ این ایچ اے حکام اور لواری ٹاپ کے مو جو دہ ٹھیکہ دار کے خلاف ایف آئی ار ہو سکتی ہے اگر چترال کے لوگوں نے آواز نہیں اُٹھائی تو راولپنڈی اور پشاور کے لوگ خاموش نہیں بیٹھنگیے دیر اور سوات کے لوگ اس ظلم کو کبھی برداشت نہیں کرینگے دیر کے منتخب نمائیندے بھی اپنا حق لینا جانتے ہیں اسمبلی میں آواز اُٹھانے کا سلیقہ رکھتے ہیں دیر اور سوات کے عوام بھی اپنا حق لینا جانتے ہیں۔

چترال کے عوامی نمائیندوں کا کمال یہ ہے کہ پہلے میرا بیان اخبار میں آیا پہلے میری تصویر فیس بک پر آئی آگے صفر ہی صفر ہے لواری ٹاپ کھلنے کے بعد 16دنوں میں جو حادثات ہوئے ہیں ان حادثات کے بعد آنے والے حادثات کی روک تھام کے لئے 3کاموں پر توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے نیب ،ایف آئی اے اور آئی بی کے ذریعے لواری ٹاپ کا راستہ کھولنے والے ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ ایوارڈ کرنے کی رسمی کاروائی پر تحقیقات کر وائی جائے یہ دیکھا جائے کہ ٹینڈ ر میں کتنے ٹھیکہ داروں نے حصہ لیا مذکورہ ٹھیکہ دار کو کس طرح کام ملا ؟ اس میں کتنی کر پشن ہوئی ؟ کنٹریکٹر سے پوری رقم کی ریکوری کرواکر کنٹریکٹر کو بلیک لسٹ کیا جائے۔

دوسرا کام یہ ہے کہ جو لوگ جان بحق ہوئے ان کے قتل کی ایف آئی آر این ایچ اے کے خلاف درج کروائی جائے اور ٹھیکہ دار کوا س میں فریق بنایا جائے۔ تیسرا بڑا کام یہ ہے کہ چترال کے سماجی کارکنوں ،ٹرانسپورٹروں اور تاجروں کا وفد بنا کر دیر کے عوامی نمائیندوں کے پاس بھیجا جائے ان سے درخواست کی جائے لواری ٹاپ کی سڑک کو ٹریفک کے قابل بنانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں صاحبزادہ طارق اللہ ،عنایت اللہ ،ملک محمد علی ،صاحبزادہ ثنا ء اللہ اور دیگر عوامی نمائیندوں نے لواری ٹاپ کی سڑک کو ٹریفک کے قابل بنانے کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا تو یہ سڑک ضرور ٹریفک کے قابل بنے گی۔ مرمت کے کام کا دوبارہ ٹینڈر کر کے نیک نام کنٹریکٹر کو کام دیا گیا تو حادثات کی روک تھام ہوجائیگی چترال کی منتخب قیادت ناکام ہو چکی ہے گولدور اور زرگراندہ کے دو پیدل پُل دو سالوں میں بحا ل نہ ہو سکے لواری ٹاپ کی سڑک اس قیا دت کے ہاتھوں کبھی بحال نہیں ہوگی اور سچی بات یہ ہے کہ لواری ٹاپ کی سڑک صرف چترال کی سڑک نہیں ہے یہ دیر کے عوام اور ٹرنسپورٹروں کا بھی مسئلہ ہے یہ خیبرپختونخواہ کے عوام کا مسئلہ ہے یہ راولپنڈی اور لاہور والوں کا بھی مسئلہ ہے لواری ٹاپ کی سڑک پر حادثات کی ذمہ داری این ایچ اے اور کنٹریکٹر پر عائد ہوتی ہے۔

مولانازرنبی ،سراج احمد ،عثمان الدین اور دیگر شہداء کے قتل کا مقدمہ این ایچ اے حکام کے خلاف ضرور درج ہونا چاہیے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button