کالمز

ہر سیاح جاسوس نہیں ہوتا ہے

وفاقی وزارت داخلہ نے ایسے تمام غیر ملکی سیاحوں کے لئے این او سی کی شرط عائد کی ہے جو پاکستان آنے کے بعد پاکستان کے شمال میں واقع خوبصور ت اور سیاحتی مقامات یعنی گلگت بلتستان جانے کی خواہش رکھتے ہوں۔ اُدھر چترال کی شاہی مسجد میں گذشتہ دنوں توہین مذہب کا مبینہ کیس سامنے آنے کے بعد قاقلشٹ فیسٹول منسوخ کیا گیا تھا ۔ایک حالیہ خبر کے مطابق جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چترال کے ضلعی ناظم نے 9 مئی 2017 کو ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت آئندہ پندرہ روز تک چترال کی حدود میں کسی بھی قسم کے فیسٹول کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حکم نامے کے اجراء کاجواز یہ پیش کیا گیا ہے، چونکہ چترال کے بیس افراد توہین مذہب کے واقعے کے بعد رونما ہونے والے پرتشدد واقعات اور تھانے پر حملے کے الزام میں ڈی آئی خان جیل میں قید ہیں، اسلئے جب تک ان کو رہائی نہیں مل جاتی، کسی بھی فیسٹیول کے انعقاد میں امن و امان کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔

یہ حکم نامہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب علاقے میں سیاحت کا سیزن شروع ہوچکا ہے۔ چترال میں عنقریب ایک پولوٹورنامنٹ اور مشہور و صحت افزاء سیاحتی مقام وادی کیلاش میں سالانہ چلم جوشٹ میلہ بھی منعقد ہونے والا ہے۔جس کو دیکھنے کے لئے پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا بھر سے ہزاروں سیاح اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔

چوہدری نثا ر والی وزارت داخلہ کی طرف سے سیاحوں کے لئے این اوسی کی شرط عائد کرنے کی حماقت پر آج مجھے رہ رہ کر رحمان ملک والی وزارت داخلہ یا د آرہی ہے جنہوں نے امن وامان کی بحالی کے نام پر موبائل نیٹ ورک بند کرنے کی ریت ضرور ڈالی تھی مگر کھبی سیاحوں کی آ مد و رفت پر پابندی لگانے کی حماقت نہیں کی تھی۔ وزارت داخلہ کے اس نرالے اقدام پر ان کو "داد و تحسین” ملنے کا سلسلہ جاری تھا کہ  ایسے میں چترال کے ضلعی ناظم مغفرت شاہ نے اپنے انوکھے حکم نامے کے اجراء سے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔

تاز ہ ترین اطلاعات کے مطابق مغفرت شاہ نے پولوایسو سی سیشن چترال اور دیگر حکام کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے اپنا حکم نامہ واپس لینے کا عندیہ دیا ہے ۔ اگر ایساہوا تو ڈان لیکس پر کی گئی ٹویٹ کی واپسی اور مغفرت شاہ کے حکم نامے کی واپسی میں مماثلت ضرور ڈھونڈی جاسکتی ہے ۔

گلگت بلتستان اور چترال پاکستان کے وہ سیاحتی مقامات ہیں جن پر پاکستان کی سیاحت کی صنعت کا ستر فیصد منحصر ہے۔ ان علاقوں میں غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ 9/11 اور اس کے بعد جون 2013کے سانحہ ننگا پر بت کے بعد پاکستان میں سیاحت کا شعبہ جس زبوں حالی کا شکا ر تھا۔ اس میں گذشتہ دو یا تین سالوں میں بہتری آنے لگی تھی اور خیال تھا کہ اس شعبہ سے وابستہ افراد کے اچھے دن لوٹ آئیں گے، مگر وزارت داخلہ اور ان کی ہمنوا چترال کی ضلعی حکومت کی ان بچگانہ حرکتوں سے ایک دفعہ پھر اس شعبے کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

چوہدری نثار کی وزرات کو اس بات کا شاید علم نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ روزگار سیاحت ہے۔ اس شعبے کی زبوں حالی کے وجہ سے گذشتہ پندرہ سالوں سے اس شعبے سے وابستہ ہزاروں افراد کے گھروں میں فاقے تھے جو اب خوش قسمتی سے پچھلے دو سالوں سے بہتری کی طرف گامزن تھا۔ خیال تھا کہ اس سال غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد علاقے کا رخ کرے گی مگر وزارت داخلہ کی ناسمجھی سے اس پر پانی پھیرگیا ہے۔ کسی غیر ملکی سیاح کو کیا پڑی ہے کہ وہ اتنے پاپڑ بیل کر گلگت بلتستان آجائے۔ باقی دنیا بڑی پڑی ہے جہاں سیاح جا سکتے ہیں۔ سیاح ہمیشہ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں اس قسم کی خرافات کا ان کو سامنا نہ ہو۔

ادھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پہلے سے اتنے غیر تربیت یافتہ ہیں کہ ان کو کسی سیاح کی پرائیوسی کیا چیز ہوتی ہے اس کی بھی سمجھ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی سیاح یہاں قدم رکھتا ہے تو یہ اہلکار اس پر نظر رکھنے کے نام پر مکھیوں کی طرح اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ جس کا ذکر کئی سیاح یہاں سے جانے کے بعد اپنی یاداشتوں میں کرتے رہے ہیں۔ اس پر مستزاد، اب اگر این او سی کی شرط لگا دی جائے تو سیاحوں کا دماغ خراب ہے جو ادھر کا رخ کریں گے ؟ ان کے لئے ایسے ممالک کے دروازے کھلے ہیں جہاں ویزا کا حصول انتہائی آسان ہونے کے علاوہ دیگر کئی سہولیات بھی فراہم ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ممالک میں تو ایرپورٹ پر انٹری ویزا کی سہولت میسر ہوتا ہے ۔ غیر ملکی سیاحوں کو ہمارے ہاں آنے کے لئے ایک تو ویزا کا حصول انتہائی مشکل ہوتا ہی ہے اب ایک اور مصیبت این او سی کی شکل میں ان کو جھیلنی پڑے گی۔

گلگت بلتستان اور چترال کی تاریخ،ثقافت ،آثا ر قدیمہ، موسیقی، بودو باش اور مقامی زبانوں پر تحقیق کے لئے آنے والوں کے لئے این او سی کی شرط لگا کر ان کے لئے ان علاقوں کے دروازے پہلے ہی بند کر دئیے گئے ہیں۔ اب سیاحوں کو بھی یہاں آنے سے روکا جائے گا۔ حالانکہ ان علاقو ں کی تاریخ، ثقافت اور دیگر موضوعات پر جو غیر ملکی محققین نے کام کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ اچانک وہ کونسی قیامت آن پڑی ہے کہ گلگت بلتستان کا رخ کرنے والا ہر محقیق اورسیاح سیکورٹی رسک بن گیا ہے۔

کل ہی ہمارے ایک دوست نے یہ قصہ سنایا کہ گذشتہ دنوں غیر ملکی سیاحوں کاایک جوڈا گلگت بلتستان کے کئی چیک پوسٹوں پر اپنی رجسٹریشن کرانے کے بعد ضلع غذر کے سیاحتی مقام پھنڈر پہنچا ا ور دن بھر کے سفر کی تھکا وٹ دور کرنے کی غرض سے وہاں قائم ایک ریسٹ ہاؤس میں قیام فیصلہ کر لیا۔ سیاحتی جوڈا جب گہری نیند میں تھا تو رات کے دو بجے چھ پولیس اہلکار وہاں پہنچ گئے اور زور زور سے ان کا دروازہ کھٹکٹانے لگے۔ سیاح جوڑے نے ڈرڈر کے دروازہ کھولا تو نصف درجن پولیس اہلکار بغیر اجازت کے ان کے کمرے میں گھس گئے جنہیں دیکھ کر وہ غیر ملکی سیاح بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم نے دس سے زائد مقامات پر انٹری کرایا ہے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرکے یہاں تک آئے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ پولیس ان کو سیکورٹی دینے کے لئے گئی تھی۔ مقامی پولیس کو اچھی طرح پتا ہے کہ پھنڈر کے مقام پر کسی کو بھی سیکورٹی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

اسی طرح پچھلے سال ہمارے ایک صحافی دوست نے قصہ سنایا کہ استور کے مقام پر ایک سیاح کو پولیس نے اس لئے حراساں کیا کیونکہ وہ چراس پی رہاتھا۔

ان واقعات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے اہلکاروں کی اس ضمن میں کبھی تربیت کی ہی نہیں ہے۔ وزارت داخلہ اور چترال کی ضلعی حکومت کی حرکتوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نا سمجھی اوپر کی سطح پر بھی نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحت جیسا اہم شعبہ آج تنزلی سے دوچار ہے۔

گلگت بلتستان اور چترال جیسے علاقوں میں اس شعبے کو فروغ دیکر جو زر مبادلہ کما یا جاسکتا ہے وہ کسی اور شعبے سے ممکن نہیں ہے۔گلگت بلتستان میں آنے والا ہر سیاح اوسطا یہاں ایک مہینہ گزارتا ہے اور روزانہ سو سے دو سو ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اگر یہاں سیاحوں کے آنے کے لئے مشکلات پیدا نہ کی جائیں تو سالانہ دس سے بیس ہزار غیر ملکی سیاح ان علاقوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ جس سے ان علاقوں کی غر بت اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو ایک بڑی آمدنی مل سکتی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سیاح کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی روایت تر ک کی جائے۔ حکومتی اداروں اور عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ سیاح ہماری ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ سیاحوں کے لئے مشکلا ت پیدا کرنے کی بجائے دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والی پالیسیاں بنانی ہونگی۔ سیاحتی مقامات میں تعینات پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اس ضمن میں خصوصی تربیت کرنی ہوگی۔ایک دفعہ دستاویزات اور دیگر حوالوں سے قانونی تقا ضعے پورے ہونے کے بعد کسی سیاح کا پیچھا نہ کرنے کی ہدایت کرنی ہوگی۔ سیا حوں کی پرائیویسی کا خیال کرنا ہوگا۔ سیاحت پوری دنیا میں ہوتی ہے اور ایسے ممالک ہیں جہاں اس ملک کے اپنے شہریوں سے زیادہ غیر ملکی سیاح ہر سیزن میں موجود ہوتے ہیں۔ قدرتی حسن کو دیکھنا اور اس سے لطف اندوز ہونا ہر انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے ۔ ہر انسان کے اندر ایک سیاح ہوتا ہے ۔ اپنے وسائل کے حساب سے ہر انسان سیاحت کرتا ہے۔ جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ دور دور کا سفر کرتے ہیں۔ہم اپنے قدرتی حسن کو دنیا سے چھپا کر ترقی نہیں کر سکتے۔ہمیں سیاحوں کو عزت اور احترام دینا ہوگا ۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ہر سیاح جاسوس نہیں ہوتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button